مسئلہ کشمیر تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے اور اس تنازع کو حل کرنے کی ضامن اقوام عالم ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سکیو رٹی کونسل کی قراردادیں آج بھی ریکارڈ پر ہیں۔ پوری دنیا انہیں تسلیم کرتی ہے اور پاکستان بار بار یہ مؤقف دُہراتا ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کا بھی نامکمل ایجنڈا ہے ‘جسے پورا کرنا اس کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔کشمیر کا مقدمہ اپنی اخلاقی سیاسی اور مضبوط قانونی بنیاد رکھتا ہے اور یہ مقدمہ محض دو ملکوں کے مابین زمین کے ایک ٹکڑے کا جھگڑا نہیں بلکہ جموں و کشمیرپاکستان اور بھارت کے دونوں حصوں میں بسنے والے سوا کروڑ سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کی پہچان‘ ان کے سیاسی مستقبل ‘ان کے بنیادی حقوق اوران کی آزادیوں سے متعلق ہے‘جس کی ضمانت اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے۔
پاکستان اور بھارت سمیت اقوام عالم کے علم میں ہے کہ کشمیر کے تنازع پر اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں اور دنیا اسے ایک حل طلب مسئلہ تسلیم کرتی ہے۔ اپنے دور کی سُپر طاقتیں اور اب عصرِحاضر کی واحد سُپر پاور‘ دونوں پاکستان اور کشمیریوں کے اس مؤقف کو تسلیم کرتی تھیں اور کرتی ہیں۔کشمیر کے تین فریق ہیں‘ پاکستان ‘بھارت اور جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائد نفوس۔ان تینوں فریقوں کے مابین تنازع ہوا‘ جنگ ہوئی‘ شکست کو دیکھتے ہوئے ایک فریق (بھارت) نے جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ بھارت اور اس کے حواریوں کا پلڑا بھاری تھا‘ کشمیریوں اورپاکستان نے ایک مہذب ملک ہونے کا ثبوت دیا اور اقوام متحدہ کے وعدے اور مضبوط یقین دہانیوں پر اعتبار کیا‘ جنگ بندی ہوئی اورجموں و کشمیرعارضی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ لیکن اقوامِ عالم نے فیصلہ دیا کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کشمیری خود کریں گے اور ان کی رائے شماری کا اہتمام کیا جائے گا۔طے پایا کہ کشمیریوں کی رائے جاننے کے لیے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ‘استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے گا اور یہ اہتمام اقوام متحدہ کا مقرر کردہ ایک ایڈمنسٹریٹر کرے گا ‘جس کے ساتھ معقول سٹاف ہوگا‘ پاکستان اور بھارت اپنے اپنے زیر کنٹرول کشمیر میں اس کی معاونت اور اہتمام کریں گے اور یہ کہ کشمیریوں کو اپنی مرضی آزادانہ‘ منصفانہ اور بے خوف و خطر استعمال کرنے کے لیے اور امن وامان برقرار رکھنے کے لیے مناسب انتظام کیا جائے گا۔
مسئلے کے فریقوں نے اس بات کو تسلیم کیا۔ پاکستان نے جنگجو قبائل کو مقبوضہ کشمیر سے واپس بلا لیا‘ ایل او سی پر اپنی فوجی نقل و حرکت اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق کردی اور جنگ بندی ہوگئی۔ یہ فیصلہ1948ء میں دیا گیا‘لیکن اس مسئلے کے ایک فریق (بھارت)نے گزشتہ اکہتر برسوں میں ہر ممکن کوشش اور اقدامات کئے کہ کسی بھی طرح مقبوضہ کشمیر میں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرلے اور کسی بھی طریقے سے مقبوضہ وادی میں اپنے قبضے کو برقرار اور جائز قرار دے سکے۔ وہاں دہلی نواز کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی گئیں‘آزادی و خودمختاری کے وعدے کئے گئے‘ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا اور ان انتخابات کو استصواب رائے اور رائے شماری کے ہم پلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی‘ لیکن اقوام متحدہ نے اس عمل کو تسلیم نہیں کیا اور کشمیری بھی اس کومسلسل مسترد کرتے رہے۔ اس عرصے میں لاکھوں افراد کی شہادتیں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کی وارداتیں اپنی جگہ ایک بڑا المیہ ہے۔ پاکستان اورکشمیری بھارت کی ہر زیادتی اور ظلم پر واویلا کرتے رہے‘ لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔جنرل ایوب خان کے دور میں چین نے پاکستان سے کہا تھا کہ آپ کشمیر پر حملہ کریں اور فوجی قوت سے مقبوضہ کشمیر حاصل کرلیں کیونکہ چین نے بھارت کو اپنی سرحدوں پر جنگ میں مصروف کر رکھا ہے۔ لیکن پاکستان نے تب بھی جارحیت نہیں کی۔ دوسری جانب بھارت بدستور جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے اور دنیا جانتی ہے کہ اس سال پانچ اگست کوبھارت نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں اور فیصلوں کو بلڈوزکرتے ہوئے یک طرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو ازخود جائز قرار دینے کی کوشش کی‘ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ تمام معاہدوں کو عملاً توڑ دیااور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی کٹھ پتلی دہلی نواز حکومتوں کے ساتھ معاہدے بھی توڑ دئیے۔بھارت ثالثی کی تمام پیشکشیں مسترد کر چْکا ہے۔پاکستان اور کشمیریوں نے بھارت کے ان تمام جارحانہ اور غاصبانہ اقدامات پر واویلا کیا لیکن تاحال کسی عالمی فورم پر بھارت کے ان اقدامات کو روکا نہیں جاسکتا۔مسلم ممالک کا سب سے بڑا فورم او آئی سی بھی بھارت کو کوئی بڑا چیلنج پیش کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اب تک صرف تین ممالک ملائیشیا ‘ترکی اورچین نے اس کی مذمت کی‘لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہم بھی محکوم کشمیریوں کی عملاً مدد کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان کو وقت ضائع کئے بغیر آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ پاکستان کے پاس اب بھی بہت سے آپشنز ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے بھارت کو جواب دیا جاسکتا ہے اور کشمیریوں کو بھی مثبت حوصلہ افزا پیغام دیا جاسکتا ہے۔ میری رائے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کشمیر کے معاملے پر سیاسی اور فوجی قیادت کا ایک بڑا اجلاس بلائے اور یک نکاتی ایجنڈا کشمیر پر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اور روڈ میپ تشکیل دے‘ جس کے تحت آزاد جموں و کشمیر کی قیادت کو اعتماد میں لے کر پاکستان آزاد جموں و کشمیر میں پہلے مرحلے میں ریفرنڈم کا انعقاد کرے جس میں سوال پوچھا جائے کہ آزاد جموں وکشمیر میں استصواب رائے ہونا چاہیے یا پھر اقوام متحدہ کا انتظار کرنا چاہیے؟ اس ریفرنڈم کا نتیجہ یقیناً ہاں میں آئے گا۔ اگلے مرحلے میں پاکستان کشمیریوں کے لیے استصواب رائے کا اہتمام کرے ‘جس میں واضح طور پر یہ سوال پوچھا جائے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ مستقل الحاق چاہتے ہیں یابھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں؟ اس عمل کو صاف شفاف رکھا جائے اور مشاہدے کے لیے عام انتخابات کی طرح عالمی مبصریں کو مشاہدے کی دعوت دی جائے۔ آزاد جموں و کشمیر میں ہر طرح کی سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتیں موجود ہیں‘ انہیں بھرپورمہم چلانے کا موقع دیا جائے۔ کشمیری جو بھی فیصلہ کریں ‘ وہ دنیا کے سامنے رکھا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے اور بھارت کو اب اقوام عالم مجبور کریں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام سے ان کی رائے معلوم کرے۔ اگر آزاد کشمیر کے شہری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں تو پھر اس امر کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ آیا اس حصے کو ایک صوبے کا درجہ دے کر ان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آبادی کے تناسب سے نشستیں مختص کی جا سکتی ہیںیا نہیں۔ اس طرح یہ علاقے قومی دھارے میں آجائیں گے۔ امید ہے کہ پاکستان کے اس عمل کو دوست ممالک تسلیم بھی کرلیں گے جس سے معاملہ اور بھی جائزحیثیت پاسکے گا۔ مزید یہ کہ اس عمل کو مستقل طور پر جواز بخشنے کیلئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق عمل پذیر ہونے تک کے ساتھ رسمی طور پر مشروط بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر میں استصواب ِرائے کا اہتمام ہوگا تو پھر مجموعی نتائج کو بھی جوڑ کر کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے گا۔اس عمل اور اقدامات سے کشمیریوں اورگلگت بلتستان کے عوام کو حوصلہ ملے گا اور علاقہ ترقی وخوشحالی کی طرف بڑھے گا۔پاکستان کے پاس یہ عمل شروع کرنے کا جواز اس لیے موجود ہے کہ پاکستان یہ سب کْچھ بھارت کی طرف سے معاہدے توڑنے کے نتیجے میں کررہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے تھے اور دنیا نے اسے تسلیم بھی کرلیا تھا۔ میری دانست میں اگر پاکستان نے ایسا کرنے میں دیر کی تو عالمی طاقتیں اور بھارت دونوں بدامنی کیلئے insurgencies شروع کرائیں گے۔اس طرح کی دوسازشیں کشمیر‘ گلگت بلتستان میں پہلے ہی پکڑی جاچکی ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اگر کسی جاندار کی شہ رگ پر دشمن کی گرفت ہو جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ اس وجود کی زندگی کا خاتمہ جلد یا بدیر ہو ہی جاتاہے۔ بھارت داخلی انتشار سے بچنے کے لیے وہ سب کچھ کرے گا جو اس کے مفاد میں ہوگا۔ ہمیں بھی اپنے علاقے میں اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔