تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     18-05-2013

جل کے مرنا ہے یا گر کر؟

فرض کریں آپ اس روز ایل ڈی اے پلازہ میں تھے۔ یہ آپ کا ایک ہفتے میں آٹھواں چکر تھا لیکن آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا۔ چند سال قبل آپ نے لاہور کی ایک سرکاری ہائوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خریدا تھا۔ آپ بہت خوش تھے کہ اب آپ اپنا گھر بنا لیں گے‘ کرائے کے مکان سے جان ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے گی اور آپ اور آپ کے اہل خانہ کو سکون اور آرام میسر آ جائے گا۔ تاہم آپ کی یہ خوشی کافور ہو گئی جب آپ کو علم ہوا آپ کا پلاٹ پہلے بھی تین ہاتھوں میں فروخت ہو چکا ہے۔ آپ سر پکڑ لیتے ہیں۔ بھاگے بھاگے اس ڈیلر کے پاس جاتے ہیں جس نے آپ کو پلاٹ لے کر دیا تھا۔ وہ صاف مکر جاتا ہے اور آپ کی کسی طرح کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ تنگ آ کر آپ ایل ڈی اے کے چکر لگاتے ہیں۔ ہر مرتبہ آپ کو اگلے روز آنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ صرف آپ ہی نہیں آپ کے علاوہ وہ دو مالکان بھی خوار ہو رہے ہوتے ہیں جو اس پلاٹ کی ادائیگی کر چکے ہیں لیکن مالکانہ حقوق حاصل نہیں کر پائے۔ 9 مئی کو آپ ایک مرتبہ پھر ایل ڈی اے پلازہ پہنچ جاتے ہیں۔ ابھی آپ آٹھویں فلور کی سیڑھیوں پر موجود ہوتے ہیں کہ یکایک ایک دھماکہ ہوتا ہے ‘ آگ اور دھویں کا بگولہ اٹھتا ہے اور آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ آپ زمین پر گر جاتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا برپا ہوتی ہے۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ اٹھتے ہیں۔ آپ ابھی ماجرا سمجھنے کی کوشش ہی کرتے ہیں کہ ایک شخص آگ لگ گئی کا شور کرتے ہوئے بھاگ اٹھتا ہے۔ آپ سہارا لیکر کھڑے ہوتے ہیں اور نیچے کی جانب لپکتے ہیں۔ دھویں اور گردوغبار کی وجہ سے آپ کو راستہ نہیں ملتا۔ آپ واپس مڑتے ہیں اور چھت کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی اثنا میں آپ کو باہر کی جانب ایک کھڑکی نظر آتی ہے ۔ سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے آپ کھڑکی کی جانب لپکتے ہیں۔ یہ کھڑکی آٹھ فٹ کی بلندی پر ہوتی ہے۔ آپ جلتی ہوئی لکڑی کی میز پر پائوں رکھتے ہیں اور دیوار پر ہاتھ ڈال کر کھڑکی سے سر باہر نکال لیتے ہیں۔ابھی آپ چند سانس ہی لیتے ہیں کہ آپ کو پائوں میں انگارے جلتے محسوس ہوتے ہیں۔ آپ کے پائوں پر لکڑی کا جلتا ہوا ٹکرا گرجاتا ہے۔ آپ درد کی شدت سے کراہ اٹھتے ہیں۔ آپ باہر دیکھتے ہیں‘ دُور ہوا میں آپ کو ہیلی کاپٹر دکھائی دیتا ہے۔ یہ چکر کاٹتا ہوا عمارت کی چھت کے قریب آ جاتا ہے۔ آپ ہاتھ ہلا کر اسے مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ اتنے میں آپ کی نگاہ نیچے سڑک پر جاتی ہے۔ سینکڑوں لوگ سڑک پر جمع ہیں۔ یہ بے بسی کے عالم میں آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان میں عام لوگ ‘ پولیس‘ ٹی وی والے اور امدادی کارروائی کرنے والے سبھی شامل ہوتے ہیں۔ آپ انہیں بھی مدد کے لیے پکارتے ہیں لیکن وہ لوگ سوائے افسوس اور آنسو بہانے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ اسی دوران آپ کا موبائل بج اٹھتا ہے۔ فون پر دوسری طرف آپ کا نو سالہ بیٹا ہوتا ہے۔ ’’پاپا ‘ پاپا آپ کہاں ہیں۔ ہم نیچے کھڑے ہیں۔ آپ ٹھیک ہیں ناں‘‘ آپ جلتی ہوئی ٹانگوں اور اکھڑتی سانسوں کے ساتھ بیٹے کو بتاتے ہیں۔’’ ہاں بیٹا ‘ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں آ رہا ہوں۔ میری جان‘ فکر نہ کرو۔ اپنی بہن اور ماما سے کہو‘ بس میں نکلنے والا ہوں‘ یہ آگ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتی‘‘۔ اسی اثنا میں آگ کا ایک اور بگولا اٹھتا ہے اور آپ کے بدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ آپ کے ہاتھ سے موبائل فون چھوٹ جاتا ہے۔ آپ نیچے دیکھتے ہیں آپ کو اپنے بچے‘ اپنی فیملی کھڑی نظر آتی ہے۔ آپ کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ اسی دوران آپ کی نظر سامنے عمارت پر پڑتی ہے۔ اس کی بیرونی دیواروں پر سیاسی امیدواروں کے بڑے بڑے اشتہار لگے ہوتے ہیں۔ آپ کویاد آ جاتا ہے پرسوں گیارہ مئی ہے اور آپ نے ابھی ووٹ بھی ڈالنا ہے۔ پرسوں اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونا ہے۔ آپ ماضی میں پہنچ جاتے ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ پھر آپ اس جماعت سے مایوس ہوئے ۔ آپ نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا۔ اس جماعت نے بھی کارکردگی نہ دکھائی۔ تو آپ نے ووٹ دینا ہی چھوڑ دیا۔ اب اتنے برسوں بعد آپ ایک مرتبہ پھر ووٹ دینے کو تیار تھے۔ آپ ہی نہیں اس ملک کے ایسے ایسے نوجوان اور لوگ ووٹ دینے کی تیاری کر رہے تھے جنہوں نے زندگی میں کبھی ووٹ نہ دیا تھا۔ یکدم آپ نے نیچے دیکھا۔ آپ کو امدادی کارروائی کرنے والے ادارے کی سیڑھی نظر آتی ہے لیکن یہ بمشکل پانچویں فلور تک پہنچتی ہے جب کہ آپ آٹھویں منزل پر پھنسے ہوتے ہیں۔اسی اثنا میں آگ بڑھتی ہوئی آپ کی گردن تک پہنچ جاتی ہے۔ اب آپ کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ جل کر مرنا ہے یا گر کر۔ آپ جلنا نہیں چاہتے۔ آپ نہیں چاہتے آپ کی موت کے بعد آپ کے بچے آپ کی لاش کی شناخت بھی نہ کر پائیں۔ آپ کے اہل خانہ ایک سوختہ‘ انجانی لاش کو اپنا باپ کیسے مانیں گے۔ آپ اپنی فیملی کو اس دُکھ سے بچانے کے لیے دوسرا راستہ چنتے ہیں۔ اپنا جلتا ہوا جسم گھسیٹ کر کھڑکی سے نیچے لٹکاتے ہیں اور کلمہ پڑھ کر نیچے کود جاتے ہیں۔ یہ کہانی اُن تین افراد میں سے ایک بد نصیب کی تھی ‘ جس نے 9مئی کو ایل ڈی اے پلازہ کی آٹھویںمنزل سے چھلانگ کر جان دے دی۔ جی ہاں‘ یہ کہانی ایک ایسے شخص کی تھی جس نے ساری عمر ٹیکس بھی ادا کیا اور قانون کی پاسداری بھی کی‘ لیکن اس شخص کو ارباب اختیار نے اس منزل اور اس مقام پر پہنچا دیا کہ اسے یہ سوچنا پڑا کہ جل کے مرنا ہے یا گر کر؟ جی ہاں‘ یہ وہی ملک ہے جس میں ایک شخص چھ ارب کا فراڈ کرتا ہے لیکن اپنے سیاسی قائدین کے سامنے شاباش کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جہاں کرپٹ ترین افراد کے ہاتھوں میں اٹھارہ کروڑ عوام کی قسمت ہوتی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ماضی کی صوبائی اور مرکزی حکومت کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی کہ گیارہ بائیس جیسے امدادی کارروائی کرنے والے ادارے کو ہی اپ ڈیٹ کر دیتے۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے لاہور شہر میں صرف نو ہنگامی سیڑھیاں ہیں اور وہ بھی چار پانچ منزلوں سے زیادہ اوپر نہیں جا سکتیں۔ یہ اس ملک کا حال ہے جس کے پاس ایٹم بم بھی ہے‘ معدنیات بھی‘ زرخیز زمین بھی‘ سب کچھ ہے لیکن عام آدمی کو آگ سے بچانے کے لیے ایک سیڑھی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved