قیامت کا قائم ہونا حق ہے اور اس کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کتُبِ حدیث میں ''بَابُ الْفِتَن‘‘اور''اَشْرَاط السَّاعَۃ ‘‘ کے عنوان کے تحت محدّثینِ کرام نے ایسی احادیث درج کی ہیں ‘ جنہیں ایسی علاماتِ قیامت قرار دیا گیا ہے ‘ جن کا ظہور قیامت سے پہلے ہوگا‘ خواہ ایک ایک کر کے ہی کیوں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ قیامت سے پہلے یہ سب علامتیں جمع ہو جائیں گی۔ کچھ علاماتِ قیامت کا تعلق تکوینی امور سے ہے ‘ یعنی نظامِ کائنات کا درہم برہم ہوجانا‘ سورج کی بساطِ نور لپٹ جانا‘ ستاروں کا بکھر جانا ‘ پہاڑوں کا دھنکی ہوئی روئی کے بگولوں کی طرح اڑنا ‘ ہر ذی حیات کا فنا ہوجانااوریہ مُدوَّرزمین(Rounded)ہمواراور مُسَطح(Flat)میدان کی طرح ہوجائے گی اور پھر میزانِ عدل قائم ہوگا۔
قیامت سے پہلے ان احادیثِ مبارَکہ کا قطعی مصداق تو ہم کسی ایک چیز یا عنوان کو نہیں ٹھیرا سکتے ‘ لیکن جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں ‘ تو بہت سے حقائق وواقعات ایسے ہیں‘جو قیامت کا منظر پیش کرتے ہیں اور یہ قیامت خیز منظر ہمارااپنا پیدا کیا ہواہے۔ پس‘ حقیقی قیامت تو اﷲعزّوجلّ کے امر کے مطابق ‘جب آنی ہے ‘ یقینا آئے گی ‘لیکن ہم نے اپنی انفرادی اور اجتماعی بداعمالیوں ‘ بے تدبیریوں اور خدافراموشی کے سبب قیامت برپا کررکھی ہے۔ بعض احادیثِ مبارَکہ ہمارے حالات پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں‘لہٰذا ان کا بغور مطالعہ کیجیے اور عبرت حاصل کیجیے اور اگر ہوسکے تو ان حالات سے نجات کیلئے کوئی تدبیر کیجیے۔ذیل میں تنبیہ اور عبرت کے لیے چند احادیثِ مبارَکہ درج کی جارہی ہیں:۔
(۱)رسول کریم ﷺ سے ایک اَعرابی نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا ''جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘ پھرسوال ہوا: یا رسول اللہ ! امانت کیسے ضائع ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مسلمانوں کے (ملکی اور ملّی) امور کااختیار نااہلوں کے سپرد ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘ (صحیح بخاری:6496)۔(۲)آپ ﷺ نے فرمایا ''جب تمہارے سربراہان تم میں سے بہترین لوگ ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوں ‘ تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا زمین کے نیچے چلے جانے سے بہتر ہے اور جب تمہارے اربابِ اختیار تم میں سے بدترین لوگ ہوجائیں ‘ تمہارے مال دار بخیل ہوجائیں اور معاملات کی بھاگ ڈور عورتوں کے ہاتھ میں چلی جائے توتمہارا زمین کے اندر چلے جانا زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے‘‘(سنن ترمذی: 2266)۔
(۳)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قومی خزانے کو ذاتی دولت بنا لیا جائے ‘قومی امانتوں کو غنیمت سمجھ کے لوٹا جائے اورزکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کردیا جائے ‘ دین کا علم دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا جائے ‘ ایک شخص اپنی بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہوجائے‘ اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور رکھے‘ مسجد وں میں آوازیں بلند ہونے لگیں(یعنی جھگڑے ہوں)‘ بدکار شخص قبیلے کا سردار بن جائے گا‘قوم کی زمامِ اقتدارکمینوں کے ہاتھ میں آجائے گی اور (معاشرے میں )کسی شخص کی عزت (اس کے علم ‘ کرداریا شرافت کی بنا پر نہیں‘ بلکہ) اس کے شر سے بچنے کیلئے کی جائے گی‘ نشے میں مخمور ہوکر گانا گانے والیوں کا دور دورہ ہوگا‘ آلاتِ غِنا عام ہوجائیں گے ‘ منشیات (سرِعام) پی جائے گی اور اس امت کے پچھلے اپنے پہلوں پر لعن طعن کریں‘توپھر تم اس وقت کا انتظار کروجب سرخ ہوائیں چلیں گی ‘ زلزلے آئیں گے‘ زمین میں دھنسا دیے جائو گے‘ صورتیں بگاڑی جائیں گی اورپتھر برسائے جائیں گے اورعلاماتِ قیامت پے درپے آئیں گی ‘ جیسے ایک تسبیح کے ٹوٹ جانے سے اس کے دانے ایک ایک کر کے گرتے ہیں‘‘ (ترمذی:2211)۔صورتوں کے مسخ ہونے کی ایک شکل تو وہ ہے‘ جیسے بنی اسرائیل کو ان کی سرکشی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے جیساانہیںبنا دیا گیا اور ایک یہ ہے کہ اقوامِ عالَم کے درمیان بے توقیر ہوجاؤ اور تمہارے لیے کوئی مقامِ افتخار باقی نہ رہے‘ بقول شاعر :
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ہمارے لیے مقامِ غور ہے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں کردار‘ دیانت ‘ شرافت‘ امانت ‘ علم اور تقویٰ عزت وافتخار کا باعث ہے یا حدیثِ پاک کی رو سے دہشت ‘ ضرر رسانی اور خوف زدہ کرنے کی صلاحیت باعثِ تکریم ہے۔(۴)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا '' جس قوم میں خیانت غالب آجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے دلوں میں دشمن کا رعب ڈال دیتا ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرے ‘ اس کے رزق میں تنگی آجاتی ہے اور جو قوم حق کیخلاف فیصلے کرے تو اس میں خون ریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم عہدشکنی کرے تو اس پر دشمن غالب آجاتاہے‘‘(مؤطا امام مالک‘ص:476)۔ (۵)آپ ﷺ نے فرمایا ''بے شک اﷲعام لوگوں کو خاص (شخص یا طبقے)کی بدعملی کی سزا نہیں دیتا ‘ مگر جب (حالات یہاں تک پہنچ جائیں کہ)لوگ اپنے درمیان برائیوں کوپھلتا پھولتا دیکھیں اور ان کو روکنے کی اجتماعی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ‘ توجب (اجتماعی بے حسی اور لاتعلقی اس درجے تک پہنچ جائے تو)‘ پھر خواص کی بد اعمالیوں کی سزا عوام کو بھی ملتی ہے‘ ‘(مسند احمد:17720 )۔
(۶)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے : فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو ‘ جبریل امین عرض کرتے ہیں :اے پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی ) بندہ ہے ‘ جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(اس کے بارے میں کیا حکم ہے)‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اُس سمیت اس بستی کو الٹ دو ‘ کیونکہ میری ذات کے بارے میںکبھی بھی اس کا چہرہ غضب ناک نہیں ہوا ‘‘(شعب الایمان:7189)۔
حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں ‘ مُنکَرات کا چلن عام ہوتا رہا‘ لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی کاوش تو دور کی بات ہے ‘حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پراس کی جبین شکن آلود نہیں ہوئی ‘ صرف اپنی عبادت اور ذکرواذکار میں مشغول رہا اور اپنے حال میں مست رہا‘ برائیوں کو مٹانے کے حوالے سے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔(۷)نبی ﷺ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ (قتل وغارت عام ہوجائے گی ‘مگر)قاتل کو پتا نہیں ہوگا کہ وہ مقتول کو کس جرم میں قتل کررہا ہے اور نہ مقتول کو معلوم ہوگا کہ اسے کس جرم میں مار ڈالا گیا‘‘(صحیح مسلم:2908)۔
(۸)رسول کریم ﷺ نے فرمایا ''جب دو مسلمان تلواریں لیے آپس میں لڑپڑیں‘ تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنمی ہیں‘ عرض کیا گیا: یارسول اللہ ! مقتول کا کیا قصور ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ (بھی)اپنے مقابل کو قتل کرنے کا شدت سے آرزو مند تھا‘‘(بخاری :6875)۔حدیث کا منشا یہ ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں لڑ پڑیں اور دونوںہی ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں‘ تو ظاہر ہے کہ کسی ایک کوکامیابی ملے گی اوردوسرا مارا جائے گا ‘ مگر چونکہ ارادۂ قتل کے جرم میں دونوں برابر ہیں‘ لہٰذادونوں سزاوار ہیں‘ یقینا قاتل کی سزا مقتول سے زیادہ ہوگی ‘ لیکن مقتول بھی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔وہ مقتول ‘جو کسی ظالم حملہ آور‘ ڈاکو یا لوٹ مار کرنے والوں یا عصمت دری کرنے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان ‘ مال یا آبرو کے تحفظ میں ظلماً مارا جائے ‘ حدیثِ پاک کی رو سے اسے شہید کا درجہ ملے گا۔
(۹)رسول کریم ﷺ نے فرمایا ''اﷲتعالیٰ کی حدود میں مُداہنت (یعنی بے جارعایت )کرنے والا یامحرماتِ شرعیہ کے بارے میں حدودِ الٰہی کو پامال کرنے والے کی مثال اس قوم کی سی ہے‘ جو ایک کشی میں سوار ہوئے ‘ بعض نچلی منزل پر چلے گئے اور بعض بالائی منزل پر چلے گئے ‘تو وہ شخص جو نچلی منزل پر تھا ‘ اس نے اوپر والوں سے پانی مانگا ‘ انہوں نے اسے تکلیف پہنچائی اور پانی دینے سے انکار کردیا‘تو اس نے کلہاڑا لیا اور (دریا کا) پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی میں سوراخ کرنے لگا ‘ تو اوپر والے آئے اور اس سے کہا : یہ کیا کررہے ہو‘ اس نے کہا: تم نے مجھے (پانی نہ دے کر) تکلیف پہنچائی ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے ‘ تواگر انہوں نے (اس کی تکلیف) کا ازالہ کرکے اس کے ہاتھ روک لیے تواسے (ڈوبنے سے) بچالیں گے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیں گے اور اگر (وہ اپنی ہٹ دھرمی پر)قائم رہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ‘ تو اسے بھی ہلاک کریں اور خود بھی ہلاک ہوجائیں گے‘ ‘(بخاری: 2286)۔ اس حدیث کا منشاء ومُدَّعایہ ہے کہ جب معاشرہ ایک سرکش طبقے کے ہاتھوں تخریب کاری ‘ دہشت گردی ‘ قتل وغارت‘ فساد اور بدامنی کا شکار ہوجائے اور معاشرے کی نظمِ اجتماعی (موجودہ حالات میں ریاست وحکومت)ان کو ظلم وفساد سے نہ روکیں ‘ ان کی سرکوبی نہ کریں اور معاشرے کو ان سے امان نہ دیں‘ توانجامِ کار ہلاکت وبربادی سب کا مقدر ہوگی۔
جنابِ ظفر اقبال کا شکریہ: ہم نے 28ستمبر کو''جنابِ بزدار: وسیلۂ روزگار‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں علامہ اقبال کایہ شعر نقل کیا تھا:؎
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اس شعر کے پہلے مصرعے میں ہم سے ''یہ کیا‘‘کے الفاظ رہ گئے اور کمپوزر کی مہربانی سے دوسرے مصرعے میں ''ایک ‘‘ کی جگہ ''اک‘‘ لکھ دیا گیا۔ بنیادی طور پر نہ شعر وادب ہمارا شعبہ ہے اور نہ ہمیں اس میں مہارت کا دعویٰ ہے۔غالبؔ کا یہ مصرعہ ہمارے حسب ِ حال ہے: ''ہم کہاں کے دانا تھے‘ کس ہنر میں یکتا تھے‘‘۔ قادرالکلام بزرگ شاعر اور ماہر لسانیات جنابِ ظفر اقبال‘جن کا کالم روزانہ اسی صفحے کی زینت بنتا ہے‘ نے ہماری تصحیح فرمائی ‘ اس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں ‘ جو بھی ہماری اصلاح کرے ‘ وہ ہمارا محسن ہے۔ میں یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ایک مزاح نگار دوست نے کہا: آپ یوں بھی تو لکھ سکتے ہیں '' جن کا ''دال دلیا‘‘ ہماری غلطیوں سے چلتا ہے‘‘۔ سو‘ اس حوالے سے انہیں ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے‘اسی طرح انہوں نے ولی ؔدکنی کے ایک مصرعے کوموزوں کر کے یوںلکھا ہے:؎
پہلے کہتے تھے جو آپ‘ اب وہی تُو کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں
ولیؔ دکنی کی یہ رباعی 1970ء کے عشرے میں ''اخبارِ جہاں‘‘ میں طبع ہوئی تھی‘ہوسکتا ہے ‘یہ ہماری یادداشت کی غلطی ہو۔