لاہور کا پنج ستارہ ہوٹل کے ایک بہت ہی قرینے سے سجائے گئے ہال میں بھارت ا ور پاکستان کے ترقی پسند دانشور اور لکھاری جمع تھے اور مہمان خصوصی کے طور پر میاں محمد نوازشریف بھر پور تالیوں کی گونج میں ڈائس پر آئے اور کہنے لگے کہ '' دونوں اطراف رہنے والوں میں کوئی فرق نہیں ‘ہم سب ایک ہیں‘ بس ایک بے نام سی لکیر ہے‘ جس نے ہمیں تقسیم کیا ہوا ہے‘آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی آلو گوشت کھانے والے ہیں‘ تو پھر بتایئے ہم میں اور آپ میں کیا فرق ہے؟‘‘۔ جیسے ہی میاں نواز شریف کی زبان سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان واقع سرحد کو صرف ایک بے نام سی لکیر کہا گیا ‘تو ہال میں بیٹھے بھارتی مہمان اور سامعین اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر دیر تک تالیاں بجاتے رہے ۔
آج ‘بھارت کا ہر مسلمان گھر سے نکلتے ہوئے خوف کھا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر نے ہلا کر رکھ دیا‘ جب ایک ڈاڑھی والے شخص کو ہندو انتہا پسندوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے‘چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ '' ان کو ان کے لباس سے پہچان کر ماریں گے‘‘۔ میاں نواز شریف آپ تو اس وقت لندن کی پر آسائش اور مہکتی فضائوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ کاش! آپ کچھ دیر کیلئے بھارت کے کسی شہر میں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے کہ یہ سرحد ایک لکیر ہے ؟ اس لکیر کے دوسری جانب رہنے والوں پر کیا بیت رہی ہے؟ آپ کی لکیر کے مطا بق‘ ایک طرف خدا کے ماننے والے ہیں تو لکیر کے دوسری طرف ہنومان اور گائے کے ماننے والے ہیں اور خدا کو ماننے والوں کا جس طرح جینا حرام کیا جا رہا ہے ‘جس طرح دن دھاڑے انہیں اٹھایا جا رہا ہے اور انہیںان کی درسگاہوں میں الٹا لٹکایا جا رہا ہے‘ کاش! آپ اسے دیکھنے کی ہمت کر سکتے ۔میاں صاحب اگر آپ کا نام عبد الغفارہے اور آسام بھارت میں اپنے والدین کے گھر1972ء میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے پاس بھارت میں اپنی میٹرک تک کی تعلیم کا سرٹیفکیٹ موجود ہے ۔آپ کے پاس اپنا پاسپورٹ بھی ہے اور راشن کارڈ بھی اور جب سے آپ نے ڈرائیونگ شروع کی ہے تواس کیلئے بھارت کی مجاز اتھارٹی کا جاری کردہ ڈرائیونگ لائسنس بھی ہے اور قومی شناختی کارڈ بھی اورAadhar card کارڈ ہولڈر بھی ہیں‘ لیکن ان تمام بنیادی شناختوںکے با جود آپ کو بھارت کی شہریت نہیں دی جا ئے گی‘ کیونکہ آپ اپنے مرحوم باپ کے ساتھ اپنا کوئی قانونی رشتہ ثابت نہیں کر سکتے۔
یہ ہے‘ وہCAB کا کالا قانون‘ جو مودی کی انتہا پسند ہندو جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ نے بھارت بھر میں نافذ کر دیا ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ کا نام غفار نہیں‘ بلکہ کجری وال ہے اور تاریخ پیدائش کے مطا بق‘ آپ1972ء میں ڈھاکہ بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے اور2012 ء میں ترک سکونت کر کے آسام چلے آئے۔ اب‘ آپ سے جب پوچھا گیا کہ اپنا سکول سرٹیفکیٹ دکھایئے ‘تو آپ نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے سکول سرٹیفکیٹ نہ ہونے کا کہہ دیا۔ جب آپ سے راشن کارڈ اور پاسپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو ایک مرتبہ پھر آپ کا جواب نفی میں ہے اور آپ کہتے ہیں کہ میرے پاس ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں‘ پھر آپ سے کہا جاتا ہے کہ قومی شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس جیسی کوئی دستاویز ہی دکھا دیجئے تو آپ بڑے آرام اور بے فکری سے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے افسر کو بے نیازی سے بتا دیتے ہیں کہ آپ کے پاس یہ دونوں کاغذات بھی نہیں۔ آخر میں آپ سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمہارے پاس اپنی شناخت کیلئے دستاویزی ثبوت نامی کوئی شے بھی نہیں تو پھر کیا ہوا آپ ہندو تو ہیں نا ؟جس کا آپ جے شری رام کے نعرے سے جواب دے دیتے ہیں‘ تو یہ سننے کے بعد آخری سوال کیا جاتا ہے کہ چلیں اب آپ Aadhar کارڈ تو دکھا سکتے ہیں ؟ لیکن سامنے کھڑا کجری وال ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے اس سے بھی معذوری دکھادیتا ہے۔ اب‘ قریب کھڑا عبد الغفار سوچنے لگتا ہے کہ اس کی طرح کجری وال کو بھی بھارت کی شہریت دینے سے انکار کرتے ہوئے اسے کیمپ میں منتقل کر دیا جائے گا‘ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ جب ان تمام شناختی دستاویزات کے نہ ہونے کے با وجود بھارتی سرکار کا بیٹھا ہو افسر راشٹریہ سیوک سنگھ کی دی گئی ہدایات کے مطا بق‘ ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ کجری وال کو بھارت کی شہریت دے دیتا ہے۔
بارہ دسمبر کو بھارت کی فاشسٹ تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ نے بھارتی پارلیمنٹ سےCAA( سٹیزن ایمنڈمنٹ بل) اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر منٹوں میں منظور کرا لیا۔ اس بل کی رو سے اگر آپ تیس چالیس برس پہلے آپ کے والدین بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے بھارت پہنچے تھے اور آپ کی پیدائش آسام یا کلکتہ سمیت بھارت کے کسی بھی شہر میں ہوئی ہے تو چالیس برس کی طویل مدت کے بعد آپ کو بھارت کا شہری تسلیم کرنے کیلئے بنیادی شرط یہ رکھ دی گئی ہے کہ یہ سہولت صرف جین‘ پارسی ‘سکھ یا عیسائیت سے تعلق رکھنے والوں کیلئے ہو گی ‘نہ کہ مسلمانوں کیلئے ۔اگر آپ مسلمان نہیں‘ تو آپ سے کوئی دستاویز طلب نہیں کی جائے گی۔ صرف اپنے ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ جین اور پارسی ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہی تو آپ کو بھارت کی شہریت دے دی جائے گی ‘لیکن اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کو یہ سہولت نہیں دی جا سکتی ۔گویا مسلمان کا لفظ اب‘ بھارت میں حرف ِ غلط بنتا جا رہا ہے اور مودی سرکار نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بھارت میں کہیں دوسری جگہوں سے آ کر بسنے والے مسلمانوں کو اس قابل نہیں سمجھا جائے گا کہ بھارت کی شہرت دی جا سکے۔ چاہے وہ یہاں پچاس برسوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ مسلمان نہیں اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ چاہے ایک ماہ یا ایک سال پہلے بھارت میں داخل ہوئے ہیں‘ تو آپ بھارت کے شہری گردانے جائیں گے۔
''اج آکھاں مولانا آزاد نوں ہن قبراں وچوں نکل کے ویکھ۔۔۔۔ ہندوستان دے مسلماناں تے ظلم دے پہاڑ ٹٹ دے ویکھ‘‘ اور پھر بتانا تم سچے تھے یا جناحؒ ؟ یہ بات صرف مولانا عبد الکلام آزاد تک ہی محدود نہیں تھی‘ بلکہ اپنے علم اور سلسلے کے مطا بق‘ خود کو بہت بڑے عالم کے طور پر قرار دینے والے ہمارے ملک کے بڑے بڑے لوگوں نے بھی آج سے72 برس قبل مسلم لیگ اور علامہ اقبالؒ سمیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے دو قومی نظریئے کو ایک فریب سے تشبیہ دیتے ہوئے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانستے ہوئے کل کی کانگریس آج کی جنتا پارٹی کے چنگل میں پھنسانے کی بھر پور کوششیں کیں‘ انہیں گاندھی‘ نہرو اور سردار پٹیل سمیت ہندوستان کے بڑے بڑے ہندو صنعت کاروں نے متحدہ ہندوستان کی صورت میں بڑے بڑے عہدوں کے پرُ کشش لالچ دیئے تھے۔
میاں صاحب یاد رکھئے گاکہ ہندوستان سے ہجرت کرتے ہوئے پانچ لاکھ مسلمانوں کا خون‘ مقبوضہ کشمیر کی ایک لاکھ بیٹیوں‘ بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کا خون اور آج بھارت کی گلی گلی میں مسلمانوں کی ٹوٹتی ہوئی ہڈیوں اور بہائے جانے والے لہو کی قسم ‘یہ لکیر نہیں‘ بلکہ صدیوں سے کھینچی گئی حد بندی ہے۔