تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     29-12-2019

بے مثال

راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی 12ویں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا، ان کی قربانیاں‘ ملک کے لیے ان کی خدمات گنوائیں اور پارٹی کا وژن بیان کیا۔ بلاول کی تقریر میں حکومت کے خلاف چارج شیٹ بھی تھی اور ملک کے لیے اپنی جماعت کے منشور اور عزم کا عکس بھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے حکمران جماعت اور کپتان کی طرف سے بار بار ریاست مدینہ کے نعرے اور ان کی پالیسیوں کے تضاد کو ایک مختصر سے جملے میں سمو دیا، کہا ''کوفے کی سیاست سے مدینے کی ریاست نہیں بن سکتی‘‘۔ 
بلاول کی اس تقریر سے محترمہ بینظیر بھٹو کی جدوجہد، بلاول نام رکھنے کی نیت اور اسلام پر محترمہ کے پختہ یقین سمیت بہت کچھ میرے ذہن میں تازہ ہوتا چلا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے بلاول کی پیدائش اور اس کے متعلق اپنے خوابوں کو اپنی کتاب میں مختصراً بیان کیا ہے۔ بینظیر بھٹو نے لکھا ''بچے کی پیدائش توقع سے پہلے ہو گئی، اور ہم نے ابھی اس کے نام کا بھی فیصلہ نہیں کیا تھا‘ بہت سے موصولہ خطوط میں بچے کا نام میرے والد کے نام پر رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا‘ لیکن پاکستان میں باپ کے نام پر بچے کا نام رکھنے کا رواج ہے اور میں پاکستان کی روایات کا احترام کرنا چاہتی تھی۔ میری خواہش تھی کہ بیٹا پیدا ہونے کی صورت میں اس کا نام شاہ نواز رکھوں گی۔ لیکن جب کسی نے کہا، اگلی مرتبہ تمہیں ملنے آؤں تو شاہ نواز پیدا ہو گیا ہو گا، یہ سنتے ہی میرا دل بیٹھ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے مردہ بھائی کے فرش پر پڑے جسم کا منظر گھوم گیا اور میں نے جان لیا کہ اپنے بیٹے کا نام شاہ نواز رکھ کر میں ہر وقت اس منظر کو یاد کرکے زندگی نہیں بِتا سکتی۔ آصف نے ایک نام بتایا‘ اسی طرح اس کی والدہ اور میری والدہ نے بھی۔ مجھے کسی پر بھی اعتراض نہیں تھا ''ہم کسی عالم سے پوچھیں گے‘‘ میں نے کہا ''جو بھی زیادہ مبارک نام ہو گا اسی سے ہم پکاریں گے‘‘ لیکن مذہبی عالم نے کہا کہ تینوں ہی نام مبارک ہیں اور ایک دوسرے کے برابر۔ تب اچانک ذہن میں بلاول نام آیا، جو بل آول سے ماخوذ ہے، اور اس کا مطلب ہے ''بے مثال‘‘۔ سندھ میں ایک بزرگ بلاول بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے زمانے میں ظلم و جبر کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ آصف کے اجداد میں بھی ایک کا نام بلاول تھا۔ اس نام میں میرے اپنے نام کی گونج بھی پوشیدہ تھی جس کا مطلب بے نظیر، یا بے مثال ہی ہے‘‘۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے بیٹے کا نام رکھتے ہوئے جو نیت کی تھی، راولپنڈی میں بلاول ویسا ہی نظر آیا، اپنی ماں جیسا، یعنی بے مثال۔ جس بزرگ کے نام پر اس کا نام رکھا گیا ان کی لاج رکھتا ہوا اور سیاسی جبر و استبداد کو للکارتا ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کوفہ کی سیاست سے مدینے کی ریاست بنانے کی جو چوٹ کی ہے، وہ احتساب کے نام پر انتقام کرنے والوں کو نہ صرف للکارا گیا ہے بلکہ مدینے کا نام لے کر باطل سیاسی نظریات کو بھی آشکار کر گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے لب و لہجے کی وجہ سے اس پر پنڈی کے ایک بقراط سمیت کئی بوڑھے سیاست دان اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرتے ہیں، اس کو سیاسی نابالغ کہتے ہیں، اسے بچہ ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ طعنے دینے والے بھول گئے کہ بینظیر کا بیٹا اپنی ماں کے نقش قدم پر ہے اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں اور طعنے اس کی راہ نہیں روک سکتے۔ بینظیر بھٹو کو خاتون ہونے کی بنیاد پر سیاست سے باہر کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ بینظیر بھٹو نے پہلی جلاوطنی توڑ کر واپس آنے کے بعد پشاور میں ایک خطاب کیا تھا۔ عورت ہونے کے طعنے دینے والوں کو بینظیر کا جواب آج بھی پڑھنے اور سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ طعنے دینے والے مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کے لوگ تھے اور مذہب کو استعمال کر رہے تھے۔ 
بینظیر بھٹو نے کہا تھا ''لوگ کہتے ہیں میں کمزور ہوں کیونکہ میں ایک عورت ہوں، کیا انہیں خبر نہیں کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں، اور مسلمان عورتوں کو اپنی میراث پر فخر ہے، مجھ میں بی بی خدیجہؓ کا صبر ہے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، مجھ میں بی بی زینبؓ کا استقلال ہے جو امام حسینؓ کی بہن تھیں، اور مجھ میں حضرت عائشہؓ کا حوصلہ ہے جو ہمارے رسول کی چہیتی بیوی تھیں، جنہوں نے خود اونٹ پر سوار ہو کر جنگ میں مسلمانوں کی سربراہی کی تھی۔ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہوں اور شہید شاہ نواز بھٹو کی بہن ہوں اور میں آپ سب کی بہن ہوں۔ میں اپنے مخالفوں کو چیلنج کرتی ہوں کہ ان میں دم خم ہے تو آئیں اور جمہوری انتخابات کے میدان میں میرا مقابلہ کریں‘‘۔ بینظیر بھٹو کے اس خطاب پر پشاور کی اس جلسہ گاہ میں جہاں ننانوے فیصد مرد موجود تھے، ہر طرف تالیوں کی گونج تھی اور جب بینظیر بھٹو نے کہا ''ضیا، زا‘‘ یعنی ضیا جاؤ تو مجمع نے بھرپور ساتھ دیتے ہوئے ''زا، زا‘‘ کے نعرے لگا دیئے۔
بلاول بھٹو زرداری نے ملک کے حالات کا بھی درست جائزہ پیش کیا اور کہا کہ موجودہ حکومت نے 10 لاکھ افراد بے روزگار کر دیے، پارلیمنٹ پر تالا ہے، عدلیہ پر حملے ہو رہے ہیں، صوبوں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں، ہر طرف بحران ہی بحران ہیں، آزادی خطرے میں ہے، عوام عذاب کا شکار ہیں، جو کہتے تھے نواز شریف اور زرداری باہر نہیں آ سکیں گے‘ وہ دیکھ لیں دونوں باہر آ چکے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے نئے سال کو الیکشن کا سال قرار دیا ہے۔
موجودہ حکومت جس طرح اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت میں خود کو غیر جانبدار بنائے رکھنے کی بظاہر پالیسی اپنائے ہوئے ہے، یہ اس کی سیاسی نا تجربہ کاری ہے، اداروں کے درمیان غلط فہمیوں کو اگر بڑھنے دیا گیا تو یہ صورت حال حکومت اور نظام دونوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ حکومت جس طرح انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر بغیر ثبوت مقدمے بنا رہی ہے اور عدالتوں کی طرف سے کمزور مقدمات میں ضمانتیں دی جا رہی ہیں، اس پر حکومت جس طرح کا رد عمل دیتی ہے، یہ اداروں پر عدم اعتماد بڑھانے کی جانی انجانی کوشش ہے اور نقصان سب کا ہو گا۔
پاکستان میں بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہدآمریت اور جبر کے خلاف جنگ کا شاندار سیاسی باب ہے۔ بینظیر بھٹو کا بیٹا اس جدوجہد کو آگے بڑھانے نکلا ہے۔ اسے طعنے بھی سننے پڑ رہے ہیں اور جبر کا سامنے بھی ہے۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ بلاول کی صورت میں پیپلز پارٹی اور جمہوریت پسندوں کو نوجوان قیادت ملی ہے‘ جو سیاسی تاریخ کا شعور بھی رکھتی ہے اور سیاسی جدوجہد میں استقلال اور استقامت رکھنے والوں کی وارث ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود بلاول بھٹو کے لئے سیاسی سفر اتنا آسان نہیں، ایک طرف جہاں انہیں پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر عوام میں مقبول بنانے کے چیلنج کا سامنا ہے‘ وہیں اپنے والد اور پھوپھو پر لگے کرپشن کے الزامات کے بیگج سے چھٹکارا بھی ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق پیپلز پارٹی کے ووٹروں کی تعداد میں 2008 کے الیکشن کے بعد سے مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ کیا صرف اپنی تقریروں سے بلاول اپنا ووٹ بینک بڑھا سکیں گے؟ کیا پنجاب کے عوام ایک بار پھر پیپلز پارٹی سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے؟ کیا پیپلز پارٹی سندھ میں ایسی کوئی کارکردگی دکھا پائے گی جس کو اس کے ناقدین بھی مثالی قرار دیں۔
بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر ہر سال بی بی کے قاتل نہ پکڑے جانے کا طعنہ بھی بلاول کو سننا پڑتا ہے۔ ان کی حکومت نے بی بی کے قاتل کیوں نہ پکڑے؟ قتل میں جو آلہ کار تھے، وہ مجرم ضرور ہیں لیکن اس قتل میں ملکی اور بین الاقوامی حالات اور کردار بھی شامل تھے۔ اس کا جواب سابق صدر زرداری نے ویڈیو پیغام میں دیا اور کہا کہ جہاں بلاول کھڑا ہے‘ یہ وہی جگہ ہے جہاں آمروں کے دور میں ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، دونوں آمروں کے ساتھ قدرت نے کیا سلوک کیا؟ 
کیا ایسی باتوں سے اس تاثر کو زائل کیا جا سکتا ہے کہ بلاول کے والد آصف زرداری نے اقتدار کے حصول کے لئے بی بی شہید کے قاتلوں سے سمجھوتہ کر لیا؟ یا پھر قاتل نہ پکڑنے کے طعنے دینے والے وہی ہیں جو انتقامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں۔ ملک کو اس وقت انتقامی سیاست سے نکال کر جمہوریت کی اصل روح اور تصور کے مطابق چلانا ہی ان قاتلوں سے انتقام ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved