تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-12-2019

اپنی مرضی کی زندگی

ہم میں سے کون ہے‘ جو اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا خواہش مند نہیں؟ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق ‘جیے اور اِس راہ میں کبھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔ یہ خواہش بُری نہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے اچھی بات یہی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے‘ کوئی اُس کے لیے الجھن پیدا نہ کرے اور وہ کسی کے لیے الجھن کا باعث نہ بنے۔ 
کسی چیز کی خواہش کرنے اور آرزو کو پروان چڑھانے میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ تو بالکل فطری عمل ہے۔ مسائل اُس وقت کھڑے ہوتے ہیں ‘جب ہم صرف خواہش یا آرزو کی منزل میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ زندگی ہمیں کچھ بھی دیتی ہے تو صرف اِس صورت میں کہ ہم محض خواہش مند نہ ہوں بلکہ کچھ کرکے بھی دکھائیں۔ عمل کی کسوٹی پر اپنے وجود کو پرکھنے کی صورت ہی میں ہم کچھ حاصل کر پاتے ہیں۔ 
گام گام یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ آپ کے لیے آپ کے اپنے وجود سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں۔ آپ کی زندگی میں بہت سے لوگ ہوں گے‘ مگر وہ سب بعد کی بات ہیں۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اپنے آپ پر متوجہ ہونا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے ‘جو کسی بھی حال میں آپ کے ذہن کے راڈار سے غائب نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرکے آپ کچھ بھی نہیں پاسکتے۔ 
دنیا کا ہر انسان ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک عمل کی دنیا کا باسی ہوتا ہے۔ اُسے اپنے وجود کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں وہ اپنے وجود کا جواز فراہم کرتا ہے۔ عمل ہی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے وجود اور اس دنیا کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہے۔ 
عمل کی دنیا میں اپنے وجود کو منوائے بغیر اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا کسی بھی انسان کے لیے کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ یہ سوچنے سے کہیں بڑھ کے کرنے کا معاملہ ہے۔ جب ہم اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں تو بہت کچھ ایسا کرنا پڑتا ہے‘ جس کی بنیاد پر ہمارے لیے ایسا کرنے کی راہ ہموار ہو۔ عمومی طور پر قریبی ماحول اور مجموعی طور پر پورے معاشرے میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے‘ جو ہماری مرضی کا نہیں ہوتا۔ ہم ماحول میں اپنی مرضی کے خلاف جانے والے چند ایک معاملات ہی کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ ہر معاملے میں دوسروں کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہمارے لیے کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ یہ زندگی بھر کی تگ و دَو کا معاملہ ہے۔ آپ کو ہر لحظہ عمل کی راہ پر گامزن رہنا ہے۔ 
آپ کو اپنے ماحول میں بہت سوں سے بات بناکر چلنا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ کو اپنے وجود کی اصلیت ظاہر کرنا پڑتی ہے۔ آپ جو کچھ بھی ہیں وہی ظاہر کیجیے‘ جو کچھ محسوس کر رہے ہیں‘ وہی بیان کیجیے۔ اور ایسا کرتے وقت ذرا بھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کُھل کر اور کِھل کر‘ نکھر کر سامنے آئے۔ آپ کی ساری تگ و دَو‘ اسی ایک مقصد کے لیے تو ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی شخصیت کو بیان کرنے میں تساہل اور تغافل سے کام نہ لیں ‘تو زندگی کا معیار بلند کرنے میں غیر معمولی مدد مل سکتی ہے۔ لوگ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرسکتے ہیں۔ جب آپ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تب ہی کچھ ہو پاتا ہے۔ 
کچھ لوگ آپ کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو کسی بھی طور آپ کی کامیابی نہیں چاہتے اور کامیابی کیا‘ آپ کا وجود ہی اُن سے ہضم نہیں ہو پاتا۔ جب آپ اپنے آپ کو کھل کر بیان کریں گے‘ تب مختلف النوع ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ بُرا مانیں گے اُن کی آپ کے لیے کچھ اہمیت نہیں اور جو آپ کے لیے اہمیت رکھتے ہیں ‘وہ تو بُرا مانیں گے ہی نہیں! ہماری کاوشوں کی قدر بالعموم وہی لوگ کرتے ہیں‘ جن کے لیے ہم اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے سے ہم پر اعتراض کرنے والے اگر بُرا مان بھی رہے ہوں تو اِس کی کچھ اہمیت نہیں۔ جن کے لیے ہم اہم نہیں وہ بھی ہمارے لیے غیر اہم ہی ہونے چاہئیں۔ 
عمل کی دنیا ہم سے بہت سے معاملات میں ایثار کا مطالبہ کرتی ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی خواہش اُسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب ہم دوسروں کے جذبات اور حالات کا تقاضوں کا بھی احترام کریں۔ جب ہم دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارے لیے گنجائش پیدا کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ دنیا کا کاروبار اسی طور چلتا ہے۔ ہمیں اُسی وقت کچھ ملتا ہے جب ہم کچھ دیتے ہیں یا دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ 
عملی زندگی قدم قدم پر مسابقت سے دوچار کرتی ہے۔ یہ بالکل فطری عمل ہے۔ جنہیں کچھ کر دکھانا ہو اُن کے لیے زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ معمولی سطح پر جینا ذرا بھی دشوار نہیں۔ تمام مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں ‘جب ہم دوسروں سے کہیں زیادہ پانے کی تمنا کرتے ہیں اور اس حوالے سے عملاً بھی کچھ کرتے ہیں۔ 
اپنی مرضی سے جینا بالعموم اُس وقت ممکن ہو پاتا ہے‘ جب ہم اپنی صلاحیت و سکت کو خاطر خواہ حد تک بروئے کار لانے کے حوالے سے مطلوب لگن بھی اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ بے عملی کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق ‘جینا کبھی ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ معاملات آپ کے مرضی کے تابع اُسی وقت ہوسکتے ہیں‘ جب آپ اپنے وجود کو بروئے کار لانے کے حوالے سے سنجیدہ ہوں۔ یہ سنجیدگی آپ سے عملی سطح پر غیر معمولی کارکردگی کا تقاضا کرتی ہے۔ 
آج کی دنیا (معاشی اعتبار سے) غیر معمولی مسابقت کی تو ہے ہی‘ ساتھ ہی ساتھ معاشرتی سطح پر بھی غیر معمولی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ معاشی سرگرمیوں سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے‘ جو انسان کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اخلاقی و روحانی گراوٹ بڑھتی جارہی ہے۔ تہذیب کی اعلیٰ اقدار بظاہر کشش کھو بیٹھی ہیں۔ لوگ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے پر یقین رکھتے ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اپنی مرضی کے مطابق‘ جینا کسی بھی اعتبار سے آسان نہیں‘ بلکہ دن بہ دن دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ماحول انسان کو قدم قدم پر روکتا ہے‘ افکار و اعمال پر نظر ثانی کی منزل سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسے میں حقیقت پسندی ناگزیر وصف کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ جو دوسری کی پسند و ناپسند پر اپنی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں‘ اُن کے لیے چیلنج بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ آج کا نہیں‘ ہر دور کا مسئلہ ہے۔ جو اپنے لیے کسی بھی اعتبار سے گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ اُنہیں دوسروں سے زیادہ اور کچھ انوکھا کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنی مرضی کے مطابق ‘جینا چاہتے ہیں تو چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیے۔
فکری اور عملی سطح پر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیے بغیر اپنے مرضی سے جینا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ ایسے میں قدرت آپ کو استثنیٰ کیوں دے گی؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved