تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-01-2020

بندو خان سے پرویز تک!

طارق بخاری سے اچانک ملاقات ایک شادی میں بائیس برس بعد ہو رہی تھی۔ وہ ابھی کچھ دن پہلے تک ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ تھے اور ابھی تبدیل ہو کر لاہور آئے ہیں۔
طارق بخاری سے پہلی ملاقات 1985 میں ہوئی تھی جب ہم دونوں ہائی سکول کروڑ میں نویں جماعت میں اکٹھے ہوئے اور دو سال اکٹھے پڑھتے رہے تھے۔ طارق کے والد صاحب محکمہ فوڈ میں تھے۔ تبادلہ ہوا تو وہ اپنے بیٹے کو وہیں لے آئے تھے‘ جبکہ میرے بھائی سلیم کروڑ کے ایک بینک میں کیشیئر کی جاب کرتے تھے۔ انہوں نے ہی مجھے گائوں سے پچاس کلومیٹر دور اس سکول میں داخل کرایا تھا۔ اس سکول میں داخلہ کرانے کی خاص وجہ وہاں کے ہیڈ ماسٹر حسن راں صاحب اور سکول ٹیچر چوہدری حسن صاحب تھے۔ اس سکول کا معیار ان دو استادوں کی وجہ سے بہت اونچا ہو چکا تھا۔ سلیم بھائی نے کوٹ سلطان سکول سے آٹھویں جماعت کے بعد مجھے کروڑ سکول داخلہ کرا دیا‘ یوں مجھے روزانہ تقریباً اسی نوے کلومیٹر سفر کرنا پڑتا تھا۔ پہلے صبح سویرے اپنی بستی جیسل کلاسرا سے لیہ شہر جانا پڑتا تھا اور وہاں سے ویگن لے کر تیس کلومیٹر کروڑ کا سفر طے کرنا پڑتا۔ یوں ایک سائیڈ کا پینتالیس کلومیٹر سفر کرتا تھا۔ وجہ وہی کہ بھائی سلیم کا خیال تھا‘ یہ اچھا سکول ہے اور میں بہتر پڑھوں گا۔ طارق اور دیگر کئی کلاس فیلوز وہیں دوست بنے۔ دو برسوں میں اتنی ساری یادیں کروڑ سکول اور کروڑ میں چھوڑ کر آیا کہ آج بھی کروڑ کے ان کلاس فیلوز کی یادیں تنگ کرتی ہیں۔ حیران ہوتا ہوں کہ دو سال کے اندر انسان کیسے دوستوںکا کبنہ بنا لیتا ہے‘ جن کی یادوں سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہیں بندو خان سے دوستی ہوئی تھی‘ جب ایک دن بندو نے مجھے اپنی دکان کے باہر سے کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ ان دنوں خال خال ہی رنگین ٹی وی سیٹ ہوتے تھے۔ بندو خان کی دکان پر رنگین ٹی وی تھا۔ شہر کی بڑی مشہور دکان جہاں مزیدار کھانا ملتا تھا۔ لیکن ضروری تھا کہ آپ وہاں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوں یا کھانا کھا رہے ہوں۔ میرے پاس شاید اس دن پیسے نہ تھے کہ بیٹھ کر کچھ کھا کر میچ دیکھتا حالانکہ سلیم بھائی روزانہ مجھے جیب خرچ دیتے تھے۔ بندو کی مجھ پر نظر پڑ گئی کہ کوئی طالبعلم اپنا بستہ اٹھائے باہر سے جھانک کر ٹی وی میچ دیکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ میرے پاس آیا اور کہا: اندر آجائیں اور بیٹھ کر میچ دیکھ لیں۔ میں نے جھجک کر کہا کہ یہیں ٹھیک ہے۔ وہ بولا: آپ اندر آ جائیں۔ میں نے کہا: لیکن میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ وہ ہنس پڑا اور بولا: کوئی بات نہیں‘ تم میچ دیکھ لو۔ مجھے یاد ہے سلیم ملک کی کلکتہ میں بھارت کے خلاف دھواں دھار بیٹنگ وہیں بیٹھ کر دیکھی تھی اور پاکستان نے میچ بھارت سے چھین لیا تھا۔ اس وقت بندو خان نے مجھے کھانا کھلایا اور یوں اس سے ایک طویل دوستی کا آغار ہوا‘ جو دو سال پہلے اس کی موت پر ختم ہوئی۔ بندو خان نے مشکل زندگی گزاری۔ ماں باپ تھے تو گھر میں برکت تھی۔ دکان خوب چلتی تھی۔ پہلے باپ تو پھر ماں چل بسی اور برکت بندو کے گھر سے روٹھ گئی۔ پھر جائیداد کا بٹوارہ ہوا۔ دکان بک گئی۔ برسوں بعد میں کروڑ گیا اور بڑی مشکل سے بندو کو تلاش کیا تو وہ موبائل فونز کی ایک چھوٹی سی دکان پر بیٹھا بیلنس بیچ رہا تھا۔ ان دنوں بندو کو گھریلو مسائل نے گھیرا ہوا تھا۔ جو کچھ مجھ سے بن سکا اس کی مدد کی تاکہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ اسے کروڑ کچہری میں دوبارہ ایک کیفے بنوا کر دیا۔ کچھ دوستوں نے بھی مدد کی لیکن بندو کی قسمت اس سے ایسے روٹھ گئی تھی کہ وہ دوبارہ نہ سنبھل سکا۔ آخری دنوں میں بندو کا جگر جواب دے گیا تھا۔ کچھ علاج کی کوشش کی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ اپنی بہنوں، بھانجوں اور بچوں کے لیے در بدر پھرتا ایک دن قبر میں جا سویا۔ اس کی موت پر میں اسلام آباد سے کروڑ اس کے گھر گیا۔ اس کے بچوں سے ملا۔ جتنی دیر بیٹھا رہا حیران ہوتا رہا کہ ایک دن اس گھر میں کتنی برکت اور رحمت تھی۔ خاصا کام چلتا تھا۔ وہ حالت دیکھ کر دل کو دکھ ہوا۔ ایک افسردگی نے دل میں ایسا گھر کیا کہ آج تک اندر سے نہیں نکلتی۔ 
طارق بخاری ہماری کلاس کے قابل لڑکوں میں سے ایک تھا۔ میں نے طارق کو کہا: اگر مجھے درست یاد ہے تو تم نے دسویں جماعت میں ٹاپ کیا تھا‘ ہم نالائق بس فرسٹ ڈویژن لے کر ہی خوش ہو گئے تھے‘ تم نے بوسن روڈ کالج ملتان میں داخلہ لے لیا‘ ہم لیہ کالج میں جا گھسے۔ کسی دور میں بوسن روڈ کالج کا بڑا نام تھا۔ وہاں داخلہ لینا ایسا اعزاز سمجھا جاتا تھا جیسے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینا۔ طارق وہاں سے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور آ گیا پھر پی سی ایس کر لیا۔ وہیں 1996 میں آخری دفعہ طارق سے ملاقات ہوئی تھی‘ جب شعیب بٹھل اور میں وہاں بیروزگاری کے دنوں میں رشید سواگ کے کمرے میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ وہاں ذوالفقار معین بزدار اور دیگر دوست بھی تھے۔ اب چوبیس برس بعد طارق سے دوبارہ ملاقات ہو رہی تھی۔ 
بوسن روڈ سے یاد آیا جب لیہ کالج میں بی اے کا طالب علم تھا تو میں نے بھکر سے اپنے انتہائی قابل احترام استاد ظفر حسین ظفر کے مشورے پر انگلش لٹریچر آپشنل مضمون کے طور پر رکھ لیا تھا۔ لیہ کالج میں لٹریچر پہلی دفعہ پڑھایا جا رہا تھا‘ لہٰذا کچھ کتابیں اور نوٹس یہاں نہیں ملتے تھے۔ مجھے کسی نے کہا: ملتان سے ملیں گے۔ میں ایک دن ملتان چلا گیا اور گلگشت کالونی میں واقع فوٹو سٹیٹ مشینوں سے پوچھنے لگا کہ یہاں نوٹس مل سکتے ہیں؟ گلگشت کالونی بوسن روڈ کالج کے بالکل سامنے تھی۔ وہاں چند لڑکے پہلے سے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے مجھے دیکھ کر کہا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: لیہ سے۔ وہ ہنس کر بولا: لیہ کالج میں بھی انگریزی لٹریچر پڑھایا جاتا ہے؟ میں نے کہا: جی۔ وہ بولا: چلیں پھر میں آپ کو اچھے سے نوٹس دیتا ہوں۔ پتہ چلا اس کا نام پرویز ہے اور وہ شور کوٹ یا نواں کوٹ سے تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ بوسن روڈ ہوسٹل لے گیا۔ وہاں پہلے تو کھانا کھلایا‘ اپنی کتابیں اور نوٹس لیے اور مجھے واپس اسی فوٹو کاپی مشین پر لایا اور سب نوٹس کاپی کرا دیے۔ پتہ چلا پرویز بوسن روڈ میں انگریزی لٹریچر کا طالب علم ہے اور ملتان یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی میں داخلے کا خواہاں ہے۔ 
دو سال گزر گئے۔ آخر وہ دن آ گیا جب یونیورسٹی میں ہم نے داخلہ فارم جمع کرانے تھے۔ وہیں پرویز سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی ایم اے انگلش کے لیے فارم جمع کرانے آیا ہوا تھا۔ میں خوش تھا کہ چلو پرویز کلاس فیلو بنے گا جس نے ایک اجنبی طالب علم کی مدد کی تھی۔ کچھ دن بعد جب ایڈمشن لسٹ لگی تو پرویز کا داخلہ نہ ہوا جبکہ میرا نام فہرست میں موجود تھا۔ مجھے اپنے داخلے کی وہ خوشی نہ ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ مجھے دوستوں نے کہا تھا: تم کچھ اور ڈیپارٹمنٹس میں بھی فارم جمع کرا دو۔ میں نے کہا تھا: نہیں‘ داخلہ لینا ہے تو انگریزی میں ورنہ نہیں لینا۔ مجھے ایک احساسِ جرم ہوا کہ دیکھیں جس لڑکے نے بغیر کسی جان پہچان کے مجھے فوٹو کاپی شاپ سے لیا اور ہوسٹل جا کر پہلے کھانا کھلایا، پھر اپنے استادوں کے نوٹس بھی کاپی کرا کے دیے وہ خود داخلہ نہ لے سکا تھا‘ جبکہ میرا داخلہ ہو گیا تھا۔ 
ایسے اچھے لوگ کہاں ملتے ہیں اس معاشرے میں‘ جہاں وتیرہ یہ ہو کہ اپنے مقابلے پر موجود کسی بھی شخص کو غلط مشورے دینا ہے اور اس کی ٹانگیں کھینچنا ہے تاکہ وہ گر پڑے اور آپ اس کی لاش پر کھڑے ہو کر نعرے ماریں اور اپنی فتح پر فخر کریں۔ پرویز سے میں نے ایک سبق سیکھا‘ احسان وہ ہوتا ہے جو ان لوگوں پر کیا جاتا ہے جنہیں آپ زندگی میں پہلی بار ملتے ہیں، ان سے آپ کو کوئی کام نہیں ہوتا، کوئی لالچ نہیں ہوتی لیکن پھر بھی آپ ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ انہیں عزت دیتے ہیں جیسے بندو خان نے ایک نامعلوم طالب علم کو اپنی دکان کے اندر بلا کر عزت دی تھی یا پھر پرویز جیسے کردار‘ جن کی مدد سے دوسروں کو تو داخلہ مل جاتا ہے لیکن وہ خود محروم رہ جاتے ہیں۔ 
زندگی میں بھی کیا کیا خوبصورت کردار ملے جو اپنے اثرات مجھ پر عمر بھر کے لیے چھوڑ گئے۔
پرویز بھی ان میں سے ایک تھا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved