دریائوں میں بہتی ہوئی کشتیاں اس میں داخل ہونیوالے پانی سے ڈوبتی ہیں اور گھروں کے اندر جمع ہو جائے تواس پانی سے مضبوط سے مضبوط گھروں کی بنیادیں کھوکھلی ہو جایا کرتی ہیں۔دریا ئوں اور سمندروں میں بہنے والی کشتیوں میں سوار کچھ لوگ اگر جان بوجھ کر اپنی کشتی کو غرق کرنا چاہیں تو وہ اس میں بے ہنگم قسم کی اچھل کود ‘یا پھر آپس میں مار دھاڑ شروع کر دیتے ہیں‘ جس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ وہ اپنی کشتی بیچ دریا اور سمندر میں ڈبو بیٹھے گے۔ ان کی کشتی سواروں اور سامان سمیت غرق ہو جائے گی اور اسی طرح کسی گھر کے مکین جب اس کے دروازے ‘ کھڑکیاں اور شیشے توڑنا شروع کر دیں‘ تو جلد ہی اس گھر میں چور اور ڈاکو گھس آئیں گے اور وہ گھر چاہے قلعہ نما ہی کیوں نہ ہو‘ ان کی فصیلیں کمزور کر دی جائیں ‘تو کمزور سے کمزور دشمن بھی ان کو توڑ ڈالے گا ۔
جو لوگ بھلا بیٹھتے ہیں کہ ان کے آبا ئو اجداد نے نہ جانے کتنی محنت اور مشقت سے یہ مضبوط قلعہ نما گھر بنا کر دیا ‘ لیکن اپنی ہی کشتی میں سوراخ کرنے والے بد قسمت لوگ نہیں جانتے کہ کشتی اگر ڈوبے گی‘ تو وہ بھی ساتھ ہی ڈوب جائیں گے اور گھر اگر تباہ ہوا‘ تو اس کے ملبے کے نیچے وہ بھی آ جائیں گے۔ آج دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان بے خبر نہیں کہ کچھ لوگ اپنے کوٹ پر مائیک لگائے اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف دشمن کے ایجنڈے اور منظم پراپیگنڈے کو غیر محسوس طریقوں سے آگے بڑھانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ وہ شاید اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان کے خاندان امریکا اور یورپ میں مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں‘ اس لیے وہ بھی وہیں جا بسیں گے‘ لیکن انہیں کون بتائے کہ اصلی گھر وہی ہوتا ہے ‘جو اپنا ہوتا ہے۔نقل مکانی اور ترک سکونت کسی وقت گلے پڑ سکتی ہے اور اس کا نظارہ امریکا اور یورپی یونین کے اکثر ممالک میں مسلمانوں کو نظر آنا شروع ہو گیا ہے ۔
ذرائع بتا رہے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں سے منسلک فوجی لحاظ سے چار انتہائی اہم اور حساس مقامات پر لگائی گئی ان باڑوں کو آہستہ آہستہ کاٹنا شروع کر دیا ہے‘ جو اس نے اپنی دانست میں خالصتان اور کشمیری مجاہدین کی بھارت آمد و رفت روکنے کیلئے لگا رکھی ہیںاور ان چار مقامات ‘جہاں سے یہ آہنی باڑیں کاٹی گئی ہیں‘ ان میں ہارون آباد‘ چونڈہ‘ سیالکوٹ اور لائن آف کنٹرول کے علاقے شامل ہیں۔
ایک دفاعی تجزیہ کار اور اپنے تجربے کی بنا پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت ایل او سی کا دھوکہ دے کر بہاولنگر کے فورٹ عباس‘ ہارون آباد یا رحیم یار خان سے حملہ کر سکتا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا بھی اب کہہ رہا ہے کہ بھارت نے اپنی سرحدی مقامات پر براہموس‘ سپائیک اورS300 میزائلوں کی تنصیب شروع کر رکھی ہے۔نیٹو فورسز اس میزائل کوS10-Grumbleکے نام سے پکارتی ہیں ‘جنہیں زمین سے فضا میں مار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اکنامک ٹائمز نے اپنی اکتوبر2018ء کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی حکومت بھارتی نیوی کو بظاہر چین کی نیوی اور اس کی پھیلتی ہوئی سمندری حدود کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے جنگی جہازوں کیلئے 777 ملین ڈالر کے BARAK LR-8-SAM میزائل فراہم کرنے جا رہا ہے ۔ چین کا تو صرف نام ہی ہے‘ اصل ہدف اور نشانہ پاکستان ہو گا۔
یہ شک اب‘ یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کی راشٹریہ سیوک سنگھ حکومت گزشتہ چھ ماہ سے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں دن رات ایک کئے جا رہی ہے اور اس سلسلے میں اس کی کوششیں بتا رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے کس قدر سنجیدہ ہے۔ یاد رہے کہ جب اسرائیلی وزیر اعظم نے بھارت کا دورہ کیا تو عالمی مارکیٹ میں خبریں گشت کرنا شروع ہو گئیں کہ بھارت اسرائیل سے اسلحہ کے کچھ خاص حصوں کی خریداری میں عجلت کا مظاہرہکر رہا ہے‘ جس پر بھارت اور اسرائیل میں مقیم دنیا کے مختلف ممالک کے دفاعی اتاشی حیران تھے کہ بھارتی فوج کوآخر کیا ایمر جنسی آن پڑی ہے کہ وہ اسرائیل سے240 اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل خریدنے کیلئے بیتاب ہے۔
یہ اسلحہ خریدنے کی بطورِ خاص منظوری 13 اپریل سے17 اپریل2019ء تک جاری رہنے والی انڈین آرمی کی ششماہی کور کمانڈرز کانفرنس میں دی گئی۔یہ وہ وقت تک جب پلوامہ کے بدلے میں ستائیس فروری کو بھارت فضائی حملوں میں ناکامی کے صورت میں اپنے دو مگ تباہ کرانے اور ابھی نندن کی ہزیمت اٹھانے کے بعد پاکستان کو سبق سکھانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔
چانکیہ کی سب سے خطرناک چال اپنے دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اسے اندر سے کمزور کرنے سے مشروط ہوتی ہے۔گزشتہ دو ماہ سے ایک مرتبہ پھر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کسی خاص اشارے اور مدد کے بغیر کس طرح شروع ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور ان کے معاون دہشت گردوں کا ایک بار پھر گٹھ جوڑ ظاہر کر تا ہے کہ انہیں کسی خاص وقت کیلئے تیار کیا جارہا ہے۔ اس لئے ہر ذی شعور کو سوچنا ہو گا کہ بھارت کی ممکنہ جارحیت سے پہلے ملکی سرحدوں پر مورچہ زن افواج پر سنگ باری آخر بے وجہ تو نہیں ہو سکتی؟
72 برس بعد یک لخت کیا ہوا کہ بھارت کی نیوی‘ فضائیہ اور بری افواج سے تعلق رکھنے والے سپیشل سروسز گروپ مقبوضہ کشمیر بھجوا دیئے گئے ہیں۔ یہ سب اس صورت میں ہورہا ہے‘ جب پانچ اگست سے وادی سمیت کشمیر کے بہت سے حصوں میں سات لاکھ سے زائد انڈین آرمی کے بوٹوں نے کرفیو نافذ کر رکھا ہے ۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ تینوں مشترکہ کمانڈو ز مقبوضہ کشمیر میں گھسے کشمیری مجاہدین کے خلاف کارروائی کیلئے بلائے گئے ہیں؟ کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے کہ سات لاکھ انڈین آرمی‘ ڈیڑھ لاکھ بارڈر ملٹری فورس اور ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد سینٹرل ریزرو پولیس کے دستے مٹھی بھر کشمیری حریت پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطا بق‘ بھارتی وزارت دفاع کی تیار کی گئی نئی '' آرمڈ سروسز سپیشل آپریشنز ڈویژن‘‘ جس میں نیول میرین‘ کمانڈوز اور انڈین ائر فورس کی سپیشل فورسز شامل ہیں‘ انہیں کن مقاصد کے لیے لائن آف کنٹرول کے قریب ڈیپلائے کیا گیا ہے۔ نریندر مودی اور اس کی جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ مسلمان نام کے کسی بھی ایسے انسان سے جس کا تعلق کسی بھی رشتے یا نصب سے پاکستان سے ملتا ہو‘ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا مشن لئے ہوئے ہے۔ گودھرا گجرات کو دیکھ لیجئے‘ جس کا اس نے بڑے فخر سے ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ '' دیکھا نہیں میں نے گودھرا ٹرین کی بوگیوں کا کس طرح اگلے روز ہی بدلہ چکا دیا تھا‘‘۔نہ جانے بھارت میں وہ کون سی عدالتیں ان میں کون سا قانون پڑھایا جاتا ہے کہ راجت شرما سے مودی کا30 نومبر2008 ء کا یہ نٹرویو آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے‘ لیکن اس اعتراف جرم کے با وجود بھارت کی سپریم کورٹ اسے گجرات میں تین ہزار مسلمانوں کے قتل عام سے بری کر دیتی ہے ۔
یاد رکھیے گا کہ چانکیہ اپنے دشمن پر چاروں جانب سے جھپٹنے سے پہلے کشتی میں سوار اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس میں سوراخ کرانے کی کوشش کرتا ہے ۔اگر سوراخ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر کشتی میں دھینگا مشتی کراتے ہوئے اس کا توازن خراب کرتا ہے‘ تاکہ کشتی کو غرق کیا جا سکے۔