بھارت میں ففتھ جنریشن Warrior ادارہ سائبر سکیورٹی کہلاتا ہے‘ جس کے سربراہ سابق لیفٹیننٹ جنرل راجیش پینٹ (Rajesh Pant) ہیں۔ جنرل راجیش نے دو روز قبل ایک اعترافی بیان دیا‘ جس میں کُھل کر تسلیم کیا کہ پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر (DGISPR) نے بھارت سے War of Narrative جیت لی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیانیے کی جنگ اصل میں ہے کیا؟ ماہرین کے مطابق ریاستوں اور تہذیبوں کے درمیان جاری ''جنگِ بیانیہ‘‘ کے 3 حصے ہیں۔ پہلا، سوشل وار۔ دوسرا، اکنامک وار۔ تیسرا، پولیٹیکل وار۔ یہ بیانیے کی جنگ بہت پُرانی ہے‘ لیکن اس صدی کے تازہ عشروں میں جنگ لڑنے کے نئے ٹولز اور ہتھیار دریافت اور دستیاب ہیں۔ اگر بیانیے کی جنگ حقیقت نہ ہوتی تو دُنیا کی سب سے خوفناک دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کا وزیرِ اطلاعات، پال جوزف گوئبلز (Paul Joseph Goebbles) اتنا مشہور نہ ہوتا۔ فی زمانہ کسی ریاست ، ملک، سماج اور تہذیب پر پہلا حملہ ففتھ جنریشن وار سے ہی ہوتا ہے۔ بھاری انویسٹمنٹ کے ذریعے شرق سے غرب تک پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن آج یہی ہتھیار مادرِ وطن کے خلاف آزما رہے ہیں۔ مصنوعی بحرانوں اور نان ایشوز کو مونا لیزا کی مسکراہٹ میں لپیٹ کر امپورٹ کیا جا رہا ہے۔
مغرب کے ملکوں میں بڑے سے بڑے واقعے پر بھی ہماری طرح سچی، اصلی تے وڈی رپورٹنگ کی ہلکی سی ڈوز (Dose) ہی دی جاتی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں قومی خزانے سے اربوں کھربوں ڈکارنے والا مجرم ہسپتال میں ہو‘ جیل میں یا سات سمندر پار‘ اُس کو گلیمرائز کرنے کے لئے 24 گھنٹے درجنوں سکرینیں استعمال ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ڈاکو راج کے فضائل جان بوجھ کر قوم کے ذہن میں بٹھائے جا رہے ہیں۔ اگر کسی سوسائٹی کو پتا چل جائے کہ ڈکیتی کر کے یا نقب لگاکر بڑا آدمی بن جانے کا آسان راستہ کُھلا ہے تو پھر کون بے وقوف محنت اور سٹرگل کے مشکل راستے پر چلنا پسند کرے گا۔ اسی ففتھ وار نے سال 2019 کے آخری مہینے میں خطرناک یو ٹرن لیا ہے جسے '' اداروں کے تصادم ‘‘ جیسا دل فریب نام دیا گیا ہے۔
حالانکہ اداروں میں کشمکش کی یہ تاریخ بڑی طویل ہے اور کافی پُرانی بھی۔ جس کی ابتدا کا سارا قصہ قانون کی کتاب PLD سال 1958 سپریم کورٹ صفحہ نمبر 553 پر قلم بند ہے۔ مقدمے کا عنوان ہے: ڈوسو بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ۔ جس کے ذریعے ملک کے ماورائے آئین پہلے مارشل لاء کو Blood-less انقلاب کہہ کر قانونی جواز فراہم کیا گیا۔ مرحوم چیف جسٹس ایم منیر کا یہ فیصلہ دنیا بھر کے قانون کی تعلیم فراہم کرنے والے سکولوں اور کالجز میں پڑھایا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے پہلے دنیا کی کسی دوسری عدالت نے فوجی Coup کو قانونی کوّر (Cover) مہیا نہ کیا تھا۔ پاکستان کے جیورسٹ، آئین ساز ، قانون دان اور بار ایسوسی ایشنز اس فیصلے کو پسند نہیں کرتے۔ ڈوسو کیس میں Kelsen's Doctrine of Law کے قانونی نظریہ کو تفصیل سے ڈسکس اور اپلائی کیا گیا۔ دنیا بھر میں جب بھی کسی آمر کی حکومت کسی عدالتی فورم پر زیرِ بحث آئی تو یہ فیصلہ کسی نہ کسی فریق نے قانونی نظیر کے طور پر پیش کیا۔ ڈوسو کیس کا بین الاقوامی المیہ یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسے جواز بنا کر فوجی حکومتوں کو حقِ حکمرانی ملتا رہا۔
سال 1972 میں عاصمہ جیلانی کیس میں آغا محمد یحییٰ خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس حمود الرحمن نے Kelsen کے Thesis of Grundnorm کی مزید تشریح کی۔
5 جولائی 1977 کے دن کے جنرل ضیاء الحق کے ماورائے آئین اقدام کو بیگم نصرت بھٹو کیس میں چیلنج کیا گیا۔ اس کیس میں نظریہ ضرورت کی بوڑھی دُلہن نے مصنوعی دانت لگوائے۔ رنگ و روغن کر کے شبابِ ثانی حاصل کر لیا۔ اسی دور حکومت میں 24 مارچ 1981 کو پہلا عبوری آئینی آرڈر (PCO) نافذ ہوا۔ جسٹس انوار الحق‘ جنہوں نے نصرت بھٹو کیس میں ضیاء الحق کے ملٹری رول کو عدالتی کوّر (cover) دیا تھا، ملازمت سے فارغ ہوئے۔ مولوی مشتاق‘ جنہوں نے بھٹو شہید کو پھانسی کی سزا سنائی‘ کو بوجہ بد نامی حلف اُٹھانے کی دعوت ہی نہیں ملی۔
اعلیٰ عدلیہ کے جن جج صاحبان نے سال 1981 کا PCO حلف اُٹھایا‘ ان میں سے جسٹس محمد حلیم اور جسٹس نسیم شاہ، جسٹس ایم اے ذُلّہ، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس اجمل میاں، جسٹس سعید الزماں صدیقی مختلف اوقات میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدوں پر براجمان ہوئے۔ یہی حلف اُٹھانے والوں میں سندھ کے نون لیگی وزیر اعلیٰ جسٹس غوث علی شاہ بھی شامل تھے۔
اگلے PCO نے 26 جنوری 2000 کو جنم لیا۔ جسٹس بشیر احمد جہانگیری ، جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس شیخ ریاض احمد نے پی سی او حلف اُٹھایا۔ بعد میں تینوں حضرات چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ یہاں سے پاکستان کی جوڈیشیل ہسٹری مزید دلچسپ ہو جاتی ہے۔ اس دور میں اگرچہ عدلیہ کی آزادی کے حق میں بڑی بھاری انویسٹمنٹ کی گئی۔ ملک بھر میں ٹرک بھر کر جلوس نکلے۔ لنگر، مٹھائیوں، مشروبات کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمت واپس لینے والوں نے پہلی بار عملی سیاست میں حصہ لیا۔ عدلیہ کی آزادی کے نام پر آئینی عدالتوں کے جج سیاسی جماعتوں کے ٹرکوں پر چڑھ گئے۔ اس افسوس ناک تاریخ کی سینکڑوں ویڈیوز، تصویریں اور تحریریں میڈیا آرکائیوز کا سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ تاریخ اسے کرم کہے گی یا ستم۔ معلوم نہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے سال 2000 سے 2013 تک تمام چیف جسٹس صاحبان پی سی او حلف زدہ تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے 43 میں سے 41 جج صاحبان نے اسی پی سی او پر حلف اُٹھا لیا۔ دو جج صاحبان، جسٹس احسان الحق چوہدری اور جسٹس نجم الحسن کاظمی کو حلف برداری سے باہر کر دیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کیسز کے دوران وہ متنازعہ ہو چکے تھے۔ باقی کے 41 پی سی او والے ججز میں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور اُن سے پہلے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار بھی بطور Beneficiary شامل ہیں۔
ایک جج صاحب نے تو 2 مرتبہ جنرل مشرف کے PCO کے تحت حلف اُٹھایا۔ پہلی مرتبہ، بلوچستان ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کا۔ دوسری مرتبہ، سپریم کورٹ کے جج کا۔ اداروں میں تصادم کی تاریخ کا سب سے کالا شا کالا دن نومبر 1997 میں آیا جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کورٹ روم نمبر1 میں نواز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس سن رہے تھے۔ تبھی عدالت پر نواز لیگ کے لیڈروں اور کارکنوں نے حملہ کر دیا۔ سپریم کورٹ کے ججز کو جان بچانے کے لئے کمرۂ عدالت سے بھاگنا پڑا۔ پھر مبینہ طور پر نوٹوں کے بریف کیس کوئٹہ پہنچے اور سجاد علی شاہ کو مستعفی ہونا پڑا۔ جنرل مشرف کے فیصلے کے خلاف حکومت قانون سے روگردانی کا راستہ نہیں اپنائے گی۔ اس لیے اداروں میں کیسا تصادم؟؟؟
ہاں البتہ ایک ''چونا لیزا‘‘ بریگیڈ بھی ہے۔ اس کی خاموشی میں سے اداروں کا تصادم نہیں نکلے گا۔ نہ ہی جمہوریت ڈی ریل ہو گی۔ ''چونا لیزا‘‘ بریگیڈ خاطر جمع رکھے۔ خزانے کی چونا گری کا حساب خواہشوں کے تصادم سے نہیں رُکے گا۔