تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     26-12-2019

ہندوستان میں ایک اور پاکستان بنانے کی کوشش

بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد سے پُرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ پولیس فائرنگ سے درجنوں مظاہرین ہلاک و زخمی ہوئے۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند رکھی گئی۔ آسام اور تری پورہ میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اب بھی مظاہرے جاری ہیں لیکن مودی حکومت اس معاملے پر بات چیت کی بجائے طاقت کے استعمال کا طریقہ اپنائے ہوئے ہے۔ بھارت میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون بھارت کے اندر ایک نیا پاکستان بنانے کی کوشش ہے۔
بھارت کا شہریت ترمیمی قانون بظاہر ہندوستانی شہریوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت کے متعلق نہیں اس کے باوجود احتجاج ہو رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ اب شہریت کا حق مذہب کی بنیاد پر ہو گا۔
مودی حکومت کا بنایا گیا شہریت ترمیمی قانون دراصل بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔ اس قانون سے بھارت کا سیکولر امیج مکمل طور پر پامال ہو گیا ہے اور بھارت اب تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ملک نہیں رہا۔ شہریت ترمیمی قانون لانے سے بہت پہلے سے مودی حکومت بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ مودی حکومت نے کئی ریاستوں اور شہروں کی مسلم شناخت تبدیل کی۔ فیض آباد ایودھیا ہو گیا، الٰہ آباد کو پریا راگ قرار دیا جا چکا ہے۔ مغل سرائے سٹیشن اب دین دیال اپادھیائے سٹیشن بن گیا ہے۔ مودی حکومت حب الوطنی کے نام پر ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لے جا رہی ہے جہاں دوسرے دھرموں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانا بھی اسی ہندو راشٹر ایجنڈے کا حصہ ہے۔ بابری مسجد کا فیصلہ بظاہر سپریم کورٹ نے دیا اس لیے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ مودی حکومت کا ایجنڈا نہیں لیکن جھاڑ کھنڈ میں اسی ہفتے ہوئے انتخابات کی الیکشن مہم کے دوران بی جے پی کے امیت شا نے چار ماہ کے اندر رام مندر کی تعمیر کا نعرہ لگا کر ہندو ووٹ پکے کرنے کی کوشش کی۔
مودی حکومت اچانک سے جنوبی ایشیا میں اقلیتوں کے حقوق کی چیمپئن بن کر سامنے آئی تو اس کی وجہ بی جے پی کی مسلم دشمنی ہے۔ یہ سب کو سمجھ آ رہا ہے کہ ستر سال سے پناہ گزینوں کے لیے کوئی بھی قانون یا پالیسی نہ بنانے والا بھارت اچانک پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کا محافظ بننے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟ جنوبی ایشیا میں کہیں اگر ہندو قابل رحم حالت میں ہیں تو سری لنکا کے تامل ہندو ہیں‘ لیکن بھارت کے شہریت ترمیمی قانون میں ان تامل ہندوؤں کو شہریت دینے کی بات کیوں نہیں کی گئی؟ ان سب سوالوں کا جواب ایک ہی ہے ، بی جے پی کی مسلم دشمنی۔
بھارت کے شہریت ترمیمی قانون کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ کے ساتھ ملا کر دیکھنا ہو گا۔ شہریت ترمیمی قانون دراصل این آر سی کے نفاذ کی کوشش ہے۔ مودی حکومت دو ہزار چوبیس تک پورے ملک میں این آر سی کی تکمیل چاہتی ہے۔ این آر سی کے تحت ہر شخص کو اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنا ہو گی۔ اگر کوئی غیر مسلم دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے شہریت ثابت نہیں کر پاتا تو شہریت کے نئے قانون کے تحت شہریت کا حق دار بن جائے گا‘ لیکن اگر کوئی مسلم شہریت ثابت نہیں کر پاتا تو اس نئے قانون کے تحت شہریت کا حق دار نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کی ایک سو اسی ملین مسلم آبادی کی اکثریت کو اب شہریت ثابت کرنا ہو گی اور اس کی شہریت داؤ پر لگ چکی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی شہریت کس طرح داؤ پر لگائی گئی ہے؟ یہ بھی دلچسپ کھیل ہے۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے پاسپورٹ، ووٹر کارڈ یا نیشنل شناختی کارڈ کی کوئی وقعت نہیں، بلکہ دادا یا نانا کی جائیداد کے کاغذات جمع کرانا ہوں گے۔ جن لوگوں کی جائیداد کے کاغذات جمع کرائے گئے ان کے ساتھ رشتہ بھی ثابت کرنا ہو گا۔ جس گائوں یا محلہ میں آبائواجداد رہتے تھے وہاں سے کاغذات لانا ہوں گے۔ اگر ان دستاویزات میں نام کے ہجے الگ ہیں اور موجودہ دستاویزات سے نہیں ملتے تو اس کا مطلب ہے کاغذات درست نہیں اور بھارتی شہریت داؤ پر لگ چکی ہے۔ آسام میں ہزاروں مسلمان اسی بنیاد پر حراستی کیمپوں میں بھجوائے جا چکے ہیں۔ نام کے ہجے میں معمولی سا فرق شہریت ختم کرنے کے لیے کافی ہو گا، مسلمانوں کی بڑی اکثریت کے نام میں محمد ہوتا ہے، محمد کے ہجے انگریزی میں او یا یو کے فرق کے ساتھ ہی شہریت مشکوک کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بی جے پی مسلمانوں سے انتقام لے رہی ہے۔ لوک سبھا کی پانچ سو تینتالیس سیٹوں میں سے ایک سو پچیس کے قریب ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمان پندرہ فیصد یا اس سے زیادہ ہیں اور مسلم ووٹ ان سیٹوں پر فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کو شکایت ہے کہ دو ہزار چودہ سے پہلے انہیں اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے مسلم ووٹ نے براہ راست کردار ادا کیا۔ دو ہزار چودہ اور دو ہزار انیس میں بی جے پی نے ہندو ووٹروں کو سبز باغ دکھا کر اکٹھا کر لیا‘ لیکن اقتصادی صورت حال اور بیروزگاری کی بڑھتی شرح سے ہندو ووٹروں کی بڑی تعداد بھی ان سے بدظن ہونے والی ہے، جھاڑ کھنڈ میں اسی ہفتے بی جے پی کا اقتدار سے باہر ہونا اس کی ایک نشانی ہے۔ بی جے پی کی پالیسی یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ہندو ووٹر ان سے بدظن ہو اور مسلم ووٹر ان بدظن ووٹروں کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اقتدار سے نکال باہر کریں، مسلم ووٹروں کی اکثریت کو ووٹ اور شہریت سے ہی محروم کر دیا جائے۔
بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون پیش کرتے ہوئے ہمسایہ ملکوں میں اقلیتوں پر ظلم اور اس کی وجہ سے وہاں کم ہوتی اقلیتی آبادی کے دعوے کئے۔ پاکستان کے بارے میں بھی دعویٰ کیا گیا کہ انیس سو سینتالیس میں یہاں غیر مسلم آبادی تئیس فیصد تھی جو اب گھٹ کر تین اعشاریہ سات فیصد رہ گئی ہے۔ یہ دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار اس جھوٹ کا پول کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ انیس سو اکاون میں جب متحدہ پاکستان میں پہلی مردم شماری ہوئی تو غیر مسلم آبادی کا تناسب چودہ اعشاریہ بیس فیصد تھا۔ موجودہ پاکستان اور اس وقت کے مغربی پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب تین اعشاریہ چوالیس فیصد، جبکہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں اقلیتیں تئیس اعشاریہ بیس فیصد تھیں۔ پاکستان میں انیس سو اکہتر کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی تین اعشاریہ پچیس فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح انیس سو اکیاسی میں تین اعشاریہ تیس فیصد اور انیس سو اٹھاسی میں تین اعشاریہ ستر فیصد تھی۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کا تناسب وہی ہے جو انیس سو سینتالیس میں تھا۔ بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں کمی ضرور آئی لیکن اس کی وجہ بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے کی کوشش میں بھارت کا سرحدیں کھول کر دس ملین افراد کو بھارت میں پناہ دینا ہے تاکہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرکے مشرقی پاکستان میں مداخلت کا جواز بنایا جا سکے۔
ہندو قوم پرست مودی اور اس کی جماعت نے شہریت قانون کا یہ گڑھا مسلمانوں کے لیے کھودا ہے لیکن اسے اندازہ نہیں اس گڑھے میں بھارت کی کئی ریاستیں گرنے والی ہیں۔ آسام میں اس قانون کے خلاف احتجاج اور کرفیو کا نفاذ اس کی پہلی نشانی ہے۔ آسام اور مغربی بنگال جیسی کئی ریاستیں اس قانون کو ماننے کو تیار نہیں اور اپنی ہی ریاست میں خود کو اقلیت بنتا دیکھ رہی ہیں۔ بھارت میں اکثریت کی بنیاد پر اقلیت کے حقوق دبانے کا جو چلن بن رہا ہے اس کے نتیجے میں بھارت کے اندر مزید کئی پاکستان جنم لیں گے۔ کانگریس کو تقسیم برصغیر اور قیام پاکستان کا طعنہ دینے والی بی جے پی اپنی پالیسیوں سے علیحدگی کی کئی نئی تحریکوں کو جنم دے گی اور پہلے سے چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں کو مضبوط کرے گی۔ مودی کے ہوتے ہوئے بھارت کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہے نہ کسی بیرونی دشمن سے خطرہ، کیونکہ مودی خود ہندوستان کی تقسیم کی بنیادیں رکھ چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved