دل پھر افسردہ سا ہے۔ کوئی ایسا ذاتی معاملہ نہ ہے‘ نہ کبھی تھا ‘ جس سے پریشانی ہو۔ مجبوری ہر انسان کی یہی ہے کہ اُس کے اندر کا موسم‘ باہر کے حالات سے متاثر ہوتا ہے۔ وطن ِ عزیز کے معروضی حالات بے یقینی اور بحرانی کنفیوژن سے ایسے دو چار ہوئے‘ جیسے ایک ہی دن میں بوسٹن کا موسم کئی بار تبدیل ہوتا ہے۔ عدمِ استحکام اسے ہی کہتے ہیں کہ صبح ہو یا شام‘ کسی ایسے مسئلے سے دو چار ہونا پڑے‘ جس کے بارے میں ایک دن پہلے تک قیاس بھی نہیں کر سکتے ۔ اگرماضی میںجھانکنا گوارا نہیں تو بارہ سال پیچھے جاتے ہیں‘ جس دن تین نومبر 2007ء کو پرویز مشرف صاحب نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے‘ آئین کی کچھ شقوں کو تبدیل کیا تھااور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو گھروں میں محبوس کر دیا گیا تھا۔ اُس دن خاکسار کی جامعہ کی طرف سے عمران خان صاحب کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ وہ واحد سیاستدان ہیںجنہیں لمزیونیورسٹی میں دو بار خطاب کی دعوت دی گئی ۔ دریں اثنا مجھے فون آیا کہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذہو چکا ہے۔یہ سن کر ذہن میں اُبال آیا اور غم و غصے کے ملے ہوئے جذبات اور خان صاحب کے انتظار میں جذباتی تقریر کر ڈالی۔ نوجوان اساتذہ میں سے کچھ تو اس قدر اشتعال میں آئے کہ پنجاب اسمبلی تک جلوس نکالنے پر آمادہ ہو گئے۔ سب کو ٹھنڈا کیا‘ اس اعلان کے ساتھ کہ اگلے روز ہم سب احتجاجی جلوس کیمپس کی چار دیواری کے اندر نکالیں گے۔
عمران خان صاحب تب پہنچے جب ہم تمام تقاریر اور اعلانات کر چکے تھے۔ سلام دعا کے بعد پوچھا کہ معلوم ہے کہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ ہو چکاہے؟ جواب نفی میں تھا کہ وہ راستے میں تھے۔ جو کچھ ہم سے رہ گیا تھا‘ اُس کی کسر خان صاحب نے نکال دی۔ کیمپس کے اندر جو حفاظتی انتظامات انہیں مہیا تھے‘ ان سے فائدہ اٹھا کروہ محفوظ ٹھکانے کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اطلاع یہ تھی کہ انہیں گرفتار کرنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ حسب ِ وعدہ اگلے روز ہم نے جلوس نکالا‘ اور ایوب خان کے خلاف تحریک کی روایات کو اگلی نسل تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری کر دی۔ ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہ تھا‘ نہ اب ہے‘بات آئین کی پاسداری اور اصول کی تھی‘ عدلیہ کو معزول کرنا اور ججوں کو حراست میں رکھنا غلط فیصلہ تھا۔
پرویز مشرف صاحب میں جہاں خامیاں ہیں‘ وہاں خوبیوں کا ذکر نہ کرنازیادتی ہو گی۔پرویز مشرف صاحب نے عدلیہ کے حوالے سے خود تسلیم کیا تھا کہ اس معاملے میں وہ غلط تھے۔اس بات کا اقراربڑی بات ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت ہی نہیں رہی کہ کوئی اپنے غلط فیصلوں کو عمر کے آخری حصے میں ہی غلط کہہ دے‘ لیکن ہمیں اس کا ادراک تھا اور آئین کی پامالی پر خاموشی ہمارے پیشے کی روایات کے خلاف ہے۔ اسی طرح حکمران طبقوں کی کرپشن‘ بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے‘ نتائج کچھ بھی ہوں۔
مشرف صاحب کی حکومت نے ہمیں سزا دینے کی ٹھان لی کہ ہمیں ڈرایا دھمکایا جائے۔ ہمارے قرب و جوار کے تھانے میں ہمارے خلاف رپٹ درج کرا دی گئی‘ الزام یہ لگایا گیا کہ خاکسار اور چار دیگر اساتذہ تھانے کی دیواروں پر حکومت کے خلاف نعرے لکھتے ہوئے دیکھے گئے۔ متعدد سرکاری اہلکار ہماری گرفتاری کے لیے جامعہ کے باہر موجود نظر آئے۔ اس معاملے میں خاکسار نے بار کونسل کے اس وقت کے سربراہ سے رابطہ کیا کہ کیا کیا جائے؟ مشورہ یہ تھا کہ گرفتاری کسی صورت نہ دیں‘ ضمانت نہیں ہو سکے گی۔ چند دن کے بعد نیپال میں ایک کانفرنس میں چھپ چھپا کر نکل گیا۔ میڈیا میں رہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ''مقدمے‘‘ کی خبر باہر کی دنیا کے دوستوں تک بھی جا پہنچی۔ شکر ہے کہ نہ ہم گرفتار ہوئے‘ اور نہ حکومت اپنا مقدمہ چلانے میں سنجیدہ نظر آئی۔
ان دنوںعدلیہ کی بحالی کے لیے ملک گیر تحریک چلی۔ میڈیا‘ جو پرویز مشرف صاحب کی آزادہ روی کی پالیسی کے سہارے مرتب و منظم اور پھیلا تھا‘ قابو میں نہ تھا۔ تب تک ملک ایک نیم جمہوری انداز میں آگے بڑھ رہا تھا‘ اقتصادی‘ تعلیمی اور انتظامی اصلاحات کے مثبت نتائج سامنے آ رہے تھے۔ پرویزمشرف صاحب‘ عالمی سطح پر اور داخلی طور پر جمہوریت کا درجہ پا چکے تھے۔ کوئی سیاسی مزاحمت ان کے خلاف نہ تھی اور نہ ہی کوئی سیاسی قیدی حوالات میں بند تھے۔ ''جمہوریت‘‘ کے وارث بیرونی دوستوں اور دولت کے زور پر عیش و آرام سے‘ کچھ آہوں اور حسرتوں کے ساتھ گزار رہے تھے۔پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو کوئی بھی فوجی حکومت‘ خالصتاً فوجی نہ تھی۔ سب حکمران طبقات‘ زمیندار گھرانے‘ سیاسی قائدین کا غالب حصہ‘ نوکر شاہی‘ عدلیہ اور دانشوروں کا ایک حصہ ان کا حامی اور اقتدار میں حصہ دار تھا‘ مگر جب حکمران پر برا وقت آیا‘ تو سب دم دباکر ایسے بھاگے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ دس‘ دس سال وزارت کرنے کے بعد ایسا بیانیہ کہ خدا کی پناہ کہ وہ تو پیدائشی اور خاندانی طور پر جمہوریت پسند تھے۔تاہم منافقت کبھی سیاست کا روپ نہیں دھار سکتی کہ سیاست کی بنیاد سچائی ہے‘ جو کچھ عرصہ چھپائی تو جا سکتی ہے تحریک کے صفحات سے مٹائی نہیں جا سکتی ۔
پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ تفصیل سے لکھ چکا ہوں‘ غلط اقدام تھا اور ہم نے مزاحمت کی اور جاری رکھی‘ لیکن غداری کا لیبل ناقابلِ سمجھ‘ ناقابلِ یقین اور ناقابل توجیح ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں حصہ لینے اور اس کی بحالی پر فخر ہے‘ مگر منصفوں کو بھرتی کرنے کا معیار اور طریقہ کار میں توازن اور پیشہ وارانہ احتیاط کو بروئے کار نہ لایا گیاتو ہمارا جمود اور پستی کی طرف سفر یونہی جاری رہے گا۔ جس ذہنی کیفیت کے عالم میں یہ فیصلہ لکھا گیا ‘ قوی اُمید ہے‘ بلکہ یقین ہے کہ عدلیہ کی اعلیٰ سطح پر جب اس پر غور ہوگاتو ازالہ ہو جائے گا۔ لیکن بہت نقصان ادارے کی ساکھ اور ملک کے استحکام کو ہو چکا ہوگا۔ آج ہم پھر ایک نئے موڑ پر اور ایک نئے زاویے میں تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ میدان اب پرویز مشرف کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان سج چکا ہے۔ اتنی بھی کیا جلدی تھی‘ کہ مقدمہِ ملزم کو سنے بغیر جس کی سزا موت ہے‘ اپنے انجام کو پہنچے۔ آئین کی کونسی شق ہے‘ یا کوئی ایسا قانون جو سزائیں کھلم کھلا سفاکی اور وحشت کا متقاضی ہو؟
ملک میں اضطراب ‘ انتشار اور اداروں میں تنائو واضح طور پر نظر آ رہا ہے اور ہر کوئی صف بندی میں مصروف اور جو بیکار گھر بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی فضول برقی پیغامات آگے سے آگے پھیلا رہے ہیں ۔ ہر قسم کی سکرین سے اب اوب سی آنے لگی ہے۔ ایک پروگرام جس میں خاکسار بھی فون پر شریک تھا ‘ میںسابق چیف جسٹس انور ظہیر الدین جمالی صاحب نے مختصر فیصلہ آنے پر بہت پتے کی بات کہی‘ جس میں فہم اور بصیرت چمکتی ہے۔ کہا: ''عدلیہ کا کام ملک میں انتشار پھیلانا نہیں اُسے ختم کرنا ہے‘‘۔ ساری دنیا میں اعلیٰ عدلیہ ‘قانون اور آئین کی تشریح معاشرے میں استحکام اور امن کے مقاصد کو سامنے رکھ کر کرتی ہے۔ ہر جگہ یہ نظریہ دم توڑ چکا ہے کہ بیشک طوفان کیوں نہ برپا ہو جائے‘ منصفوں نے انصاف اور عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ ایسا ہی ہونا چاہیے‘ مگر انصاف اور عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ‘ سیاق و سباق‘ سماجی اور سیاسی عوامل اور ممکنہ نتائج کو بھی سامنے رکھا جائے۔ آئین کی توضیح و تشریح کا غالب نظریہ اب یہ ہے‘ کم از کم ایک صدی سے‘ کہ لفظی تشریح سے گریز کیا جائے‘ معروضی حالات اور معاشرتی مقصدیت کو سامنے رکھا جائے۔
آخری بات‘ غصہ اور انتقام کی آگ نے ہمارے سیاسی اکابرین کو تباہ کر ڈالا ہے۔ میاں نواز شریف بضد رہے کہ وہ پرویز مشرف سے انتقام لیں گے۔ دونوں بہت علیل ہیں‘ خدا ان کو صحت عطا فرمائے ۔تاریخ سے نہیں‘ کہ وہ اس کی دانائی سے آشنا نہیں رہے‘ مگر اپنے تجربے سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ اس قوم نے تین باراقتدار سے سرفراز کیا‘ خاندان کو بلندی اور دولت نصیب کی‘ دنیا میں کم ہی مثالیں ہیں۔ دل تنگ ہی رہا۔ برد باری اور برداشت طبیعت کاحصہ نہ بنی۔ اس فیصلے پر اب کیا تبصرہ کریں‘ یا لکھیں یا بولیں‘ لگتا ہے انتقام کی آگ ہمارے قومی اداروں کو بھی جھلسا رہی ہے۔ معاشرہ تو پہلے ہی بھسم ہو چکا ہے‘ ہر نوع کی انتہا پسندی میں۔ کیا لکھیں کہ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔