انسان کے لیے شاید سب سے بڑا مسئلہ اپنی شناخت قائم کرنے اور اپنے وجود کو منوانے کا ہے۔ یہ دنیا اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہے ہی ایسی کہ کوئی ذرا بھی عدمِ توجہ کا مظاہرہ کرے‘ تو یوں گم ہوجائے کہ اپنے ہاتھ بھی نہ آئے۔ یہ کھیل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے‘ جو ہمارے حواس پر سوار ہو جاتا ہے اور پھر اُترنے کا نام نہیں لیتا۔ حواس کو اپنے بس میں کرنے اور رکھنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ محنت ہم سے بہت کچھ مانگتی ہے۔ کئی معاملات میں ہمیں ایثار کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے بہت سے معاملات ہم سے ''حُسنِ ترک‘‘ کا تقاضا کرتے ہیں۔
حقیقی مفہوم میں منفرد شناخت قائم کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ منفرد اور معیاری شناخت برسوں کی ان تھک محنت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ بظاہر یہ اپنی دریافت کا سفر ہے‘ مگر کبھی کبھی انسان کو اپنا وجود ''ایجاد‘‘ کرنے کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
ہم زندگی بھر اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ منفرد شناخت کی بنیاد پر ہمارے لیے کسی مقام کا تعین ہوجائے اور اس مقام سے ہمیں ہٹانے والا کوئی نہ ہو۔ یہ خواہش اور کوشش قابلِ اعتراض ہے‘ نہ بلا جواز۔ زندہ رہنے کے حوالے سے ہماری حقیقی دلچسپی اُسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب ہم اپنی پوری صلاحیت اور سکت اپنی انفرادیت کے قیام اور پھر اُسے منوانے پر صرف کردیں۔
اس دنیا میں سب سے اہم انسان کون ہے؟ جب تک آپ روئے زمین پر موجود ہیں‘ آپ سے بڑھ کر اہم کوئی ہے ہی نہیں‘ ہو بھی نہیں سکتا۔ دنیا کا ہر انسان اپنے آپ کو پہلے نمبر پر رکھتا ہے۔ باقی سب کچھ اُس کے بعد آتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے ‘جس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو زیادہ قابلِ اعتراض بھی نہیں۔ ہم سبھی اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمیں ہماری انفرادیت اور خصوصی حیثیت کے ساتھ قبول کیا جائے۔
جب یہ بات طے ہوگئی کہ ہمارے لیے ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا تو پھر کوئی بھی انسان اس قابل نہیں ٹھہرتا کہ اُسے اپنے سے بڑھ کر اہمیت دی جائے اور کوئی بھی نکتہ اس قابل نہیں ہوسکتا کہ اُس پر بہت زور دیا جائے۔ ایسا کرنا وقت کے ضیاع کے زمرے میں آئے گا۔ بہتر یہ ہے کہ آپ لوگوں کو پیچھے چھوڑیں اور خود آگے بڑھ جائیں۔ ایسا کرنا کسی بھی اعتبار سے منفی رویہ نہیں۔ دنیا کا ہر انسان اپنے آپ کو آگے رکھنے کی تگ و دَو میں مصروف ہے۔ ایسے میں اگر آپ بھی اپنے وجود کو مرکزیت دے کر کچھ کرنے کی ٹھانیں تو ایسا کرنے میں کسی کے لیے کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ زندگی کا سفر اسی طور جاری رہتا ہے۔ آگے بڑھیے اور خود کو تلاش و دریافت کیجیے۔ اور اگر ایسا کرنے سے بات نہ بنے تو اپنے آپ کو ایجاد کرنے کی کوشش کیجیے!
ہمیں بخشی جانے والی سانسیں اس لیے ہیں کہ ہم اُنہیں بہت سوچ سمجھ کر‘ پوری احتیاط اور تیاری کے ساتھ بروئے کار لائیں۔ ہم چند ایک معاملات میں کمزور ہوتے ہیں اور بعض امور میں ہماری طاقت نمایاں ہوتی ہے۔ چند ایک خصوصیات کے اعتبار سے ہم دوسروں سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور دوسرے بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ اِسی طرح چند ایک حوالوں سے ہم اپنی کمزوری چھپا نہیں سکتے اور دوسروں کی برتری تسلیم کرتے ہی بنتی ہے۔ اچھا تو یہی ہے کہ ہم اپنی صلاحیت و سکت کے ساتھ جئیں‘ اپنے وجود کو اپ ڈیٹ اور اپ گریڈ کرتے رہنے پر متوجہ ہوں۔ دوسروں سے اپنا موازنہ بُری بات نہیں‘ مگر یہ معاملہ منطقی حدود میں رہنا چاہیے۔ ہر انسان اپنے حالات‘ وسائل اور مواقع کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ بہت سے معاملات میں وہ آسانی محسوس کرتا ہے اور کئی معاملات میں الجھ کر بھی رہ جاتا ہے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی زندگی کا موازنہ کسی اور کی زندگی سے اِس طور نہ کیا جائے کہ اعتدال اور معقولیت کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔
دنیا کا ہر انسان اپنے آپ کو چند مخصوص حالات کے دائرے میں پاتا ہے۔ کسی کو آسانیاں پیدا کرنے والے حالات ملتے ہیں اور کسی کے لیے قدم قدم پر مشکلات پائی جاتی ہیں۔ اگر آپ کسی کو بلند مقام پر دیکھ کر آرزدہ ہیں کہ آپ وہاں تک کیوں نہیں پہنچ پائے تو یقین کیجیے کہ آپ کی سوچ محض سادہ لوحی یا غیر حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔ آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں‘ کچھ اندازہ ہی نہیں کہ لوگ کن مراحل سے گزر کر وہاں پہنچے ہیں جہاں دکھائی دے رہے ہیں۔ زندگی کسی کے لیے پھولوں کی سیج ہے نہ محض کانٹوں کا بستر۔ سب کو اپنے حصے کی پیچیدگیاں ملتی ہی ہیں۔
بعض معاملات کچھ دن میں دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو خاصی طویل مدت تک جی کا جنجال بنے رہتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ بعض حالات اور کبھی کبھی لوگ آپ کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتے ہیں‘ معاملات کو بگاڑتے ہیں۔ معاملات کی درستی آپ کے لیے لازم ہو جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے‘ جب آپ لوگوں کا تعاقب کرتے کرتے اور معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ یہ تھک ہار کر مایوس ہو جانے‘ ہتھیار ڈال دینے کا مقام نہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ کبھی نہ کبھی تو آپ کو یہ احساس ہو ہی جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو اپنے تمام ''ڈراموں‘‘ کے ساتھ آپ کی زندگی میں نہیں ہونے چاہئیں! یہ احساس جس قدر جلد ہو جائے اُتنا ہی اچھا ہے۔
ہمارا قیمتی وقت اس لیے نہیں ہے کہ دوسروں کو سیدھا کرنے کی کوشش میں ضائع کریں۔ جن کی کجی کبھی دور ہونے والی نہیں ‘اُن پر وقت‘ توانائی اور مالی وسائل ضائع کرنے کی کوشش کسی بھی اعتبار سے ضروری نہیں۔ سکون پانے کی ایک اچھی صورت یہ ہے کہ تعلق کا دائرہ محدود کردیا جائے۔
آپ کی پوری توجہ اپنی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ نکھارنے پر مرکوز رہنی چاہیے۔ آپ کو بہت کچھ جاننا ہے اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں‘ جو اگر آپ کسی نہ کسی طور جان ہی گئے ہیں تو اُن سے نجات پانے کی کوشش کیجیے۔ ایسی باتوں کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہیے‘ ذرا بھی متوجہ نہیں ہونا چاہیے۔ پانچوں حواس کے ذریعے ہمارے ذہن تک ایسا بہت کچھ پہنچتا ہے ‘جس سے ہمارا کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا یا جس کی ہمیں زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی ہر بات ہماری دشمن ہوتی ہے‘ کیونکہ یہ ہمارا وقت بھی ضائع کرتی ہے اور توانائی بھی۔ لازم ہے کہ ہماری توجہ کام کی باتوں پر مرکوز رہے۔
ہمیں زندگی بھر اپنی دریافت اور تشکیل و تہذیب کے عمل سے گزرنا ہے۔ اپنے آپ کو اپ ڈیٹ اور اپ گریڈ کرنا مستقل نوعیت کا عمل ہے۔ جو اس عمل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اُس کے لیے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی آپ ہیں اُس پر شاکر رہیے اور اپنی صلاحیت و سکت کا گراف بلند تر کرنے کی کوشش سے جی نہ چرائیے۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ اور سبھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں ‘اگر آپ نہ بدلے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ روش برقرار رہے تو آپ میں اور دوسروں میں فرق بڑھتا ہی چلا جائے گا۔