یہ گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کا آبائی قبرستان ہے۔ کسی زمانے میں یہ عام قبرستان ہو گا لیکن اب یہاں مزار کی پُرشکوہ عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ مزار کا سفید گنبد دور سے نظر آتا ہے۔ یہاں زائرین کی چہل پہل سال کے بارہ مہینے رہتی ہے۔ ایک عرصے سے یہاں آنے کی خواہش تھی۔ آج اس خواہش کی تکمیل ہوتی ہے۔ میرے ہمراہ انعام شیخ ہیں جو سندھی ادبی اور ثقافتی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ہم نے مزار کے مرکزی دروازے پر جوتے اتارے اور اندر داخل ہو گئے۔ عجیب فضا تھی، ایک حزن تھا جو ہر طرف پھیلا ہوا تھا، ایک ملال تھا جس نے دل کو مٹھی میں بھینچ لیا تھا۔ میں نے قبروں پر نگاہ ڈالی‘ بائیں طرف بے نظیر بھٹو کی قبر تھی، درمیان میں ذوالفقار علی بھٹو اور پھر نصرت بھٹوکی قبر۔ پائینتی کی طرف بے نظیر بھٹو کے دو بھائیوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی قبریں تھیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی خاندان کے اتنے افراد کی قبریں جن کی موت فطری نہیں تھی۔ لوگ قبروں پر پھولوں کی پتیاں ڈال رہے تھے۔ جانے والوں کے لیے مغفرت کی دعائیں کر رہے تھے۔ ان قبروں کے درمیان کھڑے مجھے یاد آیا۔ یہی قبرستان تھا۔ یہی مقام تھا تب یہ مزار نہیں بنا تھا‘ 1969ء کا سن تھا اور جون کا دہکتا ہوا مہینہ۔ یہ وہی سال تھا جب بے نظیر بھٹو نے پڑھائی کے لیے ہارورڈ جانا تھا۔ تب بے نظیر اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ اس قبرستان میں اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے لیے آئی تھیں۔ باپ نے بیٹی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ''تم بہت دور امریکہ جا رہی ہو، بہت سی ایسی چیزیں دیکھو گی جو تمہیں حیران کریں گی، تم بہت سی ایسی جگہوں کا سفر کرو گی جن کا پہلے کبھی نام نہیں سنا ہو گا لیکن یاد رکھو آخر کار تمہیں یہیں لوٹنا ہو گا‘‘ سعادت مند بیٹی اپنے باپ کی بات مانتے ہوئے واپس لوٹ آئی تھی اور اب اپنے شفیق باپ کے ہمراہ محوِ خواب تھی۔ یوں تو کسی والد کے لیے سبھی بچے پیارے ہوتے ہیں لیکن بھٹو صاحب کا اپنی بیٹی بے نظیر کے ساتھ خاص انس تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں لیکن اس کے علاوہ بھی بھٹو صاحب بے نظیر میں وہ روشنی دیکھ رہے تھے‘ جو ان کے شاندار مستقبل کا پتہ دیتی تھی۔ جب بے نظیر پیدا ہوئیں تو ان کے سرخ و سفید رنگ کو دیکھ کر گھر والے اسے پنکی کے نام سے پکارنے لگے اور پھر وہ آخری دم تک اپنے ماں باپ کے لیے پنکی ہی رہیں۔ بے نظیر نے ابتدائی تعلیم پریزنٹیشن کونوونٹ سکول مری سے حاصل کی‘ جہاں وہ اپنی بہن صنم بھٹو کے ہمراہ بورڈنگ میں رہتی تھی۔ سکول کے زمانے سے ہی بھٹو صاحب بے نظیر کی سیاسی تربیت کر رہے تھے۔ بے نظیر کو یاد تھا‘ ایک بار ان کے والد نے جکارتہ سے انہیں طویل خط لکھا تھا‘ جہاں وہ غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سکول میں ان کی ایک ٹیچر نے دونوں بہنوں کو بٹھا کر وہ خط سنایا تھا۔ یہ خط دراصل ان کی تربیت کا ذریعہ تھے۔ بے نظیر کے نام اپنے خطوں میں بھٹو صاحب بین الاقوامی سیاست کے واقعات کا تذکرہ کرتے۔ اکثر خطوط میں بھٹو صاحب ان کتابوں کے بارے میں لکھتے جنہیں وہ بے نظیر کی تربیت کے لیے اہم سمجھتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھٹو صاحب ساہیوال میں قید تھے۔ ساہیوال جیل سے انہوں نے بے نظیر بھٹو کو خط لکھا جس میں انہوں نے بے نظیر کو ادب اور تاریخ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس کے علاہ انہیں نپولین بونا پارٹ، امریکی انقلاب، ابراہام لنکن، جان ریڈ کی کتاب Ten Days that shook the World بسمارک، مائوزے تنگ، اتاترک، قدیم ہندوستانی تاریخ اور تاریخِ اسلام پڑھنے کی تاکید کی۔ 1969ء میں بے نظیر ہارورڈ میں ریڈ کلف کالج چلی گئیں۔ اس موقع پر بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی کو ایک خوبصورت جلد میں قرآن مجید کا تحفہ دیا تھا۔ 1973ء میں بے نظیر نے ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی لیکن بھٹو صاحب کا رومانس آکسفورڈ یونیورسٹی سے تھا‘ لہٰذا بے نظیر کا اگلا تعلیمی پڑائو آکسفورڈ یونیورسٹی تھا۔ اب بے نظیر اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہا ر چاہتی تھیں۔ جلد ہی انہیں اس کا موقع مل گیا‘ جب انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی سٹودنٹس یونین کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ یہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ بے نظیر اس امتحان میں پورا اتریں اور انتخاب جیت کر آکسفورڈ یونیورسٹی سٹودنٹس یونین کی صدر منتخب ہو گئیں۔ 1976ء میں بے نظیر نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی پی ای (فلاسفی، پالیٹکس، اینڈ اکنامکس) کی ڈگری حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو صاحب پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے تھے۔ اب وہ وقت آ رہا تھا جب سیاسی تلاطم بے نظیر کا منتظر تھا۔ 1977ء میں بھٹو صاحب کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا اور 1979ء میں انہیں پھانسی دی گئی۔ بے نظیر اور نصرت بھٹو کے لیے ابتلا کا دور شروع ہو گیا تھا۔ دونوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ اور پھر سکھر جیل کے وہ دن رات جب بے نظیر کو اس کے ایک ایسے سیل میں رکھا گیا جہاں بجلی نہیں تھی۔ سکھر کی سخت گرمی میں جب لُو چلتی اور گرد کا طوفان آتا تو سانس لینا دوبھر ہو جاتا۔ اس وقت مرتضیٰ بھٹو پاکستان سے باہر تھے‘ دوسرے بھائی شاہنواز بھٹو کی پہلے ہی پراسرار حالات میں موت واقع ہو چکی تھی‘ والدہ نصرت بھٹو کراچی جیل میں تھیں اور بھٹو صاحب کو پھانسی ہو چکی تھی۔ ان اعصاب شکن لمحات میں بھی بے نظیر نے استقامت سے حالات کا مقابلہ کیا۔ گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ دن میں دو تین بار اپنے سر پر پانی ڈالتیں تاکہ سیل کی جان لیوا گرمی سے عارضی نجات مل سکے۔ اس سیل میں کیڑے مکوڑے عام تھے۔ ایک چارپائی تھی اور کھانے کا معیار انتہائی ناقص تھا۔ اس قید کے دوران بے نظیر کا وزن تشویشناک حد تک کم ہو گیا اور ان کے کان کی تکلیف ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ 1984ء میں انہیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ملی۔
اپریل 1986ء کا دن پاکستانی تاریخ کا ایک غیر معمولی دن ہے‘ جب بے نظیر طویل جلا وطنی کے بعد لاہور ائیرپورٹ پر اتریں تو لوگوںکا ایک سمندر تھا جو اپنے کناروں سے چھلک رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں کا جوش اور جذبہ دیدنی تھا۔ بے نظیر نے تاحدِ نظر پھیلے ہوئے عوام کے اس سمندر کو دیکھا تو فرطِ جذبات سے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ جذبہ صرف لاہور تک محدود نہیں تھا۔ جب وہ راولپنڈی آئیں تو جلوس کے راستے کے دونوں طرف لوگوں کا ایک پُر جوش ہجوم تھا‘ جو اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار تھے۔ مجھے یاد ہے اس روز میں اپنے دوست شہاب کے ہمراہ ناز سینما کے مقابل ایک دکان کی چھت سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ ادھر 17 اگست 88 19ء کو اس وقت کے صدر ضیاء الحق ہوائی جہاز کے حادثے میں اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی سال الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کامیابی نصیب ہوئی اور بے نظیر 35 سال کی عمر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہو گئیں۔ طویل جدوجہد آخر رنگ لے آئی تھی لیکن شاید آزمائشوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ دو سال بعد ہی 1990ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے 58-2/B کا استعمال کرتے ہوئے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ لیکن بے نظیر نے ہار ماننا نہیں سیکھا تھا‘ حالات سے پنجہ آزمائی ان کی سرشت میں تھی۔ 1993ء کے انتخابات میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی اور بے نظیر نے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا۔ 1996 میں مرتضیٰ بھٹو کو ان کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کے قریب قتل کر دیا گیا۔ یہ بے نظیر کے لیے کئی حوالوں سے مشکل وقت تھا۔ اس واقعے نے انہیں اور ان کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے والد اور چھوٹا بھائی شاہنواز پہلے ہی داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ مرتضیٰ بھٹو بھی رخصت ہو گیا تھا۔ بے نظیر کو پہلی بار یوں لگا زندگی کی آزمائش گاہ میں وہ تنہا رہ گئی ہیں۔ وہ جسے سکھر جیل کا عقوبت خانہ بھی نہیں جھکا سکا تھا‘ آج خود کو شکستہ محسوس کر رہی تھی لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اقتدار کی بے رحم راہداریوں میں ایک اور شکاری بھی ان پر حملے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے۔ (جاری)