تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     24-12-2019

چیف جسٹس آف پاکستان کا امتحان

خوش گمانی کی حد تک گمان یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت ایک مثالی حکومت ثابت ہوگی اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی طرف تیز گام گاڑی کی طرح لے کر آگے بڑھے گی ۔اس حکومت کو نہ کوئی خوف ہوگا ‘نہ کوئی ڈر‘ نہ اِن ہاؤس خطرہ ہوگا اور نہ ہی باہر سے‘ کیونکہ اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں کی پہلے اور دوسرے درجے کی قیادت کرپشن کے مقدمات میں سزایافتہ ہوچکی ہے اور جو باقی بچی ہے‘ وہ بھی جیل یاترا کی طرف گامزن ہے۔ عدم استحکام کے خطرات خاص طور پر اس لیے بھی کوسوں دور نظر آرہے تھے کہ سول اور فوجی قیادت باہم اس حد تک شیروشکر ہیں کہ اپوزیشن تو اپوزیشن اس ہم آہنگی کے چرچے دنیا بھر میں ہورہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ہر مقامی اور بین الاقوامی فورم پر ایک پیج ہونے کی نوید بھی سناتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم نے جس انداز سے پاکستان اور مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا‘ اس کے بعد ایک اُمید سی پیدا ہوگئی تھی کہ شاید اب کی بار ضرور کچھ اچھا ہوگا۔اس سے قبل سول اور فوجی قیادت کے مشترکہ طور پر امریکی دورے سے بھی پاکستانی عوام کے حوصلے کچھ بڑھ سے گئے تھے‘ اپوزیشن اور دشمن ملک بھارت بھی عمران خان اور جنرل باجوہ سے شکوہ کناں نظر آتے۔ذاتی معلومات کی حد تک بڑے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ سول اور فوجی قیادت کے مابین جو انڈرسٹینڈنگ کا درجہ اس وقت ہے‘ شاید ہی ماضی میں کبھی دیکھنے کو ملا ہو ۔بے تکلفی کا عالم یہ ہے کہ دونوں قیادتوں کے مابین محض ایک فون کال کی دُوری ہوتی ہے اور جس معاملے پر بھی مشاورت درکار ہو اس کے لیے فوراً بات کرلی جاتی ہے۔مولانا فضل الرحمن بھی اس ہم آہنگی اور باہمی شراکت داری کو توڑنے اور تڑوانے کے لیے اسلام آباد آئے‘ لیکن ان کی جھولی میں بھی فوری طور پر کچھ نہیں ڈالا گیا۔
اس ساری مثالی صورتحال کے باوجود بدقسمتی کی بات ہے کہ حالات ایسے ہیں کہ آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہے اورہر اقدام ہمیں پیچھے کی طرف لے جارہا ہیں۔ یہ تمام خوش گمانیاں اس وقت بدگمانیوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں ‘جب یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رُونما ہوئے کہ محسوس ہوا کہ ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔اس میں آرمی چیف کی مدت ِ منصب میں توسیع‘ جو تین ماہ پہلے ہوچکی تھی اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ معاملہ اس نہج پر پہنچ جائے گا کہ پورے کے پورے سیاسی نظام کی بساط لپٹنے میں محض سوا بالشت کے فاصلے پر رہ جائے گی۔اس مقدمے کی سماعت کے 72گھنٹے پورے نظام کے لیے قیامت محسوس ہونے لگے تھے‘پھر لاہور میں وکلا کا دل کے امراض کے ہسپتال پر حملے کا دوسرا کبھی نہ سمجھ آنے والا حادثہ ہوا اور آخرمیں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو غداری کے الزام میں موت کی سزا سنانا اور پیرا گراف چھیاسٹھ کے ذریعے غصے اور نفرت کا اظہار انتہائی الارمنگ تھا ‘جس نے سارے مقدمے سے توجہ ہٹا کر سوچوں کا رخ اس نفرت کی طرف موڑ دیا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ 
بہت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ معزز جج صاحبان سے معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن اس پیرا گراف کی کوئی مثال نہیں ملی۔بحیثیت ِقوم ہم سب کے لیے یہ رویے اور باہمی نفرت ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں کہ ان رویوں کی وجہ اور ان کے تدارک کے لیے سب کو مل بیٹھ کر غور کرنا ہوگا اور آگے بڑھنے کے نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے ‘کیونکہ پیرا گراف چھیاسٹھ کے بعد بھی صورتحال اس حد تک گمبھیر ہوچکی تھی کہ محض ایک اتھارٹی کے مضبوط اعصاب اور معاملہ فہمی نے پورے نظام کو بچا لیا‘ ورنہ دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ بہت ہوگیا۔ اب‘ مزید انتظار نہیں کیا جاسکتا اور کْچھ کر گزرنا چاہیے‘ والی صورتحال تھی‘لیکن وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک کال نے صورتحال کو ڈی فیوز کرنے میں کردار ادا کیا‘اور اس کے پیچھے جنرل باجوہ کا وہ عزم ہے کہ مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوری نظام میں ہے۔ 
ان واقعات کی ٹائمنگز اور سب واقعات کا وقوع پذیر ہونا محض اتفاق ہے یا حسنِ اتفاق‘محسوس یہی ہوتا ہے کہ اس کا ماسٹر مائنڈ کوئی ایک ہی ہے ‘جو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے اور ہمارے سسٹم میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں‘ جنہیں ہم سپاٹ فکسر بھی کہہ سکتے ہیں‘ جو ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ چلتا ہوا نظامِ مملکت ڈانواں ڈول ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اب بھی جو ردعمل سامنے آیا ہے‘ وہ اتنا کنفیوژ ہے کہ جس آپشن پر بھی عمل کیا جائے گا‘ اس سے اداروں کے مابین تلخی بڑھنے کا اندیشہ ہے ‘ کم ہونے کا نہیں۔پہلی بات تو یہ کہ درج بالا تینوں واقعات کی وجہ سے حکومت عدلیہ اور ملٹری میں بہت سی بدگمانیاں پیدا کی جاچکی ہیں۔دل کے ہسپتال پرحملے کے نتیجے میں اس وقت وکلا ہڑتال پر ہیں اور اگر عدلیہ سے انہیں کوئی ریلیف نہیں ملتا تو پھر بنچ اور بار میں بھی تلخی بڑھے گی ‘حکومت کارروائی آگے بڑھاتی ہے تو بھی۔ شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔آرمی چیف توسیع کیس ابھی زیر التوا ہے‘ پارلیمنٹ سے متفقہ قانون سازی یا پھر سپریم کورٹ سے ہی نظرثانی کی اپیل کا منظور ہونا ‘اگر ان دونوں فورمز پر کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو معاملہ پھر چھ ماہ بعد سپریم کورٹ میں ہوگا اور صورتحال پھر خطرناک سے خطرناک درجے پر ہوگی۔پرویز مشرف کیس میں اگر حکومت اپنی کمپلینٹ واپس لیتی ہے تو اس کا سیاسی بوجھ کون اٹھائے گا؟ کیونکہ کابینہ اس پر تقسیم ہے کہ کمپلینٹ واپس لی جائے۔جج صاحب کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کے فیصلے پر بھی کابینہ تقسیم ہے کہ اس اقدام سے بھی وکلا اور حکومت آمنے سامنے ہوں گے اور عدلیہ کا بھی اس پر تقسیم ہونے کا خدشہ موجود ہے۔اگر ریفرنس فائل نہ کیاگیا تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بدگمانی اور اگر ریفرنس فائل کیا گیا تو بنچ بار اور حکومت آمنے سامنے۔ ''پنتھ کے وہی دوکاج‘‘ کیونکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے الوداعی فْل کورٹ ریفرنس میں بار مکمل طور پر عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کرچکی ہے۔ساری صورتحال آرمی‘ حکومت ‘بنچ اور بار کے گرد گھوم رہی ہے اور یاد رہے کہ پرویزمشرف اور شوکت عزیز کی مضبوط حکومت کے گرنے کی ابتدا بھی ایک عدالتی فیصلے اور ایک ریفرنس سے شروع ہوئی تھی‘ جس کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔کیا تاریخ اور واقعات کا پہیہ پیچھے کی طرف گھمانے اور اس کے ہولناک نتائج سہنے کا یہ وقت ہے؟ حالانکہ دشمن ملک بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے‘ یہ اس کے ثمرات سمیٹنے کا بہترین وقت ہے ‘لیکن ہم باہم دست وگریبان ہیں۔ آج ہماری تمام سیاسی قیادت کوایک چھت تلے متحد نظر آنا چاہیے تھا‘ لیکن بقول شاعر ''یہ نہ تھی ہماری قسمت...‘‘۔
جسٹس گلزار احمد چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر ذمہ داریوں کا آغاز کرچکے ہیں ‘وہ ایک شاندار کیرئیر کے مالک ہیں‘ لیکن انہیں فوری طور ان اہم نوعیت کے مقدمات کے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ پہلے دن سے ہی ان پر ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ ہے‘ لیکن توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں گے اور اپنی فہم وفراست کو بروئے کار لاتے ہوئے بدگمانیوں کو خوش گمانیوں میں بدلنے کی کوشش کریں گے‘ کیونکہ تمام مسائل کا حل انہی کی رہ گزر سے نکلتا ہے‘ورنہ تو مملکت کا سوفٹ وئیر اتنا زیادہ وائرس زدہ ہوچکا کہ پوری کی پوری ڈسک اور سوفٹ وئیر ہی تبدیل کرنا پڑے گا‘ موجودہ سوفٹ وئیر سے لگتا نہیں کہ زیادہ دیر تک کام چلایا جاسکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved