ایک ایک لمحہ صدی بن گیا تھا۔ بے نظیر کے جسم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ آنکھیں مندی ہوئی تھیں‘ اور گاڑی کے ٹائر پنکچر ہو چکے تھے۔ اچانک گاڑی کے پیچھے ایک پجیرو نظر آئی۔ زخمی بے نظیر کو پجیرو میں منتقل کیا گیا۔ ہسپتال میں اس وقت ایک جونیئر ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھا۔ جلد ہی سینئر ڈاکٹر مصدق آ گئے۔ انہوں نے دوسرے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر سر توڑ کوشش کی لیکن بے نظیر کی زندگی ان سے روٹھ گئی تھی۔ باہر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ ہر شخص بے قرار تھا، بے چین تھا کہ آپریشن تھیٹر سے کیا خبر آتی ہے۔ اور پھر خبر آ گئی۔ بابر اعوان اشک بار آنکھوں سے باہر آئے اور بی بی کی شہادت کا اعلان کیا۔ اب جذبات کے رکے ہوئے بند ٹوٹ گئے تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ فوراً ہی یہ خبر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ غیر ملکی ٹی وی چینلز اپنی ہیڈ لائنز میں یہ خبر نشر کرنے لگے۔
وہ دن مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ ان دنوں میں لاہور میں ڈیفنس میں واقع ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور کلمہ چوک کے قریب عسکری کالونی میں رہتا تھا۔ لاہور میں سردیوں میں دھند پچھلے کچھ برسوں سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اس روز میں یونیورسٹی سے واپس آ رہا تھا۔ میرے ہمراہ عمر انجم تھا‘ جو ان دنوں میرے ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ میں خود ہی گاڑی ڈرائیور کر رہا تھا۔ ابھی ہم فردوس مارکیٹ کے سامنے پہنچے تھے کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون سننے کے لیے گاڑی سڑک کے کنارے پر لگائی۔ فون پر وہ خبر تھی جو میرے وہم و گمان سے باہر تھی '' بے نظیر شہید ہو گئی ہیں‘‘ میں سکتے میں آ گیا۔ عمر کہنے لگا ''خیریت ہے سر‘ کوئی پریشانی والی خبر ہے‘‘ میں نے عمر کو بتایا: بے نظیر پر لیاقت باغ میں جلسے کے بعد حملہ ہوا ہے جس میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ کچھ دیر تک ہم خاموش بیٹھے رہے ایک بوجھل سکوت کے حصار میں۔
پھر دن مہینوں اور مہینے برسوں میں بدل گئے اور اب ایک طویل عرصے کے بعد میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں تھا‘ جہاں بے نظیر اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں محو خواب تھیں۔ دونوں کا ایک دوسرے سے پیار کا رشتہ تھا‘ موت کے بعد بھی یہ ساتھ برقرار رہا۔ بہت سال پہلے جب بے نظیر اپنے والد کی قبر پر پہلی بار آئی تھیں‘ اس وقت یہ ایک مٹی کا ڈھیر تھا۔ قبر کے پاس کھڑے ہو کر بے نظیر نے قبر کی پائنتی کی طرف دیکھا۔ اندازہ لگایا کہ بابا کے پائوں کس مقام پر ہوں گے اور جھک کر وہاں قبر کی مٹی کو چوم لیا تھا۔ میر ے سفر کا اگلا پڑائو نوڈیرو کا وہ گھر ہے‘ جہاں بے نظیر نے اپنی زندگی کا ایک حصہ گزارا۔ نوڈیرو کے حسن کا تذکرہ سندھ کی شاعری میں ملتا ہے۔ گڑھی خدا بخش سے نوڈیرو کا فاصلہ زیادہ نہیں۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ میرے سفر کے ساتھی انعام شیخ نے ندیم بھٹو کو ہماری آمد کا بتا رکھا تھا۔ ندیم بھٹو کا خاندان تین نسلوں سے بھٹو خاندان کے ساتھ وابستہ ہے۔ ندیم کے بھائی عبدالجبار بھٹو بھی یہیں ہوتے ہیں۔ ندیم نے ہمیں گھر کے مختلف حصے دکھائے۔ بے نظیر کا کمرہ‘ جس سے ملحق لائبریری تھی۔ وہ لائونج جہاں بیٹھ کر وہ ٹی وی دیکھتی تھیں۔ وہ ڈائننگ روم جس کی لمبی میز کے ارد گرد کرسیاں تھیں۔ یہاں کئی میٹنگز بھی ہوتی تھیں۔ وہیں پر ہمارے لیے ندیم نے چائے کا اہتمام کیا تھا۔ میں نے پوچھا: ندیم‘ تم تو ایک عرصے سے یہاں ہو بی بی کے روز کے معمولات کیا تھے؟ کب سوتی تھیں؟ کب جاگتی تھیں؟ ندیم کہنے لگا: ان کی نیند حیرت انگیز طور پر مختصر تھی۔ محض چار گھنٹے۔ صبح بہت جلد بیدار ہو جاتی تھیں تقریباً چار بجے ان کے دن کا آغاز ہو جاتا تھا۔ ناشتے کا وقت سات بجے کا ہوتا۔ عام سا ناشتہ ہوتا انڈہ اور ٹوسٹ۔ میں نے پوچھا: ملازموں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا تھا؟ وہ بولا: سب ملازموں کے ساتھ ان کا رویہ شفقت کا ہوتا۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک ملازم کے ہاتھ سے چائے کا کپ گر گیا اور چائے ان کے کپڑوں پر گر گئی۔ انہوں نے ملازم سے کچھ نہ کہا‘ خاموشی سے اٹھ کر اندر گئیں اور کپڑے بدل کر باہر آ گئیں۔ مجھے یاد ہے جب کارساز میں ان کے جلوس میں بلاسٹ ہوا اور وہ گھر آ ئیں تو ہمیں کہا: گھر کے دروازے کھول دو یہاں مجھے کوئی ڈر نہیں۔ میں نے ڈائننگ روم میں بیٹھے ندیم سے پوچھا: بی بی کی پسندیدہ ڈش کیا تھی؟ ندیم نے کہا: وہ اندر سے بہت دیسی تھیں‘ ساگ اور لوٹس پھول کی ڈنڈی (جسے سندھی زبان میں ''بہہ‘‘ کہتے ہیں) چاول کی روٹی پر مکھن اور گڑ والے چاول شوق سے کھاتی تھیں۔ گھر میں ایک گیلری نما برآمدہ تھا جہاں سے باہر لان میں خوش رنگ پھولوں کا منظر دل کو بھاتا تھا۔ اکثر بے نظیر اس گیلری میں بیٹھتیں اور چائے کے ہمراہ کتابوں کا مطالعہ کرتیں۔ میں نے گیلری میں کھڑے ہو کر باہر چمن پر نگاہ دوڑائی‘ سبز رنگ کے لان میں رنگ رنگ کے پھول روشنیوں کی طرح لگ رہے تھے‘ کیسا دل آویز منظر تھا‘ لیکن اب اس منظر کو دیکھنے والی منوں مٹی کے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے کہا: بی بی کے حوالے سے کوئی اور خاص بات؟ ندیم بولا: ان کی یادداشت بہت اچھی تھی‘ بہت پرانی باتیں‘ لوگ اور جگہیں انہیں یاد رہتی تھیں‘ شاید یہ چیز انہیں وراثت میں ملی تھی‘ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی یادداشت کے سبھی قائل تھے۔ گڑھی خدا بخش کے لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ کیسے جب بھٹو عید کے موقع پر یہاں آتے تو راستے میں ملنے والے ہر چھوٹے بڑے کو اس کے نام سے پکارتے۔ کسی سے ایک بار ملتے تو اس کا چہرہ اور نام ان کے حافظے میں محفوظ رہتا تھا۔ ندیم نے بتایا: نوڈیرو میں ان کے گھر کے قریب ہی ایک عام سی بستی تھی بے نظیر وہاں کی غریب عورتوں کی مدد کرتی تھیں۔
پھر ندیم نے گھر کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا: یہ ہے وہ کمرہ جہاں بی بی کو آخری غسل دیا گیا تھا۔ یکلخت ماحول اداس ہو گیا۔ پھر وہ کہنے لگا: آئیں آپ کو چھت پر لے چلوں۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر چلے گئے۔ وہاں سے چاروں طرف کا منظر نظر آ رہا تھا اور وہ انیکسی بھی جس میں بے نظیر نے شفٹ ہونا تھا۔ اس انیکسی کی ساری چیزوں اور انٹیریئر ڈیزائن میں بے نظیر نے ذاتی دلچسپی لی تھی۔ ندیم نے بتایا: اس انیکسی کو انہوں نے بڑے شوق سے بنوایا تھا۔ 22 دسمبر کو ان کا سارا سامان بھی آ گیا تھا۔ سامان سیٹ ہونے کے بعد انہوں نے جلد ہی انیکسی میں شفٹ ہونا تھا۔ پھر 27 دسمبر کا جلسہ آ گیا اور بھر سب کچھ ختم ہو گیا۔ ایک بار پھر گہری خاموشی چھا گئی۔ تب میں نے دیکھا‘ اس چھت سے اوپر ایک اور چھت بھی تھی جس پر جانے کے لیے چوڑی سیڑھیاں تھیں۔ میری خواہش پر ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ اب ہم اور بلندی پر آ گئے تھے۔ ندیم کہنے لگا: بی بی جب اس چھت پر آتیں تو یہاں دیر تک یہاں کھڑی رہتیں۔ یہاں پر گرمیو ں کی شاموں میں ہوا چلتی تو ایک عجیب سی کیفیت ہوتی تھی۔ بی بی کہا کرتیں: یہاں پر میں ایک کمرہ بنوائوں گی‘ کیسی ٹھنڈی ہوا آتی ہے یہاں پر۔ ایک رات کی بات ہے‘ بی بی اس چھت پر کھڑی تھیں‘ آسمان پر تا حدِ نظر تارے بکھرے ہوئے تھے۔ بے نظیر نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے قریب کھڑی ناہید خان سے کہا: ناہید دیکھو تاروں کے نیچے میرا نوڈیرو کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ آج اسی چھت پر کھڑے میں نے آسمان کو دیکھا۔ سورج ڈوب رہا تھا‘ آسمان پر شفق کی سرخی پھیل رہی تھی اور یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر اپنی مٹی سے عشق کرنے والی بے نظیر ہمیشہ کی نیند سو رہی تھی۔ وہ سندھڑی کی سوندھی مٹی تھی جو یہاں کی خاک میں مل کر امر ہو گئی تھی۔