آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں شخص کے جینز میں خرابی ہے یا ذہانت تو فلاں کے جینز میں پائی جاتی ہے ۔جینز میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خصوصیت اس شخص کو وراثتی طور پر اپنے آ بائو اجداد سے ملی ہے ۔ اگر ایک شخص جنیاتی طور پر (genetically)ذہین ہے ‘تو وہ ایک گھنٹے وہ سب کچھ سمجھ سکتاہے ‘ جو کہ جنیاتی طور پر غیر ذہین شخص کو سمجھنے میں دس گھنٹے لگیں ۔ حسد‘ غصے اور سخاوت سمیت ساری عادات انسان کو اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملتی ہیں ۔ اکثر لوگوں کی آواز‘ بال‘ قد کاٹھ اور شکل و صورت اپنے والدین سے مشابہہ ہوتی ہے ‘ اسی طرح بیماریاں بھی ورثے میں منتقل ہوتی ہیں ۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس علاقے کے پانی میں خرابی ہے یا میں سر میں تیل نہیں ڈالتا‘ اس وجہ سے میرے بال گر رہے ہیں ؛حالانکہ گنجا پن اس کے جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ خواہ وہ اپنے سر کو منرل واٹر سے دھونا شروع کر دے یا وہ ہمیشہ اسے تیل میں بھگوئے رکھے‘اس کے بال گر کے رہیں گے۔ ہاں؛ البتہ کسی کسی کو بال چر یادوسری کوئی بیماری لاحق ہو تو وہ علاج سے ٹھیک ہو سکتی ہے ۔
انسان کا قد کاٹھ‘ شکل و صورت ‘ دانتوں کی ساخت ‘ ذہین یاغیر ذہین ہونا ‘ یہ سب کچھ ہمارے جینز میں پہلے سے درج کر دیا گیا ہے ۔ ایک آدمی بزدل ہوگا یا بہادر ‘ یہ بھی جینز میں لکھا ہوتا ہے ۔ اس میں initiativeلینے کی صلاحیت ہوگی یا نہیں ‘ وہ مستقل مزاج ہوگا یا متلون ‘ وہ شرمیلے مزاج کا حامل ہوگا یا بے باک ‘سب کچھ لکھ دیا گیا ہے ۔ ایک شخص ایسا ہوتاہے کہ صحرا میں ریت پر آرام سے سو جاتا ہے ۔ دوسرے کے ذاتی کمرے میں بھی ذرا سی بے ترتیبی ہوتو وہ سکون سے سو نہیں سکے گا ۔ ایک منظر ایک شخص کے لیے بے معنی ہوگا‘ دوسرے کے لیے اس میں ایک پوری داستان رقم ہوگی ۔ ایک آواز ایک شخص کے لیے بے معنی ہوتی ہے ۔ دوسرے کے لیے اس میں کئی سُر چھپے ہوتے ہیں ۔یہ سب سمجھنے کی صلاحیت جینز میں درج ہوتی ہے ۔
زندگی میں انسان جو کچھ کرتاہے ‘ وہ سب کرنے کا رجحان (Tendency)اس کے جینز میں درج ہوتاہے ۔اب آجائیے ‘دوسری طرف۔زندگی کی مختلف قسمیں ہیں ۔ زمین پر جو بڑے جاندار زندگی گزار رہے ہیں ‘ ان میں مچھلی اور سمندری حیات سب سے زیادہ پرانی ہے‘ یعنی 53کروڑ سال ‘ پھر ریپٹائلز ہیں‘ یعنی مگرمچھ‘ سانپ اور رینگنے والے جانور ۔ ریپٹائلز کی عمر کا اندازہ 31کروڑ سال ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ 31کروڑ سال پہلے کی بات ہے ‘ جب دنیا کے پہلے ریپٹائلز پیدا ہوئے تھے ‘ پھر میملز ہیں ‘ جن میں مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ۔ یہ بیس کروڑ سال پہلے زمین پر نظر آتے ہیں ۔ ان میں شیر اور ہاتھی سے لے کر کتے اور ہرن جیسے جانور شامل ہیں ۔ میملز میں میمری گلینڈ ہوتاہے؛لہٰذا مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ۔
اس کے بعد میملز میں سے پرائی میٹس (Primates)جنم لیتے ہیں ۔یہ بڑے دماغ والے میمل تھے‘ جو کہ درختوں اور جنگلوں پہ چڑھ جاتے ہیں ۔ان کی عمر کا اندازہ آٹھ کروڑ سال ہے۔ان کی نظر دوسرے میملز سے بہترہے ۔ کئی میملز کے برعکس ان کی یہ نظر رنگین ہے ۔ ان کے ہاتھوں کی ساخت بھی بہتر ہے ۔ دوسرے میملز کی نسبت ان کا دماغ بڑا ہے ۔ یہ جتنی قسم کی تقسیم ہے ‘ یہ ہوا میں نہیں کی گئی۔ دانتوں کی ساخت‘ کھوپڑی کا حجم‘ دم‘ آنکھوں کی ساخت‘ دودھ پلانے کی صلاحیت ‘مختلف ہڈیوں کی ساخت اور پرندے کے پر ‘سانس لینے کے لیے پھیپھڑوں کا استعمال یا پھر گلپھڑوں کا‘ یہ سب وہ بنیادی چیزیں ہیں‘ جن کی بنیاد پر جانوروں کی مختلف گروہوں میں تقسیم کی گئی ہے‘ لیکن یہ تقسیم صرف عقل والوں کے لیے ہے۔فاسلز کا ریکارڈبھی اس کے لیے بنیادی ڈیٹا فراہم کرتا ہے ۔
پونے دو کروڑ سال پہلے کی بات ہے ‘ کہ پرائمیٹس میں گریٹ ایپس کا گروپ پیدا ہونا شروع ہوا۔ ان میں گوریلا‘ چمپینزی ‘ اور بونوبو بھی شامل ہیں ۔ گریٹ ایپس کو hominidaeبھی کہتے ہیں ‘جبکہ گریٹ ایپس میں ہومو نی اینڈرتھل اور ہومو اریکٹس سمیت کئی ایسے جاندار شامل تھے‘ جو کہ ناپید ہوگئے۔ حیاتیات انسانوں کو بھی پرائمیٹس میں شمار کرتی ہے ۔
گریٹ ایپس میں انسان نے سب سے زیادہ جس جانور پر تحقیق کی ہے ‘ وہ چمپینزی ہے ۔ یہ ضرورت پڑنے پر اوزار استعمال کرتا ہے ۔ مزاجاً جنگجو ہے ۔وقت آنے پر ایک چمپینزی دوسرے چمپنزی کو قتل کر سکتا ہے ۔ حسد اور غصے کے دوران گروپ میں شامل کوئی بڑا چمپینزی ایک نومولودبچے کو بھی قتل کر سکتا ہے ۔
لیکن اب ‘تحقیق کا رخ بونوبو کی طرف مڑ رہا ہے ۔ یہ بھی گریٹ ایپس میں شمار ہوتا ہے ۔ گو چمپنزی قد اور وزن میں اس سے بڑا ہوتاہے ‘لیکن دیکھنے میں دونوں ایک ہی جیسے نظر آتے ہیں ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک بونوبو کبھی کسی دوسرے بونوبو کو قتل کرتے نہیں دیکھا گیا۔ یہ صلح صفائی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر اشتعال پیدا ہوتا ہے ‘تو فوراً جسمانی ملاپ شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میںجذبات تبدیل ہو جاتے ہیں ‘ رنجش ختم ہو جاتی ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چمپینزی اور بونوبو 99.6فیصد تک ایک ہی جیسے جینز رکھتے ہیں ۔ صفر اعشاریہ چار فیصد جینز کے فرق سے ایک متحمل مزاج ہے ‘ دوسرا مشتعل۔
اب آجائیں انسانوں کی طرف ۔ کرّہ ٔ ارض کی تاریخ میں جتنی منظم جنگیں انسان نے کی ہیں اوراپنی ہی سپیشیز کے جتنے لوگوں کو انسان نے قتل کیا ہے ‘ اس کی کہیں کوئی دوسری مثال نہیں ۔آج جو ٹائی لگا کر انسان رواداری کا درس دے رہا ہے ‘ یہ جھوٹ کا لباس ہے ۔وقت آنے پر انسان کے اندر کا وحشی فوراً باہر نکل آئے گا۔ انسان نے لوہے اور آگ (بارود)کو استعمال کرتے ہوئے پستول سے لے کر راکٹ تک ایجاد کیے ۔ دو عالمگیر جنگوں میں دس کروڑ افراد کا قتل تاریخ میں درج ہے ۔ ایٹم بم بنایا اور اسے اپنی ہی سپیشیز پر گرا دیا ۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ دنیا آج ایک عالمگیر ایٹمی جنگ کے دھانے پر کھڑی ہے ۔ یہ عین ممکن تھا کہ ایسا نہ ہوتا‘ اگر خدا انسان کے جینز میں وہ تبدیلی کر دیتا ‘ جو کہ چمپنزی کے مقابلے میں بونوبو میں کی گئی ہے ۔انسان پر سکون ہو جاتا ۔ کبھی کوئی قتل نہ ہوتا‘ کبھی کوئی جنگ نہ ہوتی ۔ ساری انسانی ذہانت مفید ایجادات پر ہی مرتکز ہوتی ۔
لیکن انسان اور یہ دنیا خیر و شر کی کشمکش کے لیے تخلیق کی گئی تھی۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ تکلیف میں کون صبر کرتاہے اور خوفناک حالا ت میں کون دلاور ثابت ہوتاہے ۔کون وسائل ہڑپ کرنے کی خاطر دوسرے کو قتل کر دیتاہے اور کون شہید کرب و بلا کی صورت اپنا خاندان خدا کی بارگاہ میں قربان کر دیتاہے ۔
دنیا یوٹوپیا بنائی جا سکتی تھی ۔ انسانی مزاج چمپینزی کی بجائے بونوبو جیسا بنایا جا سکتا تھا ‘ دانستہ طورپر نہیں بنایا گیا۔ ہمارے مزاج میں ایک چنگاری سلگتی رہتی ہے ‘ جو بھڑک اٹھنا چاہتی ہے۔ انسان مستقل طور پر آزمائش سے گزارا جا رہا ہے ۔ کون اس چنگاری پہ عقل کا ٹھنڈا پانی ڈالتا رہتاہے اور کون وسائل ہڑپ کرنے کی خاطر دوسرے کو قتل کر ڈالتا ہے؟چمپینزی کے راستے پر کون چلتاہے اور بونوبو کے نقشِ قدم پہ کون ؟