امریکہ کے ادارے ’’ایڈوانس سیل ٹیکنالوجی‘‘ کے چیف سائنٹفک آفیسر ڈاکٹر رابرٹ لنزا کا کہنا ہے: ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگ موت سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہم موت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں مرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہم خود کو ایک جسم سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں اجسام نے ایک دن موت کے گھاٹ اتر جانا ہے؛ تاہم ایک نئی سائنسی تھیوری بتاتی ہے کہ موت ایک فنا کر دینے والا واقعہ نہیں ہے‘‘ ڈاکٹر لنزا کا کہنا ہے کہ جب ہمارے اجسام موت کے دہلیز پار کر جاتے ہیں، ہم پھر بھی زندگی کی حرارت محسوس کرتے ہیں اور یہ احساس جاگزیں رہتا ہے۔۔۔ ’’میں کون ہوں‘‘۔۔۔ اور اس احساس کا منبع ہمارے ذہن میں بیس واٹ توانائی کا خزانہ ہوتا ہے۔۔۔ یہ توانائی موت کے ساتھ ختم نہیںہوتی۔ اگر ڈاکٹر لنزا کی بات پر یقین کر لیا جائے کہ توانائی تباہ نہیںہوتی بلکہ ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ توانائی کا وہ خزانہ جو میجر منور خان کے سینے میں موجزن تھا، وہ مردہ نہیں ہوا ہے۔ جب بریگیڈیر (ر) وقار احمد ملک، جو میجر منور خاں کے بیٹے ہیں، اپنے باپ کی عجیب کہانی سناتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وقت ماضی، حال اور مستقبل کی حدود و قیود سے آزاد ہو چکا ہے۔ منور خان چکوال میں پیدا ہوئے۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے‘ ایک دن اُنھوں نے دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے لوگ جمع ہیں۔ قریب گئے تو پتہ چلا کہ چکوال میں برطانوی حکومت (یہ آزادی سے پہلے کا واقعہ ہے) کے زیر اہتمام دوڑ کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ جب مقابلہ شروع کرنے کے لیے گن فائر کی گئی تو دوڑ میں حصہ لینے والوں نے ٹریک پر بھاگنا شروع کر دیا۔ بے اختیار منور نے بھی چھلانگ لگائی اور دوڑ میں شامل ہو گئے۔ اُنھوںنے وہ دوڑ جیت لی۔ اس پر وہاں موجود ہر شخص ششدر رہ گیا۔ ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ یہ نو عمر طالب علم کون ہے۔ جب رجمنٹ کا ہیڈ آفیسر اُن کے قریب آیا تو منور خان نے کہا: ’’میں فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ لڑکے کی خواہش اُسی وقت پوری ہو گئی کیونکہ انگریز آفیسر نے اس نو عمر لڑکے میں جسمانی چستی اور طاقت دیکھ لی تھی۔ وہ اُسے اپنے ساتھ لے گئے، اُس کو تعلیم اور تربیت دی اور جب وہ اٹھارہ سال کے ہو گئے تو اُنہیں فوج میں ملازمت دے دی گئی۔ اس طرح منور خان برٹش آرمی میں چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو منور خان کو جاپانیوں سے لڑنے کے لیے برما بھیج دیا گیا۔ اُس وقت جاپانی فوجیں برما کے دارالحکومت رنگون کے قریب پہنچ چکی تھیں اور برطانوی فوجی دستے اُن کے سامنے کوئی مزاحمت پیش نہیں کر پا رہے تھے۔ رنگون پر قبضے کے بعد منور خان جاپانی فوج کی قید میں چلے گئے۔ قید کے دوران اُنھوں نے جاپانی گارڈ سے دوستی کر لی اور اُسے کہا جب موقع ملے، وہ اُسے جاپانی زبان سکھائے۔ اس کے بدلے اُنھوں نے اُسے انگریزی سکھائی۔ اس ’’لسانی ایکسچینج ‘‘ کا دونوں کو فائدہ ہوا۔ ایک دن جب جیل کا ایک سینئر جاپانی آفیسر دورے پر آیا تو ایک ہندوستانی سپاہی، منور خان، کو نہایت روانی سے جاپانی زبان بولتے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ قسمت کی دیوی نے ایک مرتبہ پھر اُن پر مہربانی کی اور جس طرح وہ انگریز آفیسر کی نظروں میں آ گئے تھے، اسی طرح جاپانی آفیسر کی نگاہ انتخاب بھی اُن پر پڑ گئی۔ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری سے منور خان کو صاف ستھرے آرام دہ بنگلے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے’’امپیریل جاپانیز آرمی‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور فوجی ٹریننگ کے سخت مراحل طے کیے۔ اُس وقت جاپانی فوج کی ٹریننگ کا معیار وہ تھا جو آج امریکہ کے سیل کمانڈوز کا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں بعد ازاں کچھ اور غیرمتوقع واقعات پیش آئے اور جاپانیوں کی پیش قدمی رک گئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں ایک پیش رفت ہوئی اور ہندوستان کو برطانیہ سے آزاد کرانے کے لیے 1942ء میں ایک ہندو رہنما سبھاس چندر بوس نے ’’آئی این اے ‘‘ (انڈین نیشنل آرمی ) قائم کی۔ میجر منور خان نے اس فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس فوج میں میجر جنرل ایم زیڈ کیانی، کرنل شاہنواز خان ، میجر حبیب الرحمٰن اور کرنل اے آئی دارا جیسے افراد بھی شامل تھے۔ اس فوج نے اتحادی افواج کو چیلنج کیا لیکن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی این اے کے افسران کو قید ی بنا کر انڈیا بھیج دیا گیا اور اُن کے خلاف برطانوی سرکار کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ اپنے والد کی زندگی کے ڈرامائی واقعات بیان کرتے ہوئے بریگیڈیر وقار کی آنکھوں سے کبھی کبھار آنسو بھی بہہ نکلتے۔ اس سے یہ کہانی مزید ڈرامائی ہو جاتی۔ جب منور خان جیل میں تھے تو ایک ارب پتی ہندو کی بیٹی کو ان سے عشق ہو گیا۔ وہ لڑکی روزانہ جیل میں اُن سے ملنے آتی اور اُن کے لیے پھولوںکے گلدستے لاتی۔ ایک دن اُس لڑکی نے منور خان سے شادی کی خواہش ظاہر کی مگر منور خان نے یہ کہتے ہوئے بات ٹالنے کی کوشش کی اُن کے درمیان مذہب کا فرق ہے۔ لڑکی کے کہا وہ اسلام قبول کر لے گی۔ اس پر منور خان نے کہا: وہ ایک بہت امیر باپ کی بیٹی ہے جبکہ وہ ایک غریب آدمی کا بیٹا ہے اور اس وقت جیل میں ہے، ا س لیے دونوں کا کیا سنجوگ؟ تاہم لڑکی اپنی بات پر قائم رہی اور کہا کہ وہ ہر حال میں ان کی خدمت کرے گی اور اُن کے خاندان کو خوش رکھے گی۔ الغرض، اُس خوبصورت نوجوان لڑکی نے منور خان کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ جیل سے بھاگ کر اُس کے والد کے گھر تک آ جائے گا۔ ایک دن موقع پاتے ہی منور خان نے جیلر، جو حسب معمول دورہ کر رہا تھا، کی گردن دبوچ کر اسے بے ہوش کیا اور اپنی کوٹھری میں گھسیٹ لیا۔ اُنھوں نے جلدی سے اُس جیلر کی وردی پہنی اور بڑے اعتماد سے چلتے ہوئے جیلر کی کار میں بیٹھ کر اُس امیر ہندو کے گھر پہنچ گئے۔ وہ اور لڑکی دونوں منور خان کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ منور خان دوبارہ گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیے گئے۔ اس مرتبہ اُن پر تھرڈ ڈگری تشدد ہوا اور اُن کا کورٹ مارشل کر دیا گیا۔ یہاں قسمت نے ایک مرتبہ پھر منور خان کا ساتھ دیا۔ تقسیم ہند کے واقعات شروع ہو گئے۔ انگریز سرکار کا خاتمہ ہوا اور منور خان اور ’’آئی این اے‘‘ کے مسلمان آفیسر کو سرحد پار کر کے پاکستان جانے کی اجازت مل گئی۔ بارڈر پر پاکستانی حکام نے اُن کا شاندار استقبال کیا۔ اس کے بعد منور خان نے لارنس پور، اٹک، کے نزدیک ایک نجی ادارے میں ملازمت کرنا شروع کر دی۔ جب اُس وقت کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو منور خان کے کارناموں کا علم ہوا تو اُنھوں نے اُنہیں خط لکھ کر پاک فوج میں شمولیت کی دعوت دی۔ منور خان، جن کے پاس برٹش آرمی، جاپانی امپیریل آرمی اور آئی این اے کا تجربہ تھا اور وہ ایک تجربہ کار جنگ آزما انسان تھے، کو آزاد کشمیر رجمنٹ، جسے آج کل AKRF کہا جاتا ہے، میں جانے کا موقع مل گیا۔ 1964 میں منور خان کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز کیا جانا تھا لیکن دل کی تکلیف کے باعث وہ ترقی نہ پا سکے: تاہم فوج کو اُن کی ضرورت تھی اور ایک سال بعد اُن کو ایک مرتبہ پھر میدان جنگ میں شجاعت دکھانے کا موقع مل گیا۔ جولائی 1965 میں پاک فوج نے ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ شروع کیا۔ میجر منور، اپنے تمام تر جنگی تجربے کے ساتھ اپنے دستے کو لے کر راجوڑی کے مقام پر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق اس درے پر خوفناک جنگ ہوئی، یہی وجہ ہے کہ بعد میں اس درے کو ’’منور پاس‘‘ کا نام دیا گیا۔ وہاںکے مقامی کشمیریوں نے اس بہادر پاکستانی کو خوش آمدید کہا۔ میجر منور نے تین ماہ تک پانچ سو مربع میل کے علاقے پر قبضہ کیے رکھا۔ اس دوران اُنھوں نے علاقے کا تمام نظم و نسق اپنے کنٹرول میں رکھا۔ اس کے بعد ایک دن اچانک انہیں علاقہ خالی کرنے کے احکامات ملے۔ جب مایوسی کے عالم میں میجر منور خان وہاں سے رخصت ہوئے تو مقامی آبادی نے اُن کو آنسووں سے الوداع کہا۔ بعد میں منور خان کو ستارہ جرات سے نوازا گیا جبکہ صدر ایوب نے اُن کو ’’راجوڑی کا سلطان‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد میجر منور خان اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر لنزا کی بات یاد آرہی ہے کہ لافانیت کا مطلب ہمیشہ کے لیے وقت کی حدود میں جسمانی طور پر زندہ رہنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک زندگی وقت کی حدود سے باہر بھی ہوتی ہے اور بقول علامہ اقبال، اسے پیمانہ ٔ امروز و فردا سے نہیں ناپا جا سکتا۔ یہ زندگی ہر دم جواں اور توانا رہتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ میجر منور، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، کی انمٹ توانائی بہادر ی کے نئے پیرائے میں ڈھل کر یہاں ہمیشہ موجود رہے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved