تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     26-12-2019

خوشگوار حیرت

پنجاب اسمبلی سے اپنی آشنائی کو اب تو کم از کم دودہائیاں گزر چکیں۔ جب کسی کے ساتھ تعلق اور وہ بھی اچھے تعلق کو دودہائیوں کا طویل عرصے گزر جائے ‘تو اس کا مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔اس پسندیدگی کی کوئی ایک وجہ نہیں‘ بلکہ وجوہ ہیں۔ ان کا تذکرہ کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں قطع و برید کی وجہ سے اسمبلی کا چکر لگانے میں وقفے بھی آتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ وقفہ کافی طویل ہوگیا تھا۔ اُمید واثق ہے کہ اسی تناظر میں 23دسمبر کو پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری کے صدر میاں اسلم کا فون موصول ہوا۔ اپنے مخصوص تیز تیز لہجے میں کہنے لگے کہ جناب والا خیر تو ہے ‘کافی دنوں سے جناب نے پنجاب اسمبلی کا چکر نہیں لگایا ؟ پھر قدرے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ آج شام کو اسمبلی کا اجلاس ہے ‘ طبیعت پر گراں نہ گزرے‘ ذمہ داریوں سے کچھ فرصت ہو تو تشریف لے آئیں‘ کچھ گپ شپ ہی ہوجائے گی۔ دعوت کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے شام کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پہنچے تو 2019ء کے دوران صوبے میںڈینگی کے بے تحاشا پھیلاؤ پر بحث جاری تھی۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اپنی نشست پر براجمان تھے۔ خلافِ معمول وہ کسی قدرے برہم سے دکھائی دے رہے تھے۔کچھ حیرت سی ہوئی کیوں کہ یہ خلاف ِمعمول بات تھی۔ اُن کے ساتھ توجب کبھی بھی ملاقات ہوئی ‘ اُن کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہی دیکھنے کو ملتی تھی‘ جو طویل عرصے سے اُن کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔یاد نہیں پڑتا کبھی اُن کی رہائش گاہ پر جانے کا اتفاق ہوا ہو اور اُنہوں نے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اپنے میڈیا ایڈوائزر‘ اقبال چوہدری سے نہ پوچھا ہو؛‘ اقبال مہماناں نے چا شا وی پیتی اے کہ نئیں؟ یار ساریاں دا چنگی طراں خیال رکھیا کر۔اب‘ ملاقات تو ہوتی تھی پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے سلسلے میںاور درجہ حاصل ہوتا تھا مہمانوں کا‘بس عزت کا یہی انداز ہے ‘جس کے باعث چوہدری برادران اس گئے گزرے دور میں بھی روایتی مہمان نوازی کا نشان سمجھے جاتے ہیں۔ اقبال چوہدری کا جواب بھی ہمیشہ بہت مختصر اور تقریباً ایک ہی ہوتا ‘ جی جی چوہدری صاحب ‘ جی...یوں جانئے کہ یہ سب کچھ جیسے معمول کی بات تھی ۔ اب‘ تو کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی ‘لیکن یقینا معمول تبدیل نہیں ہوا ہوگا۔
23دسمبر کے اسمبلی اجلاس کے دوران سپیکر صاحب کی برہمی کا راز بھی جلد ہی آشکار ہوگیا۔ غصہ اس بات پر تھا کہ اُن کے نزدیک حکومت کی طرف سے ڈینگی کے حوالے سے اسمبلی میں غلط اعدادو شمار پیش کیے گئے تھے۔ صوبائی وزیرصحت ڈاکٹریاسمین راشد کے مطابق ‘پنجاب میں ڈینگی کے باعث 37ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ سپیکرصاحب اس سے متفق نہیں تھے کہ اُن کے نزدیک ہلاکتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ جواب سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اُنہوں نے اس حوالے سے کمیٹی بنانے کا حکم بھی دیا‘ اسی دوران حیرت‘ بلکہ خوشگوار حیرت اُن کی طرف سے انسداد ڈینگی کے حوالے سے صوبے کے سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی خدمات کا اعتراف کرنے پر ہوئی ۔دیکھا جائے ‘تو اُن کا یہ اعتراف خلاف حقیقت بھی نہیں تھا۔ جب کسی کے غلط کام کرنے پر تنقید ہوتی ہے تو اچھے کام پر تحسین بھی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہم اس روش کو یکسر ترک کرچکے۔ ان حالات میں سپیکر صاحب کی زبان سے سیاسی حریف کے لیے اچھے کلمات سننے پر خوشگوار حیرت کا ہونا فطری سا محسوس ہوا۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ‘ لیکن کسی کے اچھے کاموں کو کم از کم ان کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ ویسے بھی سیاست میں تو کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ کل کے سیاسی دوست آج کے دشمن اور آنے والے کل میں پھر دوست بن سکتے ہیں۔ سابق دور حکومت کی انسدادڈینگی مہم کے تقریباً تمام ہی برسوں کے دوران ہم بھی اس کے عینی شاہد رہے ہیں۔سابق وزیراعلیٰ کی انسداد ڈینگی مہم نے تو ہمیں بھی گھن چکر بنا کررکھ دیا تھا۔ابھی یہاں تو ایک گھنٹے کے بعد دوسری جگہ۔ اُن کی اس حرکت پذیری نے ہی ڈینگی کا ڈنک نکالنے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ خدانخواستہ اگر اس عفریت نے موجودہ حکومت کے دور میں سر اُٹھایا ہوتا ‘معلوم نہیں کیا سے کیا ہوجاتا ۔یہاں تو یہ عالم رہا کہ قابو میں آیا ہوا ڈینگی پھر بے قابو ہوگیا۔ 2011ء کے بعد پہلی مرتبہ ڈینگی کے پر اتنے پھیلے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ ہرطرف خوف وہراس کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ طرفہ تماشا تو یہ بھی ہوا کہ اس کی ذمہ داری خود قبول کرنے کی بجائے ملبہ دوسروں کے سر ڈال کر جان چھڑانے کی بھرپورکوششیں ہوتی رہیں۔ اسمبلی اجلاس میں اس طرزِ عمل کی بازگشت بھی سننے کو ملی۔
خوشکوار حیرت تو تب بھی ہوئی جب خصوصی طور پر سابق ڈی سی لاہور صالحہ سعید صاحبہ کی تحسین کی گئی۔ قرار دیا گیا کہ ڈینگی کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتیں پنڈی میں ہوئیں اور تبدیل صالحہ سعید کو کردیا گیا۔ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں تھا کیوں کہ صالحہ سعید نے حقیقتاً ڈینگی کا مکھو ٹھپنے کیلئے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ اکثر اوقات تو صحافی حضرات مذاق میں اُنہیں کہا کرتے تھے کہ میڈم گرمی بہت ہے ‘ اتنی بھاگ دوڑ تو مت کرائیں۔ سچی بات ہے مجھے تو میانی صاحب قبرستان کا ایک وزٹ نہیں بھولتا۔ شدید حبس کے دوران ‘ جب سب کے پسینے نکل رہے تھے ‘ وہ ہمت ہارنے کے لیے تیار نہیں تھیں کہ کچھ بھی ہوجائے ہم نے ڈینگی سے لڑتے ہوئے تھکنا نہیں ‘ پھر یکایک سننے کو ملا کہ احسن طریقے سے انسداد ڈینگی مہم نہ چلانے پر اُنہیں اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عہدوں پر ٹرانسفر ‘ پوسٹنگ کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس کے لیے اتنا گھٹیا سا جواز کیوں تراشا گیا؟ٹرانسفر کرنا تھی تو کردی جاتی ۔ عجیب سا ہی طرزِ عمل اختیار کیا گیا تھا۔جس حوالے سے شہر کی انتظامی سربراہ کی کارکردگی سب سے اچھی رہی‘ وہ اُس کا جرم ٹھہرا۔کافی عرصے بعد اسمبلی میں اُن کے اچھے کام کی تعریف سن کر بہت اچھا بھی محسوس ہوا کہ بلاشبہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اتنی بھی بے اعتنائی کیا کہ کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنے کو گناہ ہی تصور کرلیا جائے۔ اس بات کا کچھ تو لحاظ کرنا ہی چاہیے کہ جس کا جو کریڈٹ ہو‘ وہ اُسے کھلے دل کے ساتھ دینا چاہیے۔ عجیب ہی روش اختیار کرچکے ہم کہ دوسروں کے کاموں پر اپنی تختیاں لگا کر حقائق کو جھٹلانے کی اپنی سی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسروں کے کارہائے نمایاں کو اپنی کاوشیں قرار دے کر معلوم نہیں ‘کون سامعرکہ مارا جاتا ہے۔ 
یاد آیا کہ ایک خوشگوار حیرت پی آئی سی پر وکلا کے دھاؤے کے دوران بھی ہوئی تھی۔دھکم پیل کے دوران ہمارے صوبائی وزیراطلاعات فیاض چوہان صاحب وکلا کے نرغے میں آئے تو لاہور نیوز کے نوجوان رپورٹر سرفراز خان نے کیا کمال کیاتھا۔ بپھرے ہوئے وکلا کے درمیان سے وہ وزیر صاحب کو نکالنے کی کوشش کرتا دکھائی دیا۔ سچی بات ہے کہ ایسے مواقع پر ہرکوئی خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے‘ لیکن یہاں معاملہ اُلٹ دکھائی دے رہا تھا۔ عین ممکن تھا کہ اس بیچ بچاؤ کے چکر میں خود سرفراز خان رگڑا جاتا ‘لیکن نوجوان اپنی کوشش میں کامیاب ہوہی گیا۔ زیادہ حیرت اس چیز پر بھی ہوئی تھی کہ فیاض چوہان صاحب اکثر میڈیا سے کچھ ناراض ناراض ہی رہتے ہیں‘اس کے باوجود جب کچھ اچھا کرنے کا وقت آیا تو نوجوان رپورٹر نے یہ نہیں سوچا کہ یہ تو وہی ہیں‘ جو اکثرمیڈیا کے لتے لیتے رہتے ہیں۔ بہت اچھا لگا کہ سرفراز نے کسی منفی سوچ کو اپنے نزدیک بھی نہ پھٹکنے دیا اور وہی کیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا۔ بعد میں ہماری اس نوجوان سے بات ہوئی تو اُس کا ایک ہی جواب تھا کہ اُس نے ایک لمحے کیلئے بھی نہیں سوچا کہ اُسے اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔اُس نے محسوس کیا کہ ایک انسان مشکل میں ہے تو مجھے اُس کی مدد کرنی چاہیے۔ جان لیجئے کہ جس نے جو اچھا کام کیا ہوتا ہے‘ وہ صرف اُسی کا کریڈٹ ہوتا ہے۔ اُس کے کارناموں کو اپنا نام دینے کی روش اچھی ہے‘ نہ اسے تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مخالفین کی تعریف کرنا کافی دل گردے کا کام ہے ۔یوں بھی آج کل تو اس حوالے سے صورت حال کچھ زیادہ ہی گمبھیر دکھائی دیتی ہے ‘ پھربھی دعا تو کی ہی جاسکتی ہے کہ اللہ کرے اچھے کام کرنے والوں کی تعریف ایک مضبوط روایت بن جائے اور ہمیں خوشگوار حیرتوں میں مبتلا ہونے کے مواقع حاصل ہوتے رہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved