11مئی تو گزر گیا، لیکن ہماری قومی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ ان میں سے زیادہ تر مثبت ہیں، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ سوفیصد ایسا ہے تو اس میں مبالغہ ہی نہیں جھوٹ کا عنصر بھی شامل ہو جائے گا۔ جو کچھ ہوا، وہ سب ٹھیک نہیں تھا، اگر وہ نہ ہوتا تو زیادہ مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا تھا،لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہر شے غلط تھی تو اس سے بڑا جھوٹ بھی بولا نہیں جا سکتا۔ پاکستانی قوم نے پرچی کے ذریعے اپنے (یا اپنے سیاستدانوں کے) مستقبل کا فیصلہ کیا، اس کی راہ کھوٹی کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں، دہشت گردوں اور جنونیوں کی تمام دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوئیں، اجتماعی عزم و حوصلے کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔کئی دانشور ٹیلی ویژن سکرین اور اخباری صفحات کے ذریعے دہشت گردوں کی دھاک بٹھانے کی کوشش کررہے تھے، باور کرا رہے تھے کہ ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکے گا۔ وہ پاکستانی قوم کے ’’جنونِ جمہوریت‘‘ کو شکست دے دیں گے۔ان کو خجالت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں شک نہیں کہ کئی وارداتیں ہوئیں، ڈھیروں خون بہایا گیا، کئی ایک کو نشانہ بنایا گیا، بعض سیاسی عناصر کو دھمکایا اور ڈرایا گیا، لیکن مجموعی طور پر خوف کو طاری نہ کیا جا سکا۔ پاکستانی قوم نے بے خوفی سے حقِ رائے دہی استعمال کیا اور پرچی کے ذریعے اپنے حکمرانوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا، جس کو چاہا تاریخ کے ’’ڈسٹ بن‘‘ کے سپرد کیا اور جس کو چاہا ایک موقع اور دے دیا۔ پرانوں کے ساتھ ساتھ نئے بھی منظر عام پر آئے، ان کو بھی اپنے جوہر دکھانے کے لئے میدان فراہم کردیا گیا۔ اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو انتخابی نتائج بہت زیادہ غیر متوقع نہیں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی برتری واضح تھی، لیکن پیپلزپارٹی کی ابتری کے بارے میں اندازے مختلف تھے۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پی کے میں اس کے ساتھ یہ ہونے والا ہے، اس کا تصور نہیں کیا جارہا تھا۔’’قابلِ انتخاب‘‘ امیدواروں (Electables)سے اس کو امیدیں تھیں اور مسلم لیگ(ق) کو بھی، لیکن یہ سب نقش برآب ثابت ہوئیں۔ مسلم لیگ(ق) برادر عزیز چودھری پرویز الٰہی اور عزیزم مونس الٰہی کی کامیابی ہی کو اپنا کارنامہ سمجھ کر سجدہ شکر بجا لائی۔ پیپلزپارٹی کی سٹّی بھی ایسی گم ہوئی ہے کہ ابھی تک کچھ سجھائی دے رہا ہے نہ دکھائی دے رہا ہے۔پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے ستر لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اور اس کے نوجوانوں نے دھوم مچائے رکھی، لیکن نشستیں تیس کے لگ بھگ ہی ہاتھ آ سکیں۔ مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں تنہا حکومت بنانے کے قابل ہوگئی۔ پنجاب اسمبلی میں تو یہ آسمان کو چھو رہی ہے۔ دوسرے نمبر پر آنے والی تحریک انصاف کے پاس بیس کے قریب نشستیں آئی ہیں اور پارلیمانی حزب اختلاف کا باقاعدہ کردار اسی کو ادا کرنا ہوگا۔ بلوچستان اسمبلی میں بھی مسلم لیگ(ن) سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔اس کے پارلیمانی لیڈر ثناء اللہ زہری حکومت سازی کے لئے چوکس و تیار ہیں اور تاریخ میں پہلی بار یہ اعلان سننے کو ملا ہے کہ بلوچستان حکومت کے دروازے تمام جماعتوں پر کھلے نہیں رہیں گے۔ مسلم لیگ(ن)‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے طے کیا ہے کہ دوسری جماعتوں کے ارکان کو اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا، تاکہ وہ حکومت پر نظر رکھیں اور اسے بے لگام نہ ہونے دیں۔اس طرح بلوچستان کی اقلیتی جماعتوں کی تربیت ہوگی۔ انہیں ماضی سے مختلف کردار ادا کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔اس نے جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر’’مثالی حکومت‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ حسب سابق پیپلزپارٹی اور کراچی متحدہ قومی موومنٹ کی اکثریت کا لطف اٹھائے گا، لیکن ایم کیو ایم کے خلاف اس کی مخالف جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے جوانوں اور خواتین نے اسے ایک نئی لذت سے آشنا کیا ہے۔ اس طرح کی صورت حال ایم کیو ایم کے لئے یکسر نئی ہے، اس لئے قائد تحریک توازن قائم نہیں رکھ پا رہے۔ لڑکھڑا کر سنبھل رہے اور سنبھل کر لڑکھڑا رہے ہیں۔ دھمکاتے بھی ہیں اور پھر واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ برطانوی شہریت اور برطانیہ میں قیام ان کے پائوں کی زنجیر بن رہا ہے کہ یہاں پاکستان کی طرح وہاں ہر بات نہیں کہی جا سکتی اور ہر کام کرنے کا حق حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات بھی لگ رہے ہیں،احتجاج ہو رہا ہے۔کئی مقامات پر گنتی کی دانستہ غلطیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ صدمے سے دوچار ہونے والے واقعات پر یقین نہیں کر پا رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولنگ کے انتظامات اکثر مقامات پر ناقص تھے، اس کا آزادانہ انعقاد تو ہوا، لیکن منصفانہ نہیں۔اس پر بات پھر ہوگی اور آئندہ یومِ انتخاب کے دن بہتر انتظامات کے لئے تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔ فی الوقت سب سے اہم بات یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ٹھنڈے پیٹوں اپنے اپنے صدموں کو برداشت کریں اور تین صوبوں میں مختلف جماعتوں کو اقتدار دینے کا جو تجربہ کیا گیا ہے اسے کامیاب بنائیں۔ اب دوڑ یہ لگنی چاہیے کہ کس کا صوبہ سب سے بہتر ہوگا۔ان کی کارکردگی پر ہی ان کے مستقبل کا دارومدار ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا یہ وہ طریقہ ہے، جو پاکستان میں پہلی بار آزمایا جارہا ہے۔ تو چلئے، بسم اللہ کیجئے اور تیاری کیجئے دوڑ لگانے کی… نئی سیاست کا آغاز اسی طرح تو ہوگا! (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved