تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-12-2019

سرخیاں‘متن‘ درستی اور ابرارؔ احمد کی نظم

تھانہ کلچر بدل رہا ہے‘ عوام کو جلد تبدیلی نظر آئے گی: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''تھانہ کلچر بدل رہا ہے‘ عوام کو جلد تبدیلی نظر آئے گی‘‘ اور تھانہ کلچر کی اس سے بڑی اور تبدیلی کا ہو سکتی ہے کہ پولیس اب‘ تفتیش تھانوں میں نہیں کرتی‘ بلکہ عقوبت خانوں میں کرتی ہے‘ تا کہ اس کلچر کی تبدیلی باہر کے لوگوں کو ذرا کم سنائی دے اور اس دوران جس نے قضائے الٰہی سے فوت ہونا ہے‘ وہ تسلی سے ہو جائے‘ کیونکہ اس میں جان کَندن وغیرہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی اور سورۂ یٰسین پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی‘نیز اگر اب ‘آپ تھانے جائیں تو اہلکار آپ کو اٹھ کر ملیں گے‘ جبکہ لین دین کا معاملہ الگ ہے‘ کیونکہ وہ ہر آنے والے کے بارے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ پوری تیاری سے آیا ہوگا‘ جبکہ اس سے معاملات بھی جلد طے ہو جاتے اور آپ کا اور اہلکاران کا وقت بھی ضائع نہیں ہوتا ‘کیونکہ وہ وقت کے قیمتی ہونے کا پورا پورا احساس رکھتے ہیں ‘جو کہ زندہ قوموں کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ آپ اگلے روز خانیوال میں زرعی یونیورسٹی کے سب کیمپس کا افتتاح اور پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
بھوک غریب آدمی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''بھوک غریب آدمی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے‘‘ لیکن وہ باہر ہی نہیں نکل رہا اور وہ بیچاری تھک ہار کر واپس چلی جاتی ہے‘ بلکہ اب‘ لگتا ہے کہ اس کی قوتِ سماعت ہی جواب دے چکی ہے اور یہ عارضہ اُسے ہمارے دور اقتدار ہی سے لاحق چلا آ رہا ہے اور کسی بات پر متوجہ کرنے کے لیے اُس کے آگے ڈھول بجانا پڑتا تھا اور جس کے لیے ہم نے کافی سارے ڈھول اکٹھے بھی کر رکھے تھے‘ جن کا پول اب کھل رہا ہے‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اگر بھُوکا باہر نہ نکل رہا ہو تو اُس کے دروازے پر کوئی چھوٹا موٹا بم چلا دیا کرے‘ اس کا باپ بھی باہر نکل آئے گا‘ ورنہ اس کا کوئی چچا‘ تایا یا ماموں ضرور باہر نکلے گا۔اول تو سب بھوکوں کو گھر سے باہر نکل کر ہی بیٹھنا چاہیے‘ تا کہ حکومت یا لوگوں کیلئے آسانی رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
امید ہے ‘اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''امید ہے‘ اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا‘‘ کیونکہ میں اس کے خلاف ثبوتوں کو ٹھکانے لگانے میں لگا ہوا ہوں‘ جبکہ مسلسل انکار کے بعد میری ضمانت کرانے کی وجہ بھی یہی تھی‘ نیز اس میں اللہ میاں کی مدد بھی شامل ہوگی ‘کیونکہ میرے خلاف مقدمے میں بھی فرشتوں نے میری اعلیٰ فائلیں غائب کر دی تھیں اور ان کی بجائے فوٹو کاپیاں رکھ دی تھیں اور مجھے بارہ سال جیل میں رکھے جانے کے بعد با عزت رہا کر دیا گیا تھا؛ اگرچہ مجھے عزت کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی‘ جو مجھے ملک بھر میں پہلے ہی کافی حاصل ہو چکی تھی‘ جو میری اور میرے ساتھیوں کی طرف سے عوام کی بے پناہ خدمت کا نتیجہ تھا‘ نیز یہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا‘ جس سے ان کی عزت میں بھی اضافہ ہوتا رہا تھا ‘ کیونکہ دولت کے ساتھ عزت ضروری ہے۔ آپ اگلے روز بلاول کے جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
اشفاق احمد ورک نے اپنے کالم میں ایک شعر اسطرح درج کیا ہے؎
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آئو ناں ہم بھی سیر کریں کوہِ طُور کی
اس کے دوسرے مصرعے میں لفظ ''ناں‘‘ کی وجہ سے وزن خراب ہو گیا ہے‘ کیونکہ اصل مصرعہ اس طرح سے ہے ع
آئو نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طُور کی
رانا محبوب اختر نے اپنے کالم میں ایک شعر اسطرح درج کیا ہے؎
حیدریم قلندریم مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
اس کے پہلے مصرعے میں دو غلطیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ پہلے دو لفظوں کو صیغۂ جمع جملے میں لکھا گیاہے ‘جو کہ درست نہیں۔ دوسرا یہ کہ پہلے لفظ ''حیدری‘‘ کے ساتھ ''م ‘‘آئے گا۔ میر ے خیال میں اصل مصرع اس طرح سے ہے: ع
حیدریم قلندرم‘ مستم
اور‘اب آخر میں ابرارؔ احمد کی نظم:
میں ترا ہجر کیسے بنوں؟
اے مرے خوش نما
اے مری نارسائی
مرے ہجرِ نامختتم
مجھ کو یہ تو بتا
کیا مری آنکھ میں
ایک بھی ایساآنسو نہیں
جو تری چشم میں
کوئی خوابِ تمنا جگا دے
میری مرجھائی آواز میں کیا نہیں ہے؟
کہیں ایک بھی لفظ ایسا
جو ہونٹوں پہ تیرے
کوئی ایسا نغمہ سجا دے
کہ جس میں کہیں
میرے تارِ نفس کی شکستہ صدا بھی ہو شامل...
مجھ کومعلوم ہے
دائمی وصل کس کا مقدر ہوا
پر بتا تو سہی
میں ترا‘ ہجرکیسے بنوں؟
آج کا مقطع
بند ہی رہنا تھا‘ اُس کے دل کا دروازہ ظفرؔ
کھولتے تھے خود ہی اس جانب جدھر کھلتا نہیں

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved