تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     31-12-2019

سال کا آخری دن!

سال کا آخری دن ہے!زمانے کی گردش نے سال کو‘ اس کے آخری لمحوں میں کتنا عبرت ناک کر دیا ہے!یہ ایک کبُڑے بوڑھے کی طرح ہے! ایک خطرناک‘ فریب کار‘ پیرِِ تسمہ پا کی طرح! جو تین سو پینسٹھ دن ہماری گردن پر مسلط رہا۔ کون سا دھوکہ ہے جو اس نے ہمیں نہیں دیا‘ کون سا سبز باغ ہے جو اس نے نہیں دکھایا ‘کون سا گڑھا ہے جس کے اوپر اس نے گہنیاں رکھ کر اسے پتوں اور مٹی سے نہیں چھپایا!تین سو پینسٹھ دن پہلے جب اس سال نے طلوع کیا‘ ہم کس قدر خوش تھے! ہم نے سالِ نو کے جشن منائے۔ رقص کیے۔ شرب واکل کے اہتمام کیے۔ احباب واعزہ کو تہنیت کے پیغام بھیجے۔ کہیں Happy New Year کے نعرے لگائے‘ کہیں ''نیا سال مبارک‘‘ پکارا۔ کہیں ''کُلّ عامٍ و انتم بخیر‘‘ کہا۔ کہیں ''نو روزِ شما نیکو باد‘‘ کے پھول بکھیرے۔
ہمارے سامنے امید کے باغ کھلے تھے۔ ہمارا آسمان ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ قطبی تارا ہمارا ہاتھ پکڑے تھا۔ کہکشائیں ہمارے سنگ ناچ گا رہی تھیں۔ چاند ہمارے ہاتھ چومتا تھا۔ نئے سال کی ہر کرن ہمارے ماتھوں پر خوش بختی کی علامت بن کر دمک رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو خلاؤں میں اُڑتا محسوس کر رہے تھے۔تین سو پینسٹھ دن پہلے اس سال نے ہمیں یقین دلایا کہ ہمارے دن بدل چکے ہیں‘ اس سال کے اختتام تک ہم کم از کم سنگاپور یا ہانگ کانگ یا جنوبی کوریا یا ملائیشیا یا تھائی لینڈ بن چکے ہوں گے۔ بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو چکا ہوگا۔ جہالت گھٹ چکی ہوگی۔ قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ کرپشن کے ذریعے کھایا ہوا قومی خزانہ معدوں سے نکال لیا جائے گا۔ قوموں کی فہرست میں ہمارا نام باعزت حد تک اوپر چلا جائے گا۔ پاسپورٹ باعثِ ننگ ہونے کے بجائے باعثِ عزت ہوگا۔ کرنسی دوسرے ملکوں میں ہماری فلاکت کا نشان بننے کے بجائے ہماری خوشحالی کی علامت ہوگی۔
ہم نے ان سب وعدوں پر یقین کر لیا۔ ہم رختِ سفر باندھ کر نئے سال کی ہمراہی میں چل پڑے۔ ہم امید کر رہے تھے کہ برف پگھلے گی۔ ابر پارے سروں سے ہٹ جائیں گے۔ شعائیں گھروں کے در و دیوار منور کر دیں گی۔ ہم شہرِ طرب کو ڈھونڈ لیں گے۔ مغنّی ہمارے قافلے میں آگے آگے چل رہا تھا‘ اور گا رہا تھا: ؎
مایوس نہ ہو اداس راہی/آنے کو ہے دورِ صبحگاہی/اے منتظرِ طلوعِ فردا/بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی/پھر خاک نشیں اٹھائیں گے سر/مٹنے کو ہے نازِ کجکلاہی/ انصاف کا دن قریب تر ہے/پھر داد طلب ہے بے گناہی/اب اہلِ وفا کا دور ہو گا/ٹوٹے گا طلسمِ کم نگاہی
مگر سال کے وسط تک آتے آتے ہم جان چکے تھے کہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ہم ایک بار پھر اپنی معصومیت کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ ہم ایک بار پھر گاؤدی‘ بودے اور احمق ثابت ہوئے تھے۔ اہلِ ہوس ایک بار پھر ہمیں اپنے قبیح مقاصد کے لیے استعمال کر چکے تھے۔
سال کے اواخر تک ہمیں اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ ہم جہاں گزشتہ سال تھے‘ وہیں پر ہیں! ہم جنوبی کوریا‘ ہانگ کانگ یا سنگاپور تو کیا بنتے‘ ہم صومالیہ‘ افغانستان اور عراق کے ساتھ شمار کیے جا رہے تھے۔ پاسپورٹ اسی طرح باعثِ ننگ تھا۔ کرنسی اسی طرح اونٹ کے منہ میں زیرہ تھی۔ کرپشن کا پیسہ واپس تو کیا لاتے‘ کرپٹ مشاہیر کی دیکھ بھال پر ہمارا قومی خزانہ مزید کروڑوں اربوں خرچ کر رہا تھا۔ پہلے ہم صرف مغربی طاقتوں کے غلام تھے‘ اب اپنے مسلمان بھائی بھی کمی کمین سمجھ کر حکم چلانے لگے تھے۔ دائیں طرف دیکھیں یا بائیں طرف‘ سانس لیں یا نہ لیں‘ گھر کا دروازہ کس طرف رکھیں‘ یہ سب فیصلے دوسرے کرنے لگے تھے۔ خود مختاری تہمت بن چکی تھی۔
اس سال بھی ہماری بستیاں خاک اڑاتے کچے راستوں کے عقب میں زندگی گزارتی نہیں‘ زندگی سہتی رہیں۔ بارش میں کچے صحن پانی سے بھر جاتے رہے۔ ہسپتالوں سے دُور ہمارے کسان بیماریوں کی گرفت میں رہے۔ جن بچوں کو سکول جا کر پڑھنا تھا‘ وہ مویشی چراتے رہے۔ اس سال بھی سکولوں کی عمارتیں چھتوں کے بغیر رہیں۔ ہزاروں سرکاری سکول پینے کے صاف پانی سے محروم رہے۔ میز کرسیاں تو دور کی بات ہے بچے گھروں سے سیمنٹ کے خالی بیگ لا کر ان پر بیٹھتے رہے۔ اس سال بھی جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ اور بلوچستان کے سکولوں کالجوں کی عمارتیں مویشیوں کے باڑے بنی رہیں اور غلّے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ اس سال بھی لاکھوں ہاری غلام رہے۔ عورتیں رکھیل رہیں۔ بچے حویلیوں میں جانوروں کی طرح کام کرتے رہے۔ اس سال بھی لاکھوں پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے وڈیرے‘ ملک اور سردار کرتے رہے۔ کسی کے ایجنڈے پر زرعی اصلاحات نہ تھیں۔ کسی نے نہ سوچا کہ 1857ء کے بعد ملنے والی جاگیریں واپس لینی ہیں۔ کیا استعمار کی خدمت کا بدلہ یہ زمینیں ایک سو باسٹھ سال تک دے نہیں چکیں؟
اس سال بھی ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں گنِی جاتی رہی۔ شاہراہوں پر سول وار مسلسل جاری رہی۔ لوگوں کو کاروں‘ ٹرکوں‘ ٹریکٹروں ٹرالیوں اور ڈمپروں کے نیچے کچلا جاتا رہا۔
پنچایتیں اس سال بھی کم سن لڑکیوں کو بوڑھوں کے ساتھ ازدواج میں باندھتی رہیں۔ ''انصاف‘‘ کا یہ متوازی نظام برابر چلتا رہا۔ کسی کے باپ میں بھی جرأت نہیں کہ اس متوازی نظام کو ختم کرے۔ عورتوں کو بیٹیاں جنم دینے پر مارا جاتا رہا۔ لاکھوں کروڑوں عورتوں کو تعلیم سے‘ ووٹ دینے کے حق سے‘ اور انسانیت کے مرتبہ سے محروم رکھا جاتا رہا۔ کیا واعظ اور کیا مسٹر‘ حوا کی بیٹی کی توہین کے سب مرتکب ہوتے رہے۔
اب تو ہم نے عہد کر لیا ہے کہ کسی نئے سال کے فریب میں نہیں آئیں گے۔ نیا سال آئے یا نئی صدی !ہم جیسے تھے‘ ویسے ہی رہیں گے۔ ہماری ظاہری حالت‘ ہماری اندرونی کیفیت‘ ہماری ذہنیت‘ ہمارا مائنڈ سیٹ‘ ہماری معیشت‘ ہمارا زرعی نظام‘ ہماری جاگیرداری‘ ہمارا سرداری سسٹم‘ ہماری تعلیمی حالت‘ ہماری جہالت‘ ہماری توہم پرستی‘ پیروں فقیروں قبروں ملنگوں مجاوروں‘ نجومیوں‘ دست شناسوں‘ اور عطائیوں پر ہمارا انحصار‘ یہ سب کچھ ہر سال جوں کا توں رہے گا۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی کنیزیں ہی رہیں گی! ہمارے اعتزاز احسن‘ ہمارے رضا ربانی‘ ہمارے احسن اقبال‘ اپنے سارے علم اور تجربے کے باوجود‘ شہزادوں اور شہزادیوں کے مصاحب ہی رہیں گے! ہم اب بھی وہی ہیں جو لودھیوں‘ تغلقوں‘ خلجیوں اور مغلوں کے زمانے میں تھے۔ ہم آج بھی کسی نہ کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نرغے میں ہیں۔ کل ہم پر راجے مہاراجے نواب‘ والی اور مہتر حکومت کرتے تھے‘ آج ہم پر ایم این اے اور ایم پی اے حکومت کرتے ہیں۔ کل دربار تھے۔ آج ڈیرے ہیں۔ کل ہم ہاتھیوں پر ہودے ڈالتے تھے۔ آج جلسہ گاہوں میں دریاں بچھاتے ہیں! کل ہم درباری کہلاتے تھے۔ آج کارکن کہلاتے ہیں۔
اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ کل طلوع ہونے والا نئے سال کا سورج ہماری زندگیاں بدل ڈالے گا تو وہ ازراہِ کرم آج غروب ہونے والے سورج کو اچھی طرح دیکھ لے۔ جسے یقین نہ آئے وہ 1870ء میں لکھی جانے والی سر سید احمد خان کی تصنیف ''مسافرانِ لندن‘‘ پڑھ لے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ہم جس وحشت اور جہالت کے رُتبے پر اُس وقت فائز تھے‘ آج بھی وہیں ہیں۔ ڈیڑھ سو سال میں جو نہ ہو سکا‘ وہ آئندہ پانچ‘ دس‘ پندرہ‘ بیس‘ پچاس برس میں کیسے ہوگا؟ کسی قوم کا مستقبل تین اوزاروں سے ماپا جاتا ہے۔ اوّل ماضی کے اعداد و شمار دوم حال کے بارے میں میسر حقائق سوم کامن سینس! جسے شک ہے کہ تبدیلی آئے گی‘ وہ مستقبل کی پیمائش کر کے دیکھ لے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved