تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     29-12-2019

ادھورے خواب نہیں‘ عملیت پسندی

تقریباً تمام مسلم اکثریتی ممالک میں عام مسلمان اپنی ریاست اور معاشرے کے بارے میں کئی فکرمندیوں کا شکار نظر آتا ہے؛ تاہم ایک خیال سب کا مشترک ہے کہ سب مسلم ریاستیں آپس میں متحد ہو جائیں‘ ایک طاقت بن کر ابھریں اور کئی صدیوں سے کھویا ہوا ملی وقار دوبارہ حاصل کیا جائے۔ یہ سوچ مذہبی حلقوں میں زیادہ غالب نظر آتی ہے۔ سیکولر اور جدیدیت پسندوں کے نظریاتی اور سیاسی زاویے ان سے بہت مختلف ہیں۔ گزشتہ صدی میں استعماریت پھیلائو کے علاوہ ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور مسلم معاشروں میں ہر نوع کی قومیت پرستی کی تحریکوں نے ملی وحدت کو محض خیالوں اور نظریاتی امنگوں تک محدود کر دیا تھا۔ اس طرح کے اضطراب بھرے ماحول میں نہ کوئی تحریک‘ نہ مرکزیت‘ نہ کوئی نظریہ اور نہ ہی کوئی ایسی جماعت بن سکتی تھی جو ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجا کرتی۔ جن خطوں کی ہم اس وقت بات کر رہے ہیں‘ وہاں مغربی استعمار کے ظہور پذیر ہونے سے تقریباً ایک صدی قبل طاقت کا عالمی توازن مغربی قوموں اور ریاستوں کے حق میں قائم ہو چکا تھا۔ تعلیم ہو یا سیاست‘ سائنسی ایجادات ہوں یا صنعتی ترقی‘ سب میدانوں میں مغرب قابل رشک برتری حاصل کر چکا تھا۔ صرف مسلم تہذیب ہی نہیں بلکہ چین سے لے کر افریقہ کے ہر کونے تک دیگر کئی تہذیبیں بھی آہستہ آہستہ یورپ کی طاقتور قوموں کے زیر تسلط آ گئی تھیں۔ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلی ریاستوں پر ترکستانی‘ افغانی اور ایرانی مسلمان حکمران کئی صدیوں تک حکومتیں کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ 
افغانستان کے وسیع تر علاقے بھی مغلیہ ریاست کا حصہ رہے۔ افغانستان سے ملحق وسطی ایشیا میں‘ جہاں آج ازبکستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان‘ کرغزستان اور قازقستان ہیں‘ کئی خانانی ریاستیں قائم تھیں۔ ان ریاستوں کے مغربی کنارے ایران کی سلطنت سے ملتے تھے۔ ایک وقت تھا جب موجودہ جارجیا‘ آرمینیا اور آذربائیجان ایرانی سلطنت کے قبضے میں تھے اور اس سے ملحق ترکی کی مرکزیت اور قیادت میں سلطنت عثمانیہ تھی جس میں مصر کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے تمام موجودہ ممالک شامل تھے۔ تخیل پسندی اور معصوم خواہشیں اپنی جگہ مگر تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ مسلم حکمران ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑتے تھے‘ دونوں جانب ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے جاتے تھے اور ریاستوں پر فوجی کشی کر کے قبضے کر لئے جاتے تھے۔ مغلوں نے بھی ہندوستان میں نہ صرف ہندو مہاراجوں کی کئی آزاد ریاستوں کو تاراج کیا بلکہ مسلمان حکمرانوں کی بہت سی ریاستیں بھی تھیں‘ جو ان کے ہاتھوں تباہ ہوئیں۔ یہی حال یورپ کا بھی تھا۔ سولہویں صدی میں تقریباً ایک سو سال تک سینکڑوں حکمران ٹولوں کے درمیان جنگیں چلتی رہیں۔ یورپ میں جب کلیسا کی مرکزیت زوال پذیر ہوئی تو جنگجو برسات کے مینڈکوں کی طرح ابھرنے لگے۔ سب نے اپنی اپنی ریاست قائم کرنے کے خواب آنکھوں میں سجا لئے۔ ہر جگہ عرب‘ عجم‘ مشرق اور مغرب میں صرف عسکری قوت کا قانون چلنا تھا۔
سو سالہ جنگ سے تنگ پڑے تو یورپی جنگجوئوں نے امن کی ٹھان لی۔ اس کے لئے کچھ اصول باہمی طور پر طے کر لئے جن میں عدم مداخلت‘ جغرافیائی سرحدوں کا تقدس‘ اندرونی اقتدار اعلیٰ اور دو طرفہ قبولیت جیسے اصول شامل تھے۔ یہ وہ اصول ہیں جو موجودہ ریاستی نظام کے قیام اور اس کو ترویج دینے کے ذمہ دار ہیں۔
دنیا سلطنتوں کو ختم کر کے قومی ریاستیں قائم کر چکی ہے۔ مذہب اور تہذیب کے دھارے میں ایک نہیں کئی ریاستیں قائم ہیں۔ اگر ہم ان عالمگیر اصولوں کو دیکھیں جن کو دنیا تسلیم کر چکی ہے تو جدید دور میں ریاستوں کی مذہبی شناخت ممکن نہیں رہی کیونکہ ہر نوع کے مذہبی گروہ شہری ہیں‘ برابر کے شہری۔ اٹھاون مسلمان اکثریتی ریاستوں میں سے صرف تین ہیں جن کے ساتھ اسلامی کا لاحقہ شامل ہے۔ افغانستان‘ ایران اور پاکستان۔ روزانہ کی بنیاد پر دنیا میں لوگ مختلف وجوہ کی بنیاد پر نقل مکانی کر رہے ہیں۔ مغرب میں بڑے شہروں کی آبادیاں مختلف رنگ و نسل اور قومیتوں کا حسین امتزاج ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مسلمان اکثریتی ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے مغربی ریاستوں کا رخ کیا۔ وہاں کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں مسلمانوں نے اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ اور تسلسل کیلئے ادارے قائم نہ کئے ہوں جن میں مسجدیں‘ کمیونٹی سنٹرز اور اجتماعی تہواروں کے منانے کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ وہاں زندگی آسان اور آسودہ ہے۔ کم از کم قانونی طور پر برابری کے حقوق ہیں۔ عملی زندگی ہر جگہ غالب طبقات اور گروہوں کے مفادات کے تقاضوں کے تابع ہے۔ یہ صرف مغرب کی بات نہیں‘ مشرق اور مسلم ریاستوں میں بھی یہی حال ہے۔ کاش ہمارے ہاں بھی اقلیتیں اسی طرح خوشحال اور مطمئن نظر آتیں‘ جیسے مسلمان تارکین وطن مغربی ریاستوں میں محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تفریق اور امتیاز صرف مذہبی بنیاد پر نہیں‘ کئی حوالوں سے غالب نظر آتا ہے۔
قومی ریاستوں کے جدید دور میں مذہبی اور تہذیبی بلاک بنانے کی خواہش نیک سہی مگر عملیت پسندی کے ترازو میں ہلکی ثابت ہو گی۔ مسلمان مفکرین ایک صدی سے یہ خواب دیکھ بھی رہے ہیں اور ہمیں دکھاتے بھی رہتے ہیں۔ اقبالؒ نے ہی کہا تھا 'ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘ نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر‘۔ یہ جذبہ اور تڑپ نیک ہے اور خواب دیکھنا انسان کی کمزوری ہرگز نہیں بلکہ خوابوں سے منزل کا تعین اور اس کے حصول کے لئے جدوجہد اور کاوش کو تحریک ملتی ہے۔ اسی لئے ہر دور میں کچھ مسلمان اکثریتی ریاستوں‘ بشمول پاکستان‘ میںکبھی کبھار سیاسی جماعتیں اور عمائدین تمام مسلمان ریاستوں کو اکٹھا کرنے اور عالمی مسائل کے تناظر میں انہیں ایک سمت میں لانے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ نو گیارہ کے بعد کے اٹھارہ برسوں میں اسلامی تہذیب‘ مذہب اور مسلم معاشروں کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا جاتا رہا ہے‘ یقینی طور پر باعث تشویش ہے۔ مغربی جامعات میں اسلام اور اسلامی تاریخ و تہذیب کے مغربی علما نے اپنے اپنے دائرے میں مسلمانوں کے خلاف پھیلتی ہوئی نفرت اور حقارت آمیز رویّوں کو رد کرنے کی بھرپور کوشش جاری رکھی ہے۔ جس انداز میں ہردلعزیز ذرائع ابلاغ اور سیاسی پنڈتوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی‘ تاریخی حوالے اور منطق ان کے منفی اثرات زائل کرنے میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آتے۔ اسرائیل اور بھارت فلسطینیوں اور کشمیریوں کی آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے لبادے پہنانے میں آسودگی محسوس کرتے رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں مسلم اقلیتوں کو ہر جگہ دبانے اور ان کے حقوق سلب کرنے کے رویے بھی زور پکڑنے لگے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ یہ وہ سوال ہے‘ جس کا جواب ہر شخص اپنی سوچ اور اہلیت کے مطابق دے سکتا ہے۔ آج نہیں‘ صدیوں سے غالب نظریہ یہ رہا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد قائم کیا جائے۔ 
خوابوں کی دنیا سے نکل کر دیکھیں تو اس وقت کچھ حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں‘ جن سے انکار کرکے ہم اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ ان حقیقتوں کے ادراک اور فہم سے ہی آگے کی منزل اور اس کی طرف راستوں کا تعین کرنا ممکن اور آسان ہو گا۔ قومی ریاستیں اور ان کی بنیاد پر ترتیب دیا ہوا عالمی نظام طاقت کی کرنسی سے چلتا ہے۔ موجودہ دور میں طاقت کے عوامل محض فوجی قوت پر محیط نہیں۔ اس کا دائرہ تعلیم‘ سائنسی اور صنعتی ترقی کے علاوہ معاشرتی ہم آہنگی‘ داخلی امن اور استحکام تک پھیل چکا ہے۔ عسکری قوت کی آبیاری کیلئے بھی اقتصادی ترقی کا منبع ضروری ہے۔ قومی ریاستیں کیسے کمزور اور کیسے مضبوط اور مستحکم ہوئیں‘ یہ کوئی راز کی باتیں نہیں رہیں۔ ترکی‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا نے بے مثال ترقی کی ہے۔ پاکستان میں ایسے ادوار بھی گزرے‘ جب ہم نے حیرت انگیز اقتصادی نمو حاصل کی اور وہ صلاحیت اب بھی موجود ہے۔ صرف مسلم ریاستیں نہیں بلکہ ہر وہ ریاست جس کے ساتھ تجارت ہو سکتی ہے‘ جس کی منڈیوں تک رسائی ہے‘ جہاں سے سرمایہ اور ٹیکنالوجی درآمد کی جا سکتی ہے اور جس کے ساتھ مفادات ہم آہنگ ہیں‘ دوست اور اتحادی بن سکتی ہے۔ عالمی نظام اور ریاست کو بنانے کے عملی تقاضے انہیں اصولوں سے وابستہ ہیں۔ کامیاب قومیں خواب وہ دیکھتی ہیں‘ جن کی تعبیر ممکن ہو۔ باقی سب نیم خوابی کی حالت میں ادھورے خواب ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved