کہتے ہیں زندگی کے سفر میں خواب اور درد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نامکمل ہے۔ آج راولپنڈی کے محلے قطب الدین میں آنند بخشی کے آبائی گھر کو جاتے ہوئے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا۔ ہفتے کا دن ہے اور مری روڈ پر ٹریفک عام دنوں سے کم ہے۔ راولپنڈی کی مری روڈ پر اگر آپ اسلام آباد کی طرف سے آ رہے ہیں تو کمیٹی چوک سے دائیں طرف ایک سڑک مڑتی ہے جسے اقبال روڈ کہتے ہیں۔ ذرا آگے آ کر دائیں ہاتھ مڑ جائیں تو آپ کے بائیں طرف ایک مسجد نظر آئے گی۔ یہ راولپنڈی کی مشہور کیلیانوالی مسجد ہے۔ مسجد سے متصل ایک چوڑی گلی ہے جس کے آخر میں دائیں ہاتھ ایک بہت بڑا گھر ہے۔ اس کی نشانی اس کے ٹیرس پر لگی ہوئی لکڑی کی خوب صورت جالی ہے۔ یہ کرنل بخشی کا گھر تھا۔ اس سے ایک گھر پہلے کوئی خان صاحب رہا کرتے تھے۔ خان صاحب کے گھر کے بالکل سامنے ایک تین منزلہ گھر ہے‘ جہاں مشہور گیت نگار آنند بخشی نے جنم لیا تھا۔ وہ 1930ء کا سال تھا اور جولائی کی 21 تاریخ۔ آنند بخشی سترہ سال تک راولپنڈی کی انہیں گلیوں، انہیں فضائوں میں پلا بڑھا تھا۔ پوٹھوہار کے رنگ اس کی شخصیت میں رچ بس گئے تھے۔ یہاں کے پھول، یہاں کی ہوائیں، یہاں کے لوگ، یہاں کے پرندے، یہاں کی بولی اور یہاں کی ثقافت اس کی شخصیت کا حصہ بن گئے تھے۔ پنڈی کی گلیاں، پنڈی کا آسمان، پنڈی کی صبحیں اور پنڈی کی شامیں ساری عمر آنند بخشی کا پیچھا کرتی رہیں اور وہ شہر ت کے آسمان پر پہنچ کر بھی پنڈی کو یاد کرتا رہا، اس کے لیے نظمیں لکھتا رہا اور اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے ترستا رہا۔
پوٹھو ہار کی سرزمین کو فوج کی نرسری کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پر ہر گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد فوج سے وابستہ ہے۔ آنند بخشی کی والدہ کا اس وقت انتقال ہو گیا تھا جب وہ ابھی سات سال کا تھا۔ اب اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا۔ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ یوں آٹھویں جماعت میں سکول کو خیرباد کہہ کر وہ رائل نیوی میں بھرتی ہو گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد بحری جہازوں پر بغاوت کے جرم میں ہندوستانی سپاہیوں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ ان میں آنند بخشی بھی شامل تھا۔ پھر آنند بخشی فوج میں گیا لیکن اس کا خواب کچھ اور تھا۔ وہ تو ایک گائک بننا چاہتا تھا۔ وہ جب بھی سینما میں فلم دیکھ کر واپس آتا تو سچویشن کے مطابق نئے گیت لکھتا اور انہیں خود ہی گاتا۔ پھر آنند بخشی نے موٹر مکینک اور ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر بھی کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ بمبئی میں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کوششیں جاری رکھیں‘ لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ پھر ایک روز اس نے واپس فوج میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس کے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے اور رہنے کا کوئی ٹھکانا بھی نہ تھا۔ شہر چھوڑنے کا وقت آچکا تھا۔ اب وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی زندگی کا خواب بکھرنے جا رہا تھا کہ اس کی زندگی میں اچانک ایک معجزہ رونما ہوا۔ اس ریلوے سٹیشن پر ایک ٹکٹ کلیکٹر‘ جس کا نام چترامل تھا‘ اس سے ملا۔ تعارف کے بعدجب آنند بخشی نے بتایا کہ کیسے وہ گیت گانے اور گیت لکھنے کا شوق لے کر یہاں آیا تھا لیکن اب مایوس ہو کر واپس جا رہا ہے تو چترا مل نے آنند بخشی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا: گھبرائو نہیں تم ایک دن ضرور بڑے گیت کار بنو گے اور جہاں تک رہائش اور کھانے پینے کا تعلق ہے آج سے تم میرے ساتھ رہو گے۔ یہ کہہ کر چترا مل نے آنند کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے کوارٹر میں لے گیا جہاں وہ دو سال رہا۔ اس دوران مایوسی کے کتنے ہی موڑ آئے لیکن چترا مل نے ہمیشہ اس کا حوصلہ بڑھایا۔ آخر آنند بخشی کی زندگی میں وہ دن آ ہی گیا جس کا اسے بے صبری سے انتظار تھا۔ یہ 1958ء کی بات ہے برج موہن اپنی فلم ''بھلا آدمی‘‘ بنا رہے تھے جس میں بھگوان دادا ہیرو کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کہتے ہیں اس روز فلم کے گیت کار غیر حاضر تھے۔ آنند بخشی ہمیشہ کی طرح کام کی امید میں مختلف سٹوڈیوز کے چکر لگا رہا تھا۔ گیت کار کی غیر حاضری کی وجہ سے فلم ساز پریشان تھا۔ آنند بخشی نے پیشکش کی کہ وہ فلم کے لیے گیت لکھ سکتا ہے۔ یوں آنند بخشی کو گیت نگاری کا پہلا موقع ملا۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے فلم کے لیے چار گیت لکھ دیے۔ پہلا گانا ''او دھرتی کے لال‘‘ تھا‘ جسے آنند بخشی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ آنند بخشی کا بمبئی کی فلمی دنیا میں پہلا قدم تھا۔ کچھ عرصے بعد 1962ء میں سراج پرکاش نے اپنی فلم ''مہندی لگی میرے ہاتھ‘‘ میں آنند بخشی کو چانس دیا۔ یہی وہ فلم تھی جب آنند بخشی کو نوٹس کیا گیا۔ پھر سراج پرکاش کی ہی فلم ''جب جب پھول کھلے‘‘ (1965) میں آئی‘ جس نے آنند بخشی کی فنی زندگی کو ایک اہم موڑ دیا۔ اس فلم کے سارے گانے ہٹ ہوئے مثلاً پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا، ایک تھا گُل اور ایک تھی بلبل، یہ سماں، سماں ہے یہ پیار کا، نہ نہ کرتے پیار۔ فلم ''جب جب پھول کھلے‘‘ کے ریلیز ہونے کے بعد آنند بخشی کی شہرت آسماں کو چھونے لگی اور پھر ''ہمالہ کی گود میں‘‘ کا گیت ''چاند سی محبوبہ ہو میری کب ایسا میں نے سوچا تھا‘‘ اور ''ملن‘‘ فلم (1967) میں مکیش کی آواز میں آنند کا گیت ''ساون کا مہینہ پون کرے شور‘‘۔ پھر تو فلموں کی لمبی قطار اس کی منتظر تھی۔ امر، اکبر، انتھونی، اک دوجے کے لیے، امر پریم، بولی، تال، دل تو پاگل ہے، ارادھنا، جینے کی راہ، دل والے دلہنیا لے جائیں گے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آنند بخشی کے گیت اور لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آنند اور لکشمی کانت پیارے لال نے 250 فلموں میں گیت اور سنگیت کا ساتھ نبھایا۔ آنند بخشی نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کے لیے ساڑھے تین ہزار گیت لکھے اور چالیس برس تک کامیابی کا سفر جاری رکھا۔ جب اس نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا تو اس وقت چوٹی کے شاعر گیت لکھ رہے تھے‘ لیکن آنند کا کمال تھا کہ اس نے روایتی شاعری کے بجائے عام بات چیت کی زبان استعمال کی یوں اس نے گیت نگاری میں فوک سٹائل متعارف کرایا مثلاً''رہنے دو چھوڑو بھی جانے دو یار ہم نہ کریں گے پیار‘‘ اور پھر یہ گیت ''کیا ہوا کیسے ہوا، کب ہوا، کیوں ہوا‘‘۔ یہی سادہ زبان آنند بخشی کی مقبولیت کا راز تھی۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آنند بخشی نے کچھ فلموں میں گلوکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ آنند بخشی کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ اب غربت کے دن گزر چکے تھے۔ زندگی خوشحال ہو گئی تھی۔ لیکن بمبئی کی چکا چوند روشنیوں میں بھی آنند بخشی کو اپنی لال ٹینوں کی مدھم روشنیوں والی راولپنڈی بہت یاد آتی تھی۔ چشمِ تصور آنند بخشی کو راولپنڈی کے محلہ قطب الدین میں اپنی گلی میں لے جاتی جہاں ایک دھرم شالہ تھا، ایک مسجد تھی اور ایک ٹیوب ویل تھا۔ پھر ایک دن بیٹھے بیٹھے آنند نے اپنی راولپنڈی کے لیے ایک نظم لکھی تھی:
سانحہ یہ میری زندگی سہہ گئی
میں یہاں آ گیا وہ وہاں رہ گئی
کچھ نہیں کر سکا دیکھتا رہ گیا
کچھ نہ وہ کر سکی دیکھتی رہ گئی
لوگ کہتے ہیں تقسیم سب ہو گیا
جو نہیں بٹ سکی چیز وہ رہ گئی
راستوں میں کھڑی ہو گئیں سرحدیں
سرحدوں پر کھڑی بے بسی رہ گئی
یاد پنڈی کی آتی ہے اب کس کے لیے
میری مٹی تھی، جہلم میں وہ بہہ گئی
پنڈی کا سراپا تمام عمر آنند بخشی کی آنکھوں میں خواب کے رنگ بن کر جاگتا رہا اور اسے دیکھنے کی خواہش اس کے پہلو میں ہمیشہ درد کی کسک بن کر مہکتی رہی ۔ کہتے ہیں زندگی کے سفر میں خواب اور درد کاچولی دامن کا ساتھ ہے ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نامکمل ہے۔