تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     25-12-2019

مانچسٹر اور بہاولپور کی اُجلی سپہر

سردیوں کی دھوپ بہت قیمتی ہوتی ہے لیکن بہت مختصر۔ پتہ ہی نہیں چلتا اور دن تمام ہوجاتا ہے ۔ آج نومبر کی اُجلی دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اور میں بہاولپور میں ایک خوبصورت مقام پر ہوں۔ یہ ایک بلند جگہ ہے جہاں ایک طرف پانی‘ اونچے لمبے درخت اور پہاڑیاں ہیں۔ ہوا جب ان پہاڑیوں سے گزرتی ہے تویو ں لگتا ہے یہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہی ہیں اسی لیے انہیںWhispering Hillsکہتے ہیں۔ یہ ایک گیسٹ ہائوس ہے‘ دوپہر کا وقت اور میں باہر لان میں ایک سفید رنگ کی کرسی پر بیٹھا ہوں‘ کل ہی میں بہاولپور پہنچا تھا ‘بغیر کسی پیشگی پروگرام کے۔آنا تو مجھے ملتان تھا لیکن پھر بیٹھے بٹھائے بہاولپور کا پروگرام بن گیا۔ و ہ کوئی آواز تھی جس کے پیچھے پیچھے میں چل پڑا تھا‘ بالکل ویسی آواز جو میں نے کئی برس پہلے مانچسٹر میں سنی تھی۔
وہ مانچسٹر کا ایک عام سا دن تھا اور میں یونیورسٹی آف مانچسٹر کے کیفے ٹیریا میں پروفیسر راج کے ہمراہ بیٹھا تھا ‘جو لوگ میرے کالموں کے قاری ہیں وہ پروفیسر راج کے کردار کو جانتے ہیں۔ وہ سوشل تھیوری کا گُروتھا اور یہی میری اور اس کی دوستی کی بنیاد تھی۔ راج سے ہر ملاقات میں میرے لیے سیکھنے کا سامان ہوتا۔ کیفے ٹیریا کی گلاس وال کے سامنے آکسفورڈ روڈ پرچہل پہل نظر آ رہی تھی۔ہمارے سامنے بھاپ اُڑاتی سیاہ کافی کے کپ رکھے تھے اور راج میکس ویبر (Max Weber) کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا کہ کس طرح ویبر کے نظریات نے سوشل تھیوری اور سوشل ریسرچ کو متاثر کیا۔میکس ویبر راج کا پسندیدہ رائٹر تھا۔ اسی دوران کسی نے''ایکسیوز می‘‘کہا ۔ہم نے بیک وقت آواز کی سمت دیکھا ‘ وہ یونیورسٹی کی ہی ایک لڑکی تھی‘ شکل سے ایشیائی لگتی تھی ‘اس نے راج کو مخاطب کرتے ہوئے انگریزی میں کہا'' سر ہمارا یونیورسٹی کا ڈرامیٹک کلب ہے جس کے تحت ہم ایک ڈرامہWuthering Heights سٹیج کر رہے ہیں ‘کیا آپ ٹکٹ خریدنا پسند کریں گے؟ یہ ہماری حوصلہ افزائی ہو گی‘‘۔راج یونیورسٹی کے طالب علموںمیں بہت مقبول تھا‘ ان کے ساتھ راج کا رویہ ہمیشہ بے تکلفی کا ہوتا۔ لڑکی کے ہاتھ میں سٹیج ڈرامے کے ٹکٹ دیکھ کر راج کی آنکھوں میں شرارت کی چمک آئی‘ اس نے کہا :ٹھیک ہے ہم ٹکٹ لیںگے لیکن اس کے لیے تمہیں کچھ سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔ اس کے سا تھ ہی اس نے ا سے کرسی پر بیٹھنے کی پیشکش کی اور مجھے کہا کہ میں مہمان کے لیے ایک کپ کافی لاؤں۔ میں اُٹھ کر کائونٹر پر گیا اور کافی کا کپ لے کر واپس آیا تو راج مجھ سے مخاطب ہوا: لو بھئی یہ زینب ہے اور پاکستان کی رہنے والی ہے‘ اب باقی گفتگو اُردومیں ہو گی ۔ زینب بولی؛ آپ نے سوال پوچھنے تھے ؟ راج ہنس پڑا اور بولا آپ ڈرامے میں کیا رول پلے کر رہی ہو؟ زینب نے کہا: میرا رول کیتھرین کا ہے ۔راج نے کہا :Wuthering Heightsکو سٹیج پر پیش کرنا مشکل کام ہے ۔ یہ کہہ کرراج نے ہنستے ہوئے جیب سے والٹ نکالا اور کہ پانچ ٹکٹ‘‘۔ زینب کچھ حیران ہوئی‘ اس کی آنکھوںمیں حیرت دیکھ کر راج بولامیری فیملی کے لیے ہیں یہ ٹکٹ۔ پھر وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور بولا مجھے کچھ کام ہے‘ آپ آرام سے کافی پیو‘ مجھے یقین ہے تمہارا ڈرامہ بہت اچھا ہو گا اور تمہارا رول سب سے زیادہ پسند کیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے راج لمبے لمبے قدموں کے ساتھ کیفے ٹیریا سے باہر نکل گیا۔مجھے معلوم تھا راج یہاں اکیلا رہتا ہے اس کی کوئی فیملی نہیں صرف زینب کی حوصلہ افزائی کے لیے اس نے ٹکٹ خریدے تھے ۔ راج کے جانے کے بعد زینب نے مجھ سے پوچھا :پاکستان میں میں کہاں رہتا ہوں؟پڑھائی کے بعد پاکستان واپس جانے کا پروگرام ہے؟ میں نے اسے بتایا میں راولپنڈی میں رہتا ہوں‘ برٹش کونسل کے سکالر شپ پر آیا ہوں‘ راج کے ساتھ دوستی ہے اور دو ہفتے بعد کورس ختم ہونے پر پاکستان واپس جا رہا ہوں۔ اُس نے کہا: اوہ آپ پاکستان واپس جا رہے ہیں‘ میرا تو پورا ایک سال پڑا ہے ۔میں نے پوچھا: آپ کا تعلق کس شہر سے ہے: وہ ہنستے ہوئے بولی: بڑے تاریخی شہر سے میرا تعلق ہے ‘پتا نہیں آپ وہاں گئے ہیں یا نہیں۔میرا شہر بہاولپور ہے ۔میں نے کہا :سنا تو بہت ہے لیکن جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔وہ بولی :آپ ضرور جائیں‘ آپ کو بہت اچھا لگے گا‘ وہاں دراوڑ قلعہ ہے ‘صادق پیلس ہے ‘نورمحل ہے اور پھر میری پسندیدہ جگہ ویسپرنگ ہلز (Whispering Hills) بھی ہے۔پھر وہ ہنس کر بولی: کہتے ہیں نور محل میں آسیب کا سایہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ملکہ جس کے لیے یہ محل تعمیر کرایا گیا تھا وہاں ایک رات رہی تھی اور پھر شاہی خاندان نے اس کو رہائش کے لیے استعمال نہیں کیا۔ میں ہنس پڑا ‘اوہ تم انگلش لٹریچر کی سٹوڈنٹ ہو اور آسیب پر یقین رکھتی ہو۔ وہ بولی: پتہ نہیں لیکن کہتے ہیں ہماری دنیا کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے جو میٹا فزیکل دنیا ہے ‘جس کی منطق ہماری دنیا سے بہت مختلف ہے۔ مانچسٹر کی ہلکی ہلکی دھوپ بادلوں سے نکل آئی تھی اور کیفے ٹیریا کی گلاس وال سے چھن کر کیفے میں آ رہی تھی۔ دھوپ میں یوں لگ رہا تھاجیسے زینب کے بالوں نے آگ پکڑ لی ہو۔ اس کے چہرے میں اس کی شفاف اآنکھیں نمایاں تھیں ۔اُس روز مجھے خبر نہیں تھی کہ میں اسے آخری بار دیکھ رہا ہوں ۔میں دو ہفتے بعد پاکستان آ گیا اور کاروبارِ زندگی میں اُلجھ گیا لیکن زینب پاکستان واپس نہیں آئی۔ بہت بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ مانچسٹر میں سڑک کے ایک حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔
اور اب ملتان کا پروگرام بنا تو اچانک مجھے زینب کی آواز آئی‘ آپ نے بہاولپور ضرور جانا ہے اور میرے قدم خود بخود اُٹھنے لگے۔ قلعہ دراوڑ اور صادق پیلس دیکھنے کے بعد میں نور محل گیا۔ گائیڈ نے بتایاکہ یہ اطالوی اور مقامی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ دو منزلہ عمارت ہے‘ جس کے بتیس کمرے ہیں‘ تہہ خانے میں سرنگوں کا ایک نظام ہے‘ جس میں پانی چھوڑا جاتا تو گرمیوں میں اندر کی ہوا خنک ہو جاتی۔ محل کی تعمیر 1872 ء میں شروع ہوئی اور 1875 ء میں اختتام کو پہنچی۔ اب ہم محل کے مرکزی ہال میں ہیں‘ سٹیج پر نواب صاحب کی کرسی رکھی ہے جسے چاندی سے بنایا گیا تھا ۔چھت سے فانوس کی روشنی ہر طرف پھیل رہی تھی۔ لکڑی کاکام انتہائی دیدہ زیب تھا۔ گائیڈ نے بتایا کہ جس ملکہ کے لیے محل تعمیر کیا گیا تھا اس نے یہاں صرف ایک روز قیام کیا۔ کہتے ہیں وہ پہلے دن ہی چھت پر گئی تو اسے قریب ہی ملوک شاہ کا قبرستان نظر آیا‘ اسے یوں لگا پوری فضا میں ایک حزن کی کیفیت ہے۔ اگلے روز ہی اس نے نواب صاحب سے کہاکہ یہ جگہ رہائش کے لیے مناسب نہیں۔ گائیڈ ہمیں نور محل کے بارے میں تفصیل سنا رہا تھا اور دس لوگوں کا گروپ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔اب ‘گائیڈ ان آئینوں کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کس طرح انہیں باہر سے منگوایا گیا اور کیسے انتہائی احتیاط سے انہیں کراچی سے بہاولپور لایا گیا۔ ہمارے گروپ کے لوگ سرک کے قدم آدم آئینے کے قریب آ گئے ۔اب آئینے میں ہماری شکلیں نظر آ رہی تھیں ‘اچانک میں نے آئینے میں زینب کو دیکھا۔وہی صاف‘ شفاف اور روشن آنکھیں۔ فانو س کی روشنی میں یوں لگ رہا تھا اس کے بال ابھی آگ پکڑ لیں گے۔ میں نے اچانک پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں مجھے اپنے گروپ کے ٹورسٹ نظر آئے۔ اس کے بعد گائیڈ محل کے باقی حصوں کے بارے میں کیا بتاتا رہا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں۔ پوری رات میں صحیح طور پر سو نہ سکا۔
آج مجھے بہاولپور سے واپس جانا ہے‘ لیکن زینب نے ویسپرنگ ہلز (Whispering Hill) جانے کو کہا تھا‘ کچھ دیر پہلے ہی میںیہاں آیا ہوں۔کیسی پر فضا جگہ ہے ۔لان میں سرما کی دوپہر کی اُجلی دھوپ پھیلی ہے ۔ مجھے زینب کا خیال آگیا‘ میں سوچنے لگا :زینب کی زندگی بھی سردیوں کی دھوپ کی طرح تھی۔ بہت قیمتی‘ لیکن بہت مختصر۔ پتا ہی نہیں چلا اور دن تمام ہوگیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved