تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-12-2019

2020ء میں جنگیں

زبان اور ٹیکنالوجی کے مابین ایک خاص رشتہ ہے۔ یہ تکنیکی ترقی کا ایک مظہرہی تھا کہ جس نے لوگوں کو کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ جیسے نئے الفاظ تخلیق کرنے پر مجبورکیا۔ اگر کہا جائے کہ یہ ان لوگوں کے خوابوں کا ادراک ہے ‘جو راکٹوں کے مرکزی دھارے میں آنے سے قبل ہی جہاز کے جیسے نئے الفاظ یا ٹیکنالوجی بنانے کی ہمت کرتے یا سوچتے تھے۔ تکنیکی ترقی ہمیں نا صرف نئے الفاظ تخلیق کرنے کی ترغیب دیتی ہے‘ بلکہ ہمیں کچھ الفاظ کی تعریف کو تبدیل کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے‘ یہاں تک کہ وہ لفظ ''جنگ‘‘ کی طرح قدیم بھی ہوں۔ میرا مطلب ہے کہ انسانوں کی موجودہ ریاستوں کے مابین ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے۔
لفظ ''جنگ‘‘ شاید اتنا ہی پرانا ہے‘ جتنا انسان۔ ہم جنگوں سے پہلے ہی شہروں سے محبت کرتے تھے۔ اس سے قبل فصلیں اگانا بھی پسند کرتے تھے۔ لڑنے سے پہلے ہم بات کرنا پسند کرتے تھے‘ مگر اب ہمیں جنگ پسند ہے‘لہٰذا اس کیلئے ہماری ہوس میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی‘ تاہم اس کے معنی ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزر رہے ہیں۔جنگ کو کسی ملک کے اندر‘ مختلف ممالک یا مختلف گروہوں کے مابین مسلح تصادم کی حیثیت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ اسی طرح ہتھیار ایسی چیز کے طور پر بیان کیا جاتاہے‘ جس کا مقصد جسمانی نقصان پہنچانا ہو۔کھلی منڈیوں اور ہیکرز کے عہد تک ہزاروں سال تک اس تعریف نے بہت بہتر کام کیا۔ جنگ کاحتمی مقصد ایک ہی ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کو نقصان پہنچانا‘ اسے معلول کرنا‘ نقصان پہنچانے کیلئے طریقے اپنانا اور اس پر قبضہ کرنا‘ لیکن طریقہ کار اور مخالفین کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے۔
مسلح تصادم کی حالت اب ضروری نہیں رہی‘ کیونکہ ہم ٹیلی کام کے شعبے میں حالیہ سائبراٹیک کے مشاہدات کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ترکی میں لاکھوں اکاؤنٹ ہولڈر اپنے اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں کرسکے۔ انہیں ایک مخصوص آپریٹر استعمال کرنے والے افراد کی خدمت نہیں مل سکی۔ ترکی کے گرنتی بی بی وی اے کے ڈیجیٹل چینلز پر ڈی ڈی او ایس (تقسیم سے انکار کی خدمت) کے زبردست حملے کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ یہ حملہ اتوار کے روز ہوا۔اگر یہ ہفتے کے کسی اور دن کے دوران ہوتا ہے‘ تو شاید ایک سنگین معاشی بحران پیدا کرسکتا تھا۔مجھے یقین ہے کہ اس کا مقصد صرف اپنی طاقت کو باور کرانا تھا‘ لیکن بروقت اسے روک دیا گیا ‘لیکن پیر کی صبح تک یہ حملے جاری تھے۔ یہ ایک انتباہ تھا اور طاقت کا مظاہرہ۔ اس طرح کی کارروائیاں بھارتی ہیکرز پاکستانی آفیشل ویب سائٹس پر بھی کرتے رہتے ہیں۔
کیا اسے ہم جنگ کا نام دے سکتے ہیں ؟ کیونکہ اصل ہتھیار استعمال نہیں ہوئے تھے۔ یہ سرحد کے قریب فوج کی پریڈنگ‘ فوجیوں پر فائرنگ کرنے‘ ان کی نقل و حرکت کی جانچ کرنے سے مختلف ہے؟ہیکرز کی جنگ اور فوجیوں کی جنگ میں واضح فرق ہے کہ یہ دو مختلف ممالک کے مابین نہیں لڑی جاتی۔ یہ ریاستوں اور افراد یا ہیکرز کے گروپوں کے مابین لڑی جاتی ہے۔ یہ افراد یا ہیکرز کے گروپ کسی بھی ملک سے ہو سکتے ہیں۔ ترکی کے گرنتی بی بی وی اے پر حملے 30 مختلف ممالک جیسے روس‘ جرمنی‘ امریکا‘ کینیڈا اور انگلینڈ
سے کیے گئے۔ معمول کے طرزِ عمل کا اطلاق واقعی نہیں ہوتا ۔ معیاری جنگ کے عمل میں‘ اگر کوئی ملک آپ سے ٹکرا جاتا ہے‘ تو آپ اسے کم سے کم سختی سے مار دیتے ہیں۔اب‘ کیاترکی کوان 30 ممالک پر حملہ کرنا چاہیے تھا؟نیزاسے کون سے اہداف کا انتخاب کرنا چاہیے؟یہ بات اہم ہے‘دوسرا سوال جو ہر ذی شعور کے اذہان میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ممالک کی ریاستیں شامل تھیں؟ یا یہ متعلقہ شہریوں کے عالمی نیٹ ورک سے مربوط حملہ تھا؟یا اس سے بھی بہتر سوال؛ کیا گرانتی بی بی وی اے اور ترک ٹیلی کام پر حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملوں یا کارپوریشنوں پر سادہ حملوں کے طور پر لینا چاہیے؟ایسے کئی سوالات جنم لیتے ؛ہیںکیا ترکی حالت جنگ میں ہے یا نہیں؟اگر حالت جنگ میں ہے‘ تو وہ جنگ کس کیخلاف لڑ ے؟کیا الیکٹرک گرڈ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟ یا فیکٹریوں کو؟ یاپھر ڈیمز کو؟
یہ منظر کسی ہالی وڈ کی فلم کا نہیں‘ بلکہ حقیقتاً امریکا اور کئی اور ممالک کو ایسے سائبر اٹیک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا نے الزام لگایاتھا کہ الیکٹریکل گرڈ کو چین اور روس نے مل کر نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کی وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ بیان جاری ہوا۔ اس کو امریکہ پر سائبر اٹیک قرار دیا گیا ‘جبکہ دوسری جانب چین اور روس نے اس الزام کو ماننے سے انکار کیا تھا‘ اسی طرح جولائی 2010ء میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونیوالے ایک مضمون کے مطابق امریکا اور اسرائیل نے ملکر ایران کے ایٹمی پروگرام کے کمپیوٹر نظام میں سٹکس نیٹ (stuxnet) نامی وائرس کو ڈالا‘ جس نے تقریباً 1000 نیوکلیئر سینٹر فیوجز کو تباہ کیاتھا‘ جس کی وجہ سے ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام 2 سال کیلئے بند کرنا پڑا اور اس کی جوابی کارروائی کے طور پر ایران نے 2012 ء میں امریکا کے بینکنگ نظام کو ہیک کرلیا اور اس کو تاریخ کی پہلی سائبر جنگ کے طور پر لیا جاتا رہا۔
مجھے یقین ہے کہ جدید دور کے سیاسی رہنما‘ اچھے اور پرانے وقت سے محروم ہیں۔جب آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ آپ جنگ میں ہیں یا نہیں ؟ کسی ایسے دشمن سے لڑنا‘ جس کا علم ہی نہیںہوتا‘لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کیاجانا چاہیے کہ ہم سائبر دور میں اپنے دشمنوں کی تعین نہیں کرسکتے ‘مگر وہ بہرحال موجود ہیں‘ اگر کوئی بھی بحیثیت ِملک مزید نقصان کا سامنا کرنا نہیں چاہتا‘ تو اسے سائبر وار کیخلاف چوکس رہنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved