یہ کہنا مشکل ہے کہ سردی کڑاکے کی ہے یا کڑاکے نکال رہی ہے۔ دونوں باتیں ہی ٹھیک ہیں۔ایک نیلگوں سرمئی غلاف نے مسلسل بہت دنوں سے شمالی پاکستان کے اکثر میدانی شہروں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ سورج دیکھے اور سنہری دھوپ میں بیٹھے ایک مدت ہوگئی۔ دھوپ نکلے تو لان میں بیٹھ کررسیلے کنو نمک کے ساتھ کھائے جائیں۔ سو یہ پروگرام بھی ہر روز التوا میں پڑ جاتا ہے اور ہم ہی کیا، پرندوں نے بھی اپنے معمولات بدل لئے ہیں۔لان میں جہاں پرندوں کے دانے پانی کے برتن رکھے ہیں اور جہاں ایک ڈیڑھ ماہ پہلے تک رنگ برنگے کبوتر، کوئلیں، فاختائیں اور چڑیاں صبح تڑکے آکر ناشتے کے لیے اور دوپہر میں کھانے کے لیے باقاعدہ مہمانوںکی طرح اترتے تھے ، وہاں اب اکا دکا پرندے نظر آتے ہیں۔باقی سب منقار زیرِ پر کیے گھونسلوں میں بیٹھے ہیں۔ کسی کا قول یاد آتا ہے کہ انگلینڈ میں اگر کوئی انگریز مسکراتا نظر آجائے تو آسمان پر نظر ڈالے بغیر سمجھ جائیں کہ سورج چمک رہا ہے۔ تو بس یہ سمجھ لیں کہ اہل لاہور آج کل لندن میں رہ رہے ہیں۔ مشتاق یوسفی ہی کا قول ہے کہ اگر انگلینڈ کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریزی زبان میں اتنی گالیاں بھی نہ ہوتیں۔ مشاہدہ ہے کہ انگریز ہمیشہ لفظ اور دانت پیس کر گالی دیتا ہے۔ ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ملک دھند کی لپیٹ میں ہو تب بھی ناخوش، گرم سورج چمکتا رہے تب بھی بیزار، گویا نہ ڈکٹیٹر شپ سے مطمئن نہ جمہوریت سے۔
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
کڑاکے نکلنا اپنی جگہ درست، لیکن لاہور کی سردیاں مزے دار ہوتی ہیں۔ نہ پنکھوں کی آوازیں، نہ ائیر کنڈیشنرز کا شور، نہ سڑک پر ٹریفک کا وہ ہجوم اور نہ گھروں کے باہر گپ شپ کرنے والی ٹولیاں۔ چھوٹے دنوں اور لمبی راتوں کی اس رت میں ناصر کاظمی کے اس بظاہر سادہ اور درحقیقت تہہ دار شعر کے معنی سمجھ میں آتے ہیں:
پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
اس لمبی کو جتنا لمبا کرکے پڑھا جائے اتنی ہی یہ سرد گہری رات کھلتی جاتی ہے۔ 14گھنٹے کی یہ رات شب فراق جیسی لمبی ہوتی ہے۔ 22 دسمبر کی طویل ترین رات کو ایران میں شب یلدا کہتے ہیں اور اس کا باقاعدہ تہوار منایا جاتا ہے۔ حافظ کی شاعری پڑھی جاتی ہے۔ پھل کھائے جاتے ہیںاور زمستاں کی سرد رات میں کہانیاں کہی جاتی ہیں ۔
گردشِ سال فقط یک شب یلدا دارد
من بدون تو ہزاراں شب یلدا دارم
(سال کی گردش میں تو صرف ایک شبِ یلدا ہوتی ہے۔لیکن میری قسمت میں تیرے بغیر ہزاروں شبِ یلدا ہیں)
شب یلدا سے یاد آیا کہ شب فراق کاطول اور شب وصال کا اختصار تو اردو شاعری میں بہت بیان کیا گیا لیکن امیر مینائی نے کیسے ان دونوں کو کیا کمال طریقے سے جمع کیا :
شبِ وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا
یہ خاموش شامیں اور گہری چپ والی راتیں انسان کو بھی خاموش اور چپ کردیتی ہیں ۔اسی موسم کے متوازی ایک اور موسم بھی دل پر اترتا ہے جس کی تنہائی ،اداسی اوربے کلی دوسرے تمام مہینوں سے الگ ہوتی ہے۔اور ہاں شاعری بھی تواترتی ہے انہی دنوں میں ۔ انہی کیفیات والی۔
آج کل دھند اور جما دینے والی سردی میں نہر سے گزرنا ہوتا ہے تو بہتے پانی کو دیکھ کر ہی جھرجھری آنے لگتی ہے۔ اگرچہ یہ موسم عام طور پر پہننے ،اوڑھنے، کھانے ،پینے اور گھومنے پھرنے کا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ آزمائش بن کر آتا ہے۔ یہ سردی بہت سے مریضوں اور ضعیف العمر لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ ادھر حال یہ ہے کہ مہنگے بلوں کے باوجود گیس کی لوڈ شیڈنگ بدستور ہے۔ وہ ہیٹر اور گیزر ٹھنڈے پڑے ہیں یا بہت کم مدت کے لیے روشن ہوپاتے ہیں جو سردی میں آخری پناہ گاہ تھے۔ ڈرائی فروٹ ہر سال ہی پچھلے سال سے مزید مہنگا ہونے کی روایت تھی لیکن اس بار تو اس نے کئی سال کی جست بھرلی ہے۔ اور چلغوزہ؟ توبہ کیجیے توبہ۔ چھونے اور دیکھنے پر بھی پیسے لگ جائیں تو بعید نہیں۔ یہ بات اگر درست ہے جس کی تصدیق فی الحال نہیں ہے کہ سیکنڈ ہینڈ کپڑوں پر بھی اس حکومت نے 28 فیصد ٹیکس لگایا ہے، جس کے سبب اس سال قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ یہ گرم کپڑے بھی لوگوں کی دسترس سے باہر ہوگئے ہیں۔ خیال آتا ہے کہ اسی سخت سردی میںکشمیر ، دہلی ،یوپی اور ہندوستان کے لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہیں۔ گولیاں اور لاٹھیاں کھا رہے ہیں اور جیلوں میں ہیں۔ کیسی آزمائش کی گھڑی ہے جس میں ان کی مدد فقط دعا سے یا تحریر سے ہی کی جاسکتی ہے۔ سال کے آخری دن ہیں، دعا ہے کہ امتحان کے بھی آخری دن ہوں۔
دسمبر اپنے کنارے آن لگا۔ سال 2019پورا ہوا۔ کیسا رہا یہ سال ؟ دل سے پوچھو تو جواب یہی ہے کہ اچھا نہیں رہا ۔ کسی طرف سے اچھی خبر آنی گویا ممکن ہی نہیں رہی تھی۔ سردی، گرمی، برسات، بہار سب گزریں لیکن پھیکے ، بد مزہ اور کڑوے۔ عالمی سطح پر کون سی اچھی خبر ملی ؟ ایک بھی نہیں ۔ اس لیے کہ تھی ہی نہیں ۔ سارا سال شام ، عراق، کشمیر ،فلسطین ،یمن کی ویڈیوز اور خبروں پر جلتے کڑھتے گزرا۔ ملکی صورتحال میں نئی حکومت نے کیا سخت وقت گزارا ہوگا جو پاکستانیوں نے گزارا۔ جان لیوا مہنگائی ، ناقص منصوبہ بندی ،کساد بازاری، بے روزگاری ،دکھائی نہ دینے والی کارکردگی سب اسی سال کے تحفے ہیں۔ عمران خان صاحب اور حکومت کا دفاع کرنا ان لوگوں کے لیے بھی مشکل ہوگیا جو ان کے پکے حامی تھی۔ اس امید پر دن گزارے گئے کہ شاید سال 2020اچھا اور کچھ سکون کے سانس لے کر آئے گا۔غالب سے روایت ہے کہ ان سے ایک برہمن نے نئے سال کے آغاز میں کہا تھا کہ یہ اچھا سال ہوگا۔ہمارے سارے برہمن ایوانوں میں بیٹھے ہیں جن میں ایک دو نے مثلاً وزیر اطلاعات نے خوش خبری دی ہے کہ قوم کے لیے نیا سال مبارک ہوگا۔یہ برہمن ہیں بھی ایسے جن پر کسی کو بھروسہ نہیں اس لیے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔کتنے سالوں سے ہر سال یہی ہوتا ہے کہ اچھے موسموں کی آس لے کر جنوری میں داخل ہوتے ہیں ۔مبارک بادیں دی جاتی ہیں ۔سارے موسم بدن کو چھو کر گزرتے رہتے ہیں لیکن آس پوری نہیں ہوتی حتیٰ کہ دسمبر پھر کنارے آلگتا ہے۔
تو پناہ کہاں ڈھونڈیں؟ٹی وی ،سوشل میڈیا میں پناہ کہاں۔ کچھ ہے تو کتابوں میں ، منتخب دوستوں میں،نثر میں اور شاعری میں۔ہمارے چہار سو تو یہی ہیں۔ انہی نے پورے سال تھامے رکھا اور شاید اسی چار سو میں ہماری ساری جہتیں تمام ہوجاتی ہیں ۔
دسمبر کی اس شام دل بوجھل تھا۔ دل بوجھل ہو تو چپکے چپکے آنسو بہانے ،کسی رازدار سے کہہ دینے یا کاغذ پر کچھ حرف بکھیر دینے میں کچھ بھی حرج نہیں ہے ۔اور سچ یہ ہے کہ رازدار بھی کون ڈھونڈنے جائے اور کہاں ڈھونڈے۔لفظ ہی اصل دوست ہیں ۔دوست بھی بچپن کے ۔ بڑی بات ہے کہ اب تک دوستی نبھاتے چلے آرہے ہیں ورنہ خفا بھی ہوجاتے ہیں۔ساتھ تو چھوڑتے ہی ہیں ، ایک خلا بھی چھوڑ جاتے ہیں ۔تو اس شام لفظوں سے جو باتیں میں نے کیں، آپ کو بھی سناتا ہوں:
دسمبر کی آخری شام کے نام
اور کچھ دیر میں یہ سرخ گلاب/ اپنی خوشبو میں نیم خوابیدہ/ چاند کے رس میں ڈوب جائے گا/ اور کچھ دیر میں ہوائے شمال/ نرم سرگوشیوں کی خلوت میں/ پھول سے وصل کرنے آئے گی/ اور کچھ دیر میں دھڑکتا سمے/ ترک کردے گا یہ پرانا لباس/ اور نیا پیرہن پہن لے گا/ اور کچھ دور تک ہواؤں پر/ جل پری ! تیرا گیت جائے گا/ اور کچھ دیر میں محبت کا/ اور اک سال بیت جائے گا۔