تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-01-2020

نیب کا مسئلہ قانون نہیں!

چند ماہ پہلے اسلام آباد کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے سربراہ نے چند سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل کمیٹی بنانا چاہی جو ہسپتال کے لیے دواؤں کی خریداری کے فیصلے کرتی۔ تین یا چار ڈاکٹروں کے نام لکھ کر ہسپتال کے ایم ایس نے نوٹیفکیشن جاری کیا تو وہ تمام ڈاکٹر‘ جن کے نام اس کمیٹی میں شامل تھے، ان کے پاس چلے آئے۔ ان کی درخواست تھی کہ ان کے نام اس کمیٹی میں سے نکال دیے جائیں۔ تھوڑی ردّوقدح کے بعد معاملہ سلجھ گیا اور چند دوسرے ڈاکٹروں کے نام اس کمیٹی میں ڈال کر نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔ اب جن ڈاکٹروں کے نام اس کمیٹی میں آئے‘ انہوں نے تحریری طور پر اس کا رکن ہونے سے معذرت کر لی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ہی شروع ہو گیا کہ جس ڈاکٹر کا نام بھی کمیٹی میں آتا وہ کوئی نہ کوئی عذر پیش کرکے اپنا نام نکلوا لیتا۔ ایک ڈاکٹر نے اپنا نام نکلوانے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مالی معاملات میں ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کر سکتا‘ اس لیے اسے اس کام سے معاف رکھا جائے۔ سرکاری ضابطے کے تحت ہسپتال میں دوائیوں کی خریداری کے لیے کمیٹی لازمی تھی اور کمیٹی میں کوئی آنے کے لیے تیار نہیں تھا جبکہ ضروری ادویات تیزی سے ختم ہو رہی تھیں۔ وجہ اس بحران کی صرف ایک تھی اور وہ تھی نیب، یعنی قومی ادارہ برائے احتساب۔ اس ہسپتال کے ہر ڈاکٹر نے اس خوف سے اس کمیٹی میں اپنا نام نہیں دیا تھا کہ معمولی سی کوئی غلطی ہو گئی تو نیب کا کوئی سخت گیر افسر ان کی انکوائری کرنے لگے گا۔ ڈاکٹر صاحب کو نیب کے دفتر بلا کر خوار کیا جائے گا اور اس کے بعد گرفتار کر کے نوے دن کا ریمانڈ لے لیا جائے گا۔ ان کی عزت جاتی رہے گی، پیشہ ورانہ نقصانات بھی ہوں گے اور خاندان کی جو بھد اڑے گی وہ الگ۔ یہ اس انتظامی بحران کی محض ایک مثال ہے جو احتسابی ادارے کے غیر ضروری خوف کی وجہ سے سرکاری محکموں میں پیدا ہو رہا تھا اور جس پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلا درست فیصلہ کر کے نیب کے قانون کو‘ ایک آرڈیننس کے ذریعے ہی سہی‘ بدل کر سرکاری ملازموں کے لیے کام کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے۔ 
نیب کے قانون میں صدارتی فرمان کے ذریعے معمولی سی تبدیلی سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں احتساب کا عمل رک گیا ہے یا چند افراد کو کھل کھیلنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس ترمیم سے احتساب کا سلسلہ ہرگز نہیں رکے گا‘ لیکن احتسابی ادارے کی غیر ضروری فعالیت پسندی کو ضرور لگام لگ جائے گی۔ دوسرے اداروں پر غالب آ جانے کی غیر معمولی خواہش پر بند باندھنے کے لیے ضروری تھا کہ ریاست اپنا کردار ادا کرے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ریاست نے یہی کردار ادا کیا ہے۔ معاملات کو اگر یونہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ دن دور نہیں تھا جب ریاست کو چلانے والے اداروں کے اہلکار مکمل طور پر کام چھوڑ دیتے اور ان اداروں کی کارکردگی خراب تر ہو جاتی۔ جمہوری ریاست کی یہی پہچان ہے کہ وہ متوازن رہتی ہے اور تمام اداروں کو متوازن رکھتی ہے۔ نیب کا ادارہ بھی پاکستانی ریاست کا ہی حصہ ہے۔ اگر ادارے خود کو بالائے ریاست سمجھنے لگیں تو پھر ایسا ہوتا ہے‘ جیسا ہوا۔ نیب کے قانون میں ترمیم پر اعتراض برائے اعتراض کرنے والوں کا معاملہ الگ ہے، لیکن گمان یہی گزرتا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اس ادارے کا ہر رکن خود کو مسیحا سمجھنے لگا تھا۔ شاید وہ یہ سوچتے تھے کہ سوائے ان کے پاکستان کا ہر شہری اس وقت تک جھوٹا، خائن اور بدعنوان ہے جب تک وہ ان سے اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ نہ حاصل کر لے۔ اس تباہ کن سوچ کے ساتھ کوئی ادارہ خلا میں تو شاید چل جائے اس کرّۂ ارض پر اس کا چلنا مشکل ہے۔ لہٰذا اس ادارے کے ساتھ سچی ہمدردی کرتے ہوئے حکومت نے قانون میں ترمیم کا سو فیصد درست راستہ اختیار کیا ہے۔ اگر یہ ادارہ خود کو راہ راست پر لے آیا تو بات آرڈیننس سے آگے نہیں بڑھے گی ورنہ یہ آرڈیننس نقطہ آغاز ہے۔ 
صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے قانون میں صرف دو تبدیلیاں کی گئی ہیں، ایک یہ کہ سرکاری عہدے دار کے صاف نیتی سے کیے گئے فیصلوں پر اسے نہیں پکڑا جائے گا اور دوسرے یہ کہ عام کاروباری معاملات میں کسی تاجر یا صنعت کار کو تفتیش کی ٹکٹکی پر نہیں کسا جائے گا۔ نیب آج بھی نوے دن تک کسی ملزم کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے، اس کے پاس آج بھی مالیاتی جرائم کو پکڑنے کی ہر طاقت موجود ہے۔ ان دو تبدیلیوں سے ادارے کے پر کٹے ہیں نہ اس کے اختیارات میں کوئی بڑی کمی آئی ہے۔ ترمیم کی وجہ وہ رویہ ہے جو کچھ عرصے سے ہمارے اس احتسابی ادارے نے اختیار کر رکھا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر معزز لوگوں کو تفتیش کے لیے بلا لیا جانا اور پھر اس کی تشہیر کرنا اتنی سادہ بات نہیں کہ یونہی چھوڑ دیا جائے۔ دنیا بھر میں جب کرپشن کے الزام میں کسی سے تفتیش کی جاتی ہے تو اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اگر معاملہ کسی بڑی کاروباری شخصیت یا اہم سرکاری افسر کا ہو تو اسے خفیہ رکھنا از حد ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں اتنی احتیاط برتی جاتی ہے کہ کوئی گرفتاری تو دور کی بات پریس ریلیز میں بھی کسی کا نام تک نہیں دیتا۔ اگر نوبت گرفتاری تک پہنچتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارے نے اپنے تئیں تمام ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں جو عدالت میں پیش ہوں تو ان پر سزا یقینی ہے۔ اس معروف طریقِ کار کی بجائے ہمارے ہاں جو انداز اختیار کیا گیا‘ اسے کسی صورت قابل تعریف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اکثر اوقات پہلے ایک نامعلوم سی درخواست آتی ہے، پھر ایک پریس ریلیز میں ملزم کا نام آتا ہے، دو چار پیشیوں کے بعد وہ گرفتار ہو جاتا ہے۔ نیب کے ان لکھے قانون کے مطابق ہر انسانی غلطی جرم ہے اور ہر سرکاری فیصلے میں مال بنایا جاتا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ نوے دن کا ریمانڈ لیا جاتا ہے۔ جب یہ مدت گزرتی ہے تو اس کے پاس کہانی ہوتی ہے، ثبوت نہیں ہوتا۔ مقدمے کی مثل پڑھیں تو پہلے ہنسی اور پھر آنسو آتے ہیں۔ ہنسی نیب کے تفتیش کاروں کے شواہد پر اور رونا انہی تفتیش کاروں کی صلاحیت پر۔ پوچھیں تو وہ دلیل کی بجائے شکایات لے کر بیٹھ جاتے ہیں، کبھی عدالتوں سے، کبھی بیوروکریسی سے اور اکثر اوقات سیاستدانوں سے۔ اپنی اداؤں پر غور کرنا انہیں نہیں آتا۔ 
جب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کی سربراہی سنبھالی تو توقع پیدا ہوئی تھی کہ اب یہ ادارہ اپنے اختیارات کو جائز طریقے سے استعمال کرنے لگے گا۔ مگر سپریم کورٹ کے ایک سابق جج صاحب کی سرپرستی میں بھی یہ دیگر تمام اداروں کی طرح اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے لگا۔ اگر حاصل اختیارات احتیاط سے استعمال کیے جاتے تو کوئی اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ پر جرم ثابت ہو جاتے تو بات بھی تھی لیکن سال بھر سے انہیں گرفتار رکھ کے کیا حاصل ہوا؟ شاہد خاقان عباسی، آصف علی زرداری، خواجہ سعد رفیق اور اب احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا تو کن بنیادوں پر؟ بلاول بھٹو زرداری کو نوٹس بھیجا تو کیا پوچھنے کے لیے؟ مریم نواز پر شوگر مل کا کیس بنا تو کیونکر؟ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہو گا تو پھر احتساب کو منصفانہ کہنا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ پاکستان کے اکثر اداروں کی طرح نیب میں بھی کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ ادارے افراد سے بنتے ہیں، ان کی صلاحیتوں سے فروغ پاتے ہیں اور انہی کے رویوں سے تباہ ہو جاتے ہیں۔ احتسابی ادارے کو مضبوط ہونا ہے تو اسے اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ اس کا مسئلہ قانون نہیں رویہ ہے۔ 
اس ادارے کے ساتھ سچی ہمدردی کرتے ہوئے حکومت نے قانون میں ترمیم کا سو فیصد درست راستہ اختیار کیا ہے۔ اگر یہ ادارہ خود کو راہ راست پر لے آیا تو بات آرڈیننس سے آگے نہیں بڑھے گی ورنہ یہ آرڈیننس نقطہ آغاز ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved