تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     24-12-2019

خانہ کعبہ کی بازیابی اور ’’میجر ‘‘پرویز مشرف

میڈیا میں جنرل پرویز مشرف کے مداحوں کی طرف سے ملک وملت کے لیے موصوف کی خدمات کا تذکرہ دلچسپی کا موضوع ہے۔ ایک بزرگ کالم نویس نے ہفتہ(21دسمبر) کو ایک قومی اخبار میں جنرل کے ایک ایمان افروز کارنامے کا ذکر کیا ‘ اسی شام ایک ٹی وی چینل نے اس ولولہ انگیز کارنامے پر خصوصی رپورٹ بھی نشر کردی۔جنرل صاحب اپنے کارناموں کے بیان میں خاصے بے تکلف واقع ہوئے تھے ‘ اس میں وہ کسی انکسارسے کام نہ لیتے۔ وہ اپنے سید ہونے پر(بجا طور پر)فخر کرتے اور خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کی سعادت کا بھی ذکر کرتے ...لیکن اپنے اس کارنامے کا اپنی آٹو بائیو گرافی ''ان دی لائن آف فائر‘‘ میں ذکر کیا‘ نہ کسی انٹرویو یا تقریر میں اس کا حوالہ دیا۔یہ مبینہ کارنامہ خانہ کعبہ (مسجدِ الحرام)پر قابض دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کا ہے۔ 
ہماری عمر کے بیشتر قارئین کو40سال پہلے کا افسوسناک واقعہ یاد ہوگا۔20نومبر1979کو نمازِ فجر کے وقت400کے قریب دہشت گرد مسجد حرام میں داخل ہوئے اور امام ابن سبیل سمیت50ہزار کے قریب نمازیوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس المناک واقعہ نے سارے عالمِ اسلام میں غم وغصہ کی لہر دوڑا دی تھی۔ اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرین امریکی سفار ت خانے پر چڑھ دوڑے اور اسے نذرِ آتش کردیا۔ لاہور میں شارعِ فاطمہ جناح پر امریکن سینٹر غیض وغضب کا نشانہ بنا۔ مسجد الحرام کی بازیابی میں دوہفتے لگ گئے۔بعد میں یہ بات بھی عام ہوئی کہ یہ پاکستانی کمانڈوز کی کارروائی تھی؛ اگرچہ پاکستان نے‘ نہ سعودی عرب نے اس کی توثیق کی۔ اگر یہ بات درست تھی تو بلا شبہ یہ ایسا عظیم الشان کارنامہ تھا جس پر پاکستانی قوم اور پاک فوج بجا طور پر عظیم اعزاز اور بے پایاں فخر کی مستحق ہے۔ فاضل کالم نگار کے بقول‘ سعودی عرب نے کئی ممالک سے اس سلسلے میں مدد چاہی‘ سب ناکام رہے‘ کوئی قبضہ نہ چھڑا سکا۔ اس بڑی مصیبت کے وقت پاک فوج کے جوانوں نے‘جن کی قیادت کمانڈو مشرف کررہے تھے(ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق ‘تب پرویز مشرف میجر تھے) اپنی جرأت‘ ہمت اور ولولے سے حرم شریف کو دہشت گردوں سے پاک کیا۔ فاضل کالم نگار کے بقول ‘ مشرف کا یہی کارنامہ ان کی بخشش کے لیے کافی ہوگا۔ہمیں یاد پڑتا ہے کہ اڑھائی‘ تین سال پہلے احمد رضا قصوری نے بھی ایک ٹاک شو میںپرویز مشرف کے حوالے سے یہی دعویٰ کیا تھا‘ بریگیڈیئر جاوید حسین نے اسی وقت اس کی تردید کردی تھی۔
مذکورہ بالا کالم اور ٹی وی چینل کی رپورٹ کے بعد ہم نے پرویزمشرف کی ''ان دی لائن آف فائر‘‘ اپنی لائبریری سے نکالی۔ یہ جنرل کی بائیو گرافی کا پہلا ایڈیشن ہے اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں جنرل نے نا صرف اعتراف کیا‘(بلکہ بڑے فخر کے ساتھ اسے کتاب کے بیک کوَر کیلئے منتخب بھی کیا)کہ ''نائن الیون کے بعد جب القاعدہ کے بہت سے ارکان افغانستان سے پاکستان میں گھس آئے تھے‘ ہم نے ان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلا‘ ان میں سب سے بڑا اسامہ بن لادن ؛اگرچہ ابھی تک (کتاب کی اشاعت تک) مفرور تھا‘ لیکن باقی لوگوں میں سے بہت سوں کو ہم نے پکڑا۔ ان میں بعض کا دنیا کو علم ہے اور بعض کا نہیں۔ ہم نے672لوگوں کو پکڑا اور ان میں سے 369کو امریکہ کے حوالے کیا‘ جس کے عوض ہم نے امریکہ سے کئی ملین وصول کئے(We have earned bounties totalling millions of dollars)۔بعد کے ایڈیشنز میں یہ بات حذف کردی گئی۔ ہمیں اولین ایڈیشن کی یہ جلدفواد حسین چودھری کے انکل جناب شہباز حسین نے جدہ میںہدیہ کی تھی۔ شہباز صاحب اکتوبر2002ء کے انتخابات کے بعد مشرف کابینہ میں وزیر بہبود آبادی تھے‘ وہ 1980ء کی دہائی سے جدہ میں مقیم تھے‘ وہاں ٹرانسپورٹ کے بزنس کے علاوہ مدینہ روڈ پر ایک ریسٹورنٹ بھی چلاتے تھے۔وزارت کے دنوں میں بھی وہ جد ہ آتے جاتے رہتے۔ جدہ میں 12سالہ قیام کے دوران ہمیں جن احباب کی خصوصی شفقت اور محبت حاصل رہی‘ ان میں چودھری شہباز بھی تھے۔ مشرف کی ''ان دی لائن آف فائر ‘‘ کا تحفہ بھی اس کا ایک اظہار تھا۔ 
جس واقعے کی تصدیق کے لیے ''ان دی لائن آف فائر‘‘ کی ورق گردانی کی وہ تو اس کتاب میں نہ مل سکا ‘ تاہم پرویز مشرف کی زندگی کی دیگر معلومات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ کتاب کے ابتدائی ابواب ‘ مصنف کی فوجی زندگی پر مشتمل ہیں ‘جن میں انہوں نے بعض واقعات کا بے تکلفانہ اظہار کیا ہے‘ مثلاً یہ کہ کاکول اکیڈمی سے گریجوایشن کے بعد انہوں نے تھرٹی سکس لائٹ اینٹی ایئر کرافٹ رجمنٹ کا اس لیے انتخاب کیا کہ اس کی ٹریننگ‘ فائرنگ اور کورسز ‘یہ سب کچھ کراچی میں ہوتا تھا اور کراچی کا انتخاب اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہاں ان کی فیملی تھی‘ بلکہ اس لیے کہ وہاں ان کی بنگالی دوست رہتی تھی اورپھر 1965ء کے وسط کا واقعہ... جب انڈیا کے ساتھ جنگ کے بادل چھارہے تھے‘ مشرف کی یونٹ لاہور کے قریب چھانگا مانگا موو کرگئی‘تب یہ کراچی سے24گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ اس یونٹ کے باقی نوجوان افسروں میں سے بیشتر کا تعلق پنجاب سے تھا اور یوں انہیں اپنی فیملیز کے پاس جانے آنے میں چند گھنٹے لگتے۔پرویزمشرف نے کراچی جانے کیلئے اپنے کمانڈنگ افسر کو6دنوں کی چھٹی کی درخواست دی۔ ان 6دنوں کے آگے پیچھے اتوار آتا تھا اور یوں یہ8دنوں کی چھٹی بن جاتی۔ کمانڈنگ افسر نے درخواست نامنظور کردی‘ لیکن مشرف نے اس کی پروا کئے بغیر ٹکٹ کٹوائی اور کراچی ایکسپریس میں سوار ہوگئے۔ان سے قدرے سینئر جاوید اشرف قاضی نے(جوبعد میںلیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے اور مشرف کی کابینہ میں وزیر بھی رہے) انہیں فون کیا کہ وہ واپس آجائیں‘ لیکن مشرف نے8دن پورے کئے۔ اس سنگین حکم عدولی پر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہوئی‘ لیکن اسی دوران جنگ چھڑ گئی اور کورٹ مارشل رہ گیا۔
1966ء میں مشرف نے سپیشل سروسز گروپ (کمانڈوفورس) کا انتخاب کیا۔ اپنی چالیس سال سے زائد کی فوجی زندگی میں ‘ انہوں نے دو ادوار میں کل سات سال سپیشل سروسز گروپ میں گزارے۔پہلے ساڑھے چار سال جب وہ کیپٹن تھے( اور کچھ وقفے بعد )اڑھائی سال جب وہ میجر تھے۔1978ء میں انہوں نے لیفٹیننٹ کرنل پروموٹ ہو کر 44آرٹلری رجمنٹ کی کمان سنبھال لی ۔ 1979ء میں (جب خانہ کعبہ کا واقعہ ہوا) مشرف کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کے انسٹرکٹر تھے۔وہ1981ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 
''ان دی لائن آف فائر‘‘ میں وہ اس دوران کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ 1980ء کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کا پلاٹینم جوبلی سال تھا۔ اس کے لیے خصوصی تقریبات کے اہتمام کا فیصلہ ہوا۔ صدر جنرل ضیا الحق مہمانِ خصوصی تھے۔تقریبات میں رقص وموسیقی کا کلچرل شو بھی تھا‘ جس کے لیے لاہور سے موسیقاروں‘ رقاصائوں اور گلو کاروں کا طائفہ کوئٹہ کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔ اسی دوران انہیں کمانڈنٹ کی طرف سے ارجنٹ کال موصول ہوئی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ صدر صاحب رقص وموسیقی کا کوئی ایک آئٹم بھی نہیں چاہتے۔ ادھر مرد وخواتین پر مشتمل ثقافتی طائفہ کوئٹہ کے لیے ٹرین میں محو سفر تھا۔ تب مشرف نے سکھر کے سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (جو بریگیڈیئر تھے) سے فون پر درخواست کی کہ ثقافتی طائفے کو سکھر ہی میں روک لیا جائے۔ سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا ابتدائی ردِ عمل بہت غیر دوستانہ اور جارحانہ تھا کہ ایک کرنل کو جرأت کیسے ہوئی کہ ایک بریگیڈیئر کو آدھی رات کے وقت جگا کر فون کرے اور اسے اس ٹاسک کے لیے کہے‘ لیکن چونکہ معاملہ صدر صاحب کا تھا‘ اس لیے خیر رہی اور بریگیڈیئر صاحب یا کام خوش اسلوبی سے کر گزرے۔ اور شب دوبجے یہ ''مشن ‘‘مکمل کرلیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved