خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے‘ تو جمود درحقیقت موت کا دوسرا نام ہے‘ جہاں سب کچھ ٹھہرا ہوا محسوس ہو ‘وہاں زندگی کا نام و نشان مٹنے لگتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے زندہ ہونے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک متحرک ہے‘ کیا‘ کتنا اور کیسے کرسکتا ہے۔ زندگی وہیں محسوس ہوتی ہے‘ جہاں کچھ ہو رہا ہو۔ جب معاملات رکے رکے‘ تھمے تھمے سے ہوں‘ تب فکر و نظر پر بھی پژمردگی سی چھا جاتی ہے۔ ایسے میں کسی بھی نوع کی نمو یا ترقی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
ہر زندہ معاشرہ اگر زندہ تسلیم کیا جاتا ہے تو صرف ایک وصف کی بنیاد پر ... یہ کہ اُس میں عمل پسندی پائی جاتی ہو۔ عمل پسندی جب عمومی چلن کا درجہ اختیار کرلے تو بہت کچھ ہوتا ہے۔ عمل ہی سے تبدیلی ممکن ہو پاتی ہے اور تبدیلی کے ممکن ہونے ہی سے پیش رفت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
ہر دور کے اہلِ دانش اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ جمود کو توڑنے والی ہر اُس سرگرمی کی قدر کی جانی چاہیے‘ جو کسی نہ کسی سطح پر پیش رفت یقینی بناتی ہو۔ پیش رفت خواہ کسی درجے میں ہو اور کسی بھی نوعیت کی ہو‘ اُس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ یونان کے عظیم مُدبّر افلاطون نے کہا تھا کہ رفتار سے قطعِ نظر‘ ہمیں ہر اُس شخص کی حوصلہ شکنی سے گریز کرنا چاہیے‘ جو کسی نہ کسی طور پیش رفت یقینی بنارہا ہو۔
ہر دور میں دنیا کو‘ کم تعداد ہی میں سہی‘ ایسے لوگ میسر رہے ہیں ‘جو معاملات کو آگے بڑھانے اور بہتر بنانے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ یہی وہ لوگ ہیں‘ جن کے دم سے اس دنیا کا معیار بلند ہوتا ہے‘ کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے۔ انہی کی کوششوں سے دنیا کی رنگینی اور دل کشی میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے ‘جو زندگی کو کسی نہ کسی طور گزار دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ایسے لوگ واضح طور پر بڑی تعداد میں ہوتے ہیں ‘جن کے دل میں معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے کی لگن کم ہی پائی جاتی ہے۔ اُنہیں معمول سے ہٹ کر کچھ نیا اور بہتر کرنے کی تحریک دینے کے حوالے سے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہاں‘ پس ماندہ معاشروں کے مقابلے میں ترقی یافتہ معاشروں کو اتنا ایڈوانٹیج ضرور حاصل ہے کہ اُن میں لوگوں کو کچھ نیا کرنے کے حوالے سے تحریک دینا ناممکن کے درجے میں نہیں ہوتا۔ اور اس حوالے سے کی جانے والی محنت بہرحال رنگ لاکر رہتی ہے۔
ہمارا تعلق خواہ کسی شعبے سے ہو‘ ہمارے لیے اور ہمارے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے حقیقی اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ ہم پیش رفت کی اہلیت کس حد تک رکھتے ہیں۔ جمود کو توڑنا اور پیش رفت یقینی بنانا‘ ہر اُس انسان کے لیے لازم ٹھہرتا ہے‘ جو اپنے وجود کو بامعنی ثابت کرنے کا خواہش مند ہو۔ جن کے حوصلے دم توڑ چکے ہوں اور عزائم پر پژمردگی چھائی ہوئی ہو اُن کے لیے اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ اُن کی اور اُن سے تعلق رکھنے والے دوسرے بہت سے لوگوں کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہو رہی ہے یا نہیں۔ یہ سارا دردِ سر صرف اُن کے لیے ہوتا ہے‘ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ تبدیلی کے خواہش مند ہر انسان کا وجود افکار و اعمال کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔
عمل کی دنیا میں صرف اُنہیں وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ جو کچھ کرنے کی اہلیت ہی نہ رکھتے ہوں‘ بلکہ اِس حوالے سے کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتے ہوں۔ ماحول پر اگر جمود کی گرد جم چکی ہو اور کسی بھی اہم تبدیلی کے آثار نہ ہو‘ تب ہر اُس انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ‘جو کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتا ہو اور اپنے وجود کو بروئے کار لانے سے کتراتا بھی نہ ہو۔
اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ ہر اُس انسان کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ جمود کی کیفیت نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لوگ عمومی سطح پر چاہتے ہیں کہ معاملات جہاں ہیں ‘وہیں رہیں۔ تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ منظر تبدیل نہ ہو‘ ایسا کچھ بھی نہ ہو‘ جس کے ہاتھوں اُن کی زندگی میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہو‘ جسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے۔ معاملات کو لگے بندھے انداز سے چلانے پر زور دیا جاتا ہے۔ میدان معاشیات کا ہو یا سماجیات کا‘ ہر طرف ایک ہی رنگ اور ایک ہی انداز ہے۔ عمومی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہ ہو اور اگر کوئی تبدیلی واقع بھی ہو ‘تو اس قدر معمولی نوعیت کی کہ اُس سے معاملات میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہ ہو۔
جہاں عمل کی لگن دم توڑ رہی ہو‘ وہاں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے خال خال ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی معاشرے کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی حالات کی مجموعی کیفیت کو دیکھنے اور جھیلنے کے باوجود کسی بڑی تبدیلی کی خواہش کو پروان چڑھائے اور کچھ کر دکھانے کی کوشش کرے‘ تو اُس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اول تو کچھ نیا کرنا دشوار ہوتا ہے اور اگر کوئی اِس حوالے سے خود کو عمل کی کسوٹی پر کھرا ثابت کرنے کی کوشش کرے‘ تو لوگ حوصلہ افزائی سے گریز کی منزل تک نہیں رکتے ‘بلکہ حوصلہ شکنی پر تُل جاتے ہیں۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بے حسی کی کیفیت بیشتر معاملات پر اس قدر محیط ہے کہ جس کے دل میں کچھ کر گزرنے کی لگن ہو ‘وہ اپنے جیسے مزاج کے حامل دوسرے افراد کی راہ میں کھڑی کی جانے والی دیواروں کو دیکھ کر آگے بڑھنے سے توبہ کرلیتا ہے۔ یہی ہماری پستی اور انحطاط کا بنیادی سبب ہے۔
معاشرے کی حیثیت سے ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں‘ جہاں سے مکمل زوال کی طرف کئی راستے جاتے ہیں۔ اب ‘ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے۔ ہمیں قدم قدم پر صرف سنبھلنا نہیں ہے‘ بلکہ تیزی سے چلنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکے گا ‘جب ہم سوچ بدلیں گے۔ جمود کو توڑ کر عملی سطح پر کچھ نیا کرنے کی کوشش لازم ہے۔ نئی سوچ کے ساتھ معنی خیز عمل یقینی بنانے کی ہر کوشش ہمیں بہتر نتائج کی طرف لے جاتی ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے باخبر ہیں ‘مگر پھر بھی کچھ نیا کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ یکسانیت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف شعبوں میں کسی نہ کسی حوالے سے پیش رفت یقینی بنانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ معاشرے میں پایا جانے والا تغافل و تساہل دور ہو۔
پاکستان کو دنیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کے لیے نئے خون کی ضرورت ہے۔ نیا خون ‘یعنی نئی سوچ‘ کام کرنے کی بھرپور صلاحیت‘ سکت اور لگن۔ نئی نسل پر غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ نئی نسل کو بھرپور جرأت کے ساتھ کی جانے والی ہر کوشش پر خوب سراہیں اور خوش گوار تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کے عزم کو مزید پروان چڑھانے میں اُن کی معاونت کریں۔ ملک کو ہر معاملے میں پیش رفت کی فوری ضرورت ہے اور جو پیش رفت یقینی بنائے اُس کی خاطر خواہ حد تک قدر کی جانی چاہیے!