سیاست کو ہمارے ملک میں اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ اس کا معنی ہی عام آدمی کے نزدیک بے ایمانی‘ دھاندلی اور لوٹ مار ہے۔ حقیقت میں اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سیاست کارِ انبیاء ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ہر نبی ان کی سیاست کو منضبط کرتا تھا۔ ایک نبی کے اٹھ جانے کے بعد دوسرا نبی یہ ذمہ داری سنبھال لیتا تھا۔ آنحضورؐ خود بھی جہاں منبر و محراب پر جلوہ افروز ہوئے‘ وہیں ایوانِ اقتدار میں سربراہِ مملکت کے فرائض بھی ادا کیے۔ اسلام کے نزدیک سیاست دین کا ایک اہم شعبہ ہے۔
پاکستان میں بھی پاکباز سیاستدان ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں؛ اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر۔ ہم آج‘ جس شخصیت کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کی دیانت و امانت ‘ قابلیت و ذہانت اور جامع شخصیت کا ہر دوست اور دشمن معترف ہے۔ ہماری مراد جماعت اسلامی کے عظیم رہنما پروفیسر غفور احمد سے ہیں‘ جو 26دسمبر 2012ء کو داغِ مفارقت دے گئے تھے۔
مرحوم سے براہ راست ذاتی تعارف 1972ء میں ہوا۔ 5-A ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں سردیوں کی ایک دوپہر کو وہ اسلام آباد سے تشریف لائے۔ مجھے صاحبزادہ محمد ابراہیم صاحب کے ساتھ ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اور باہمی تعارف بھی ہوا۔ پروفیسر صاحب ‘ان دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرکے آئے تھے۔ مرکز جماعت میں پروفیسر صاحب نے مولانا کو ان کے کمرے میں جا کر اسمبلی کے حالات و واقعات کی بریفنگ دی۔ پروفیسر صاحب جماعت کے چار رکنی پارلیمانی گروپ کے لیڈر تھے۔ مولانا سے ملاقات کے بعد باہر نکلے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور اپنا نام بتایا۔ میرا ہاتھ چھوڑنے سے پہلے اپنی دائمی مسکراہٹ اور شیرینی کے ساتھ مجھ سے پوچھا: ''اچھا تو آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ''کوئی خاص کام تو نہیں کر رہا؛ البتہ گجرات میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چھپنے والے ایک ہفت روزہ رسالے ''الحدید‘‘ کی نگرانی کر رہا ہوں۔‘‘پھر پوچھا : ''آپ نے ایم ۔ اے کیا ہے ‘تو اب پی۔ ایچ۔ ڈی کرلو۔‘‘ میں نے کہا: ''ارادہ تو ہے‘ مگر پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد کیا فرق پڑے گا ؟سوائے اس کے کہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے گا۔‘‘
مرکز جماعت میں اس زمانے میں جو بزرگ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے‘ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی ذات میں انجمن اور منفرد شخصیت کا حامل تھا۔ مرکزی ناظم مالیات شیخ فقیر حسین صاحب بڑے بذلہ سنج اور نکتہ طراز بزرگ تھے۔ قبل اس کے کہ پروفیسر صاحب مجھے کوئی جواب دیتے‘ شیخ صاحب نے جوپاس ہی کھڑے ہوئے تھے‘ فرمایا: ''فائدہ تو بہت ہوگا‘ پروفیسر صاحب کو دیکھیے‘ چند سال کالج میں پڑھایا اور اب پروفیسر ی مستقل طور پر ان کے نام کا حصہ ہے۔ آپ بھی مستقل ڈاکٹر صاحب بن جائیں گے‘‘۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شیخ صاحب محترم پروفیسر صاحب سے اتنے بے تکلف ہیں۔ بعد کے ادوار میں کئی مواقع پر یہ عقدے مزید کھلتے چلے گئے۔ بہرحال اس موقع پر سید صدیق الحسن گیلانی صاحب اور خود پروفیسر صاحب کھلکھلا کر ہنسے۔
73ء کے دستور میں اسلامی جمہوری دفعات شامل کروانے میں حزب ِاختلاف کی سبھی جماعتوں کا اہم کردار ہے‘ مگر بنیادی مسودے میں ترمیمات اور حتمی آئین کی فقرے بندی پروفیسر صاحب کی قابلیت و مہارت کی مرہونِ منت تھی۔ 73ء کے دستور کا جب بھی حوالہ دیا جائے‘ میرے ذہن میں پروفیسر صاحب کا نام گونجنے لگتا ہے۔ وہ اکیلے بھی ایک جماعت تھے۔ وہ سپاہی بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ وہ شرق و غرب سے واقف تھے ‘مگر نہ مشرق کی بے خدا تہذیب کے پھندے میں آئے ‘ نہ مغرب کے مادر پدر آزاد تمدن کی زلف کے اسیر ہوئے۔ خود جماعت کے اندر جس بات کو غلط سمجھا ‘اس پر بے لاگ تنقید کی ‘ مگر بازار اور اخبار میں نہیں‘ مناسب پلیٹ فارم کے اوپر۔ وہ ایک مردِ آفاقی تھے۔ حق بات ڈنکے کی چوٹ کہتے‘ مگر اندازِ گفتگو میٹھا اور شیریں۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں؎
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے‘ نہ غربی
گھر میرا نہ دلّی‘ نہ صفاہاں‘ نہ سمر قند!
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں‘ نہ تہذیب کا فرزند!
پروفیسر صاحب میں بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ مرنجاں مرنج انسان تھے‘ اپنی بے پناہ صلاحیتوں ‘ شہرت ‘ مقبولیت اور قابلیت کے باوجود ان کے اندر انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خوراک اتنی کم تھی کہ بعض اوقات تعجب ہوتا تھا کہ اس قدر بھاگ دوڑ کرنے اور فعّالیت کے ساتھ بلا تاخیر ہر اجلاس اور پروگرام میں پہنچنے والے یہ قائد اتنی کم خوراک کے ساتھ کیسے اتنی بھاگ دوڑ کرتے ہیں؟ بہرحال اپنی آخری بیماری سے قبل وہ ہر لحاظ سے تو انا اور فِٹ تھے۔ ان کے اندر بے پناہ قوتِ ارادی تھی۔ نام و نمود اور نمائش سے ہمیشہ مجتنب رہے۔ پنجاب کے دُور دراز اضلاع میں بھی ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا‘ بارکونسلوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے تو ان کا تعارف کرواتے ہوئے جب مقامی احباب تعریف و تحسین کے الفاظ استعمال کرتے تو وہ انہیں منع کر دیتے اور فرماتے کہ پروگرام شروع کرائو۔
پروفیسروں اور دانشوروںسے گفتگو ہو یا وکلا و صحافیوں کے سامنے اظہارِ خیال‘ جلسۂ عام ہویا احتجاجی مظاہرہ‘ پروفیسر صاحب دس پندرہ منٹ میں اپنا پورا مافی الضمیر بیان کر دیتے اور متعلقہ موضوع پر کوئی تشنگی نہ رہنے دیتے۔ صحافیوں کے ہر سوال کا جواب بھی ان کی طرف سے نپاتلا اور نہایت جامع ہوتا تھا۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں خاموشی کے ساتھ بیٹھتے اور اپنی باری پر اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے کہ کوزے میں دریا بند کردینے کا محاورہ مجسم صورت میں حقیقت کا روپ دھارتا نظر آتا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی رکنیت کے دوران انہوں نے جس بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ اس کا ہر شخص معترف ہے۔ ان کی تقاریر میں کوئی شور ہنگامہ نہیں ہوا کرتا تھا‘ بلکہ اپنی عظیم شخصیت اور مرتبے کے عین مطابق ‘وہ پر مغز نکات اٹھاتے اور ہر موقف مضبوط استدلال کے ساتھ پیش کرتے۔ 73ء کے دستور کی منظوری کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد تو شہید ہوچکے تھے اور جماعت کے صرف تین ارکان اسمبلی میں رہ گئے تھے‘ مگر اللہ کے فضل سے جماعت کا وزن اسمبلی کے اندر اور باہر ہر جگہ مسلّم تھا۔ ان ارکان میں پروفیسر صاحب کے علاوہ محمود اعظم فاروقی صاحب (کراچی) اور صاحبزادہ صفی اللہ صاحب تھے ‘جو دیر سے منتخب ہوئے تھے۔
پیپلزپارٹی کو 70ء والی اسمبلی کے اندر‘ مغربی پاکستان میں بہت بڑی اکثریت حاصل تھی اور ان کے بیشتر ارکان انتہائی زبان دراز‘ بلکہ منہ پھٹ تھے۔ اس کے باوجود اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی گفتگو کے دوران ایوان میں پرُوقار ماحول پیدا ہوجاتا تھا۔ سبھی ان کی بات غور سے سنتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ اس زمانے میں ملک کے مشہور اور بزرگ صحافی‘ مصطفی صادق مرحوم اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اجلاس کی جھلکیاں دیکھ کر آئے ‘تو 5-A ذیلدار پارک میں مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ انہوں نے مولانا مرحوم سے کہا: '' مولانا ایوان میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں‘ مگر سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی رکن کی کسی بات میں وزن اور تاثیر تھی تو یہ وہی ارکان تھے جو جماعت کی تربیت گاہوں سے ہو کر نکلے۔‘‘ پروفیسر غفور صاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب کابالخصوص تذکرہ کرنے کے بعد مصطفی صادق نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جماعت کو چھوڑ کر چلے گئے‘ مگر پیپلز پارٹی کے دور ارکان اسمبلی رائو خورشید علی خان اور کوثر نیازی بھی جب بات کرتے‘ تو محسوس ہوتا کہ انہیں بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آتا ہے۔
مصطفی صادق مرحوم کی بات سن کر مجھے بے ساختہ ایک فارسی شاعر غنی مرحوم کا یہ شعر یاد آیا ہے:؎
غنی روزِ سیاہِ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
بعد میں ایک دو نہیں بے شمار ''نورِ دیدہ‘‘ جو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی تربیت سے نکھر کر ہیرے بنے تھے ‘سیاست کی منڈی میں جا کر اپنی قیمت لگوانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ہوشیار لوگ کہلاتے ہیں‘ حقیقت میں ناداں ہیں‘ اقبال نے کیا خوب کہا تھا؎
مرا طریق امیری نہیں‘ فقیری ہے
خودی نہ بیچ‘ غریبی میں نام پیدا کر
میں کئی مرتبہ پروفیسر صاحب کو ملتے ہوئے ادب و احترام سے ان کے گھٹنے چھوتا تو گھٹنے پیچھے کرکے میرے شانوں پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتے کہ ''جیتے رہو۔ ‘‘ مرحوم کے یہ الفاظ ''جیتے رہو۔‘‘ اتنے پیار بھرے لہجے اور محبت کے انداز میں سماعت نواز ہوتے تھے کہ ان کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے۔ 26 دسمبر کو اپنے اس عظیم محسن کو بستر پر جامد و ساکت دیکھا تو آنکھیں تر ہوگئیں۔ ان کی پیار بھری دعا شدت سے یاد آئی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ان جیسے لوگ کم ہی دنیا میں نظر آتے ہیں۔ لوگ اپنے مفادات کے پیچھے دوڑتے ہیں‘ وہ اپنے مقصدِ حیات کو پاگئے تھے اور ان کی ساری تگ و دو اسی کی خاطر وقف رہی۔ ؎
جس بندۂ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار
شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق
اُس مردِ خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندۂ آفاق ہے‘ وہ صاحبِ آفاق