میں یہ کہہ کر اپنے آپ کو سنکی بوڑھوں کی فہرست میں شامل نہیں کرنا چاہتا کہ کیا زمانہ آگیا ہے۔ تاہم دل چاہ رہا ہے کہنے کو‘ کہ کیا زمانہ آگیا ہے۔ اسلام آباد میں میرے سمیت وہ سب صحافی حیران ہیں جو پچھلے پانچ سال شیخ وقاص اکرم کی تقریریں قومی اسمبلی میں سنتے رہے ہیں کہ وہ کیسے پنجاب میں سابق صوبائی حکومت پر یہ الزامات لگاتے تھے کہ وہ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اپنے بھائی کے خلاف بنائے گئے مبینہ جھوٹے مقدمات کی کہانی وہ جس جذباتی انداز میں سناتے تھے، اس سے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے تھے۔ انہوں نے اپنے اس بھائی کو پنجاب حکومت کی طرف سے بنائے گئے ان مقدمات سے جس طرح چھڑایا‘ وہ اپنی جگہ ایک سکینڈل ہے۔ شیخ صاحب جو کچھ نجی محفلوں میں کہتے رہے ہیں، اسے رہنے ہی دیتے ہیں۔ نواز لیگ کے فخر امام سے بات ہوئی تو وہ اپنی جگہ حیرت زدہ تھے کہ انہیں کس قسم کی دھاندلی کے ساتھ ہرایا گیا ہے۔ میں چپ رہا کہ رضا حیات ہراج‘ جس نے ان کو ہرایا ہے‘ کو نواز لیگ نے چند گھنٹوں میں اپنی پارٹی میں شامل کر لیا ۔ اب فخرامام کی ضرورت نہیں رہی۔ فخر امام سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ شکست یتیم ہوتی ہے‘ اس لیے فاتح کا سرپرست بننے کے لیے ہر کوئی تیار رہتا ہے، ناکام کا نہیں ۔ رضا حیات ہراج نے جو پرجوش تقریریں جنرل مشرف سے لے کر ظفر اللہ جمالی، شوکت عزیز، شجاعت حسین، یوسف رضا گیلانی تک کی ہوئی ہیں، اگر انہیں اکٹھا کیا جائے تو ایک شاہکار وجود میں آئے گا ۔ ان کی جو جھڑپیں کیپٹن صفدر اور نواز لیگ کے ارکان کے ساتھ ہوتی رہی ہیں، ان کو یاد کرتا ہوں اور رائے ونڈ میں ان کی حاضری کا منظر یاد آتا ہے، تو آنکھیں پھٹنے کو آجاتی ہیں۔ جمشید دستی جو کبھی غریبوں کا ہیرو تھا، وہ ایک لمحے میں زیرو ہوگیا۔ جن طبقات کے خلاف وہ لڑ رہا تھا‘ آخر انہی کے ساتھ مل گیا ہے۔اس نےIf you cant beat them, join them پر عمل کیا۔ دستی نے مصطفیٰ کھر کو ہرایا تھا تو اسے بھی رائے ونڈ میں ہی پناہ ملی تھی۔ اب دستی خود جیت گیا ہے تو بھی رائے ونڈ میں ہی پناہ لینے گیا ہے۔ سرائیکی علاقوں کے لوگوں اور لیڈروں نے کیا قسمت پائی ہے۔ نواز لیگ کے ایک رکن نے قومی اسمبلی میں صدر زرداری کے حوالے سے کچھ کہہ دیا تھا کہ دستی بازو چڑھائے اس کی طرف دوڑے تھے اور بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا گیا تھا کہ حضور جانے دیں صدر کو بتا دیا جائے گا کہ آپ ان کے خاندان کے کتنے وفادار ہیں ۔ ٹھٹھہ سندھ کے شیرازی سب سے بہتر ڈیل کر چکے ہیں۔ کئی برسوں تک ان کا منّت ترلہ کیا جاتا رہا کہ جناب پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ چھ ماہ پہلے آخر وہ مان گئے۔ انعام کے طور پر انہیں بھی عوام کے پیسوں سے دس کروڑ روپے ادا کیے گئے کہ جناب یہ ترقیاتی کاموں کے نام پر آپ کا انعام ہے۔ اس کے ایک ماہ بعد انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی۔ اب وہ بھی نواز لیگ میں شامل ہو چکے ہیں کہ اب نئے حکمرانوں سے انعام لینے کا وقت ہے۔ سب سے زیادہ دھچکہ تو لغاری بردارز کا لگا ہے۔ جمال اور اویس کی گفتگو ریکارڈ پر ہے۔ نواز شریف ہی تھے جو فاروق لغاری کے مہران بنک سکینڈل کے حوالے سے چوٹی زیریں ایک جلوس لے گئے تھے۔ لغاریوں کو ان کے گھر میں جا کر بدنام کیا گیا۔ لغاری ساری عمر اس سکینڈل سے جان نہ چھڑا سکے تھے۔ فاروق لغاری کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا تھا۔ ایک لمحے میں دونوں بھائیوں نے سب کچھ بھولنے کا فیصلہ کیا۔ اب کون ساری عمر اقتدار سے دور رہے۔ ہو سکتا ہے دونوں بھائی اس وقت چھوٹے ہوں جب فاروق لغاری کا حشر نشر کیا جارہا تھا۔ اگر یادداشت تازہ کرنی ہو تو پھر وقت نکال کر قومی اسمبلی کی لائبریری میں ہونے والی تقریریں پڑھ لیں جو نواز لیگ کے ارکان نے مہران بنک سکینڈل کے بعد کی تھیں۔ اگر اتنا وقت نہیں ہے تو مجھے اپنا ایڈریس بھیج دیں‘ میں اپنی کتاب ’’ایک سیاست، کئی کہانیاں‘‘ بھیج دیتا ہوں جس میں ان کے والد کے قریبی دوست گورنر پنجاب شاہد حامد کے کچھ انکشافات درج ہیں، اب سوچ رہا ہوں وہ باب ہی اپنی کتاب سے نکال دوں۔ پاکستانی سیاست اتنی کرپٹ ہو چکی ہے کہ سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ لگنے لگا ہے۔ پیسہ اور طاقت ہی ایمان بن گیا ہے۔ جو کام جنرل ضیاء نے سیاستدانوں کو کرپٹ کرنے کا شروع کیا تھا اور انہیں گلی محلے میں پانی کے نلکے لگانے کے کام پر لگایا تھا، اسے اپنی معراج پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے پہنچایا اور چند برسوں میں اربوں روپوں کے ترقیاتی فنڈز کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا ۔ آخری آٹھ ماہ میں تو راجہ پرویز اشرف نے بھی حد کر دی۔ چار ارب روپے اپنے حلقے میں دیے اور پھر اپنے بھائی کو چالیس کروڑ روپے دیے۔ تین ارب روپے ملک بھر کے معززین کو دیے۔ غضب کی لوٹ مار کی گئی۔ ایک ایم این اے اور ایم پی اے کو اس سے غرض نہیں ہے کہ ان کے لیڈر کیا کر رہے ہیں۔ کون بنکوں کو لوٹ گیا ہے اور کون منی لانڈرنگ کر رہا ہے۔ کون سوئس بنکوں سے چھ ارب روپے لے اڑا ہے۔ ایک ایم این اے اور ایم پی اے کو صرف چند کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ، ضلع کا ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر اس کی مرضی کا چاہیے۔ اسے اپنے علاقے میں استادوں اور استانیوں کے تبادلوں کا پورا اختیار چاہیے ، تھانے کا ایس ایچ او اس کا غلام ہو ۔ پورے ضلع کی انتظامیہ اس کے اشاروں پر ناچے۔ وہ جس کو چاہے گھر سے اٹھوا لے، تمام افسران دن رات اس کے گھر پر بیٹھے ہوں۔ یہ وہ طاقت ہے جس نے سب کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی عزت، اپنے اصول اور خیالات کو ڈسٹ بن میں پھینک کر اقتدار میں شامل ہوں۔ ہر کسی کو زندہ رہنے کے لیے ایک مافیا ڈان کی ضرورت ہے۔ ضلعی حکومتوں کو ختم کر کے مقامی سطح پر یہ نئے سیاسی ڈان پیدا کیے گئے ہیں ۔ ہر انسان اب ان کی مرضی سے جی سکتا ہے۔ اگر آپ مخالف ہیں توپھر آپ کا جینا حرام کر دیا جا ئے گا ۔ خدا نے بھی ان کو برداشت کیا ہے جو اس کے وجود تک سے انکاری ہیں لیکن ایم این اے اور ایم پی اے یہ حق اپنے مخالفین کو دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ سیاست کو اتنا بڑا کاروبار بنا دیا گیا ہے کہ اب کوئی اپوزیشن میں رہنے کو تیار نہیں ہے۔ سینٹرل پنجاب سے جیتنے والے ایک آزاد ایم پی اے دوست سے بات ہوئی تو میں نے کہا پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھو‘ تم لوگوں کی بہتر خدمت کر سکو گے‘ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبر بنو جس کا اجلاس تین سال سے نہیں ہونے دیا گیا تاکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے اربوں روپوں کی بدعنوانیوں پر کوئی بحث نہ ہو سکے۔ تم ایک پڑھے لکھے اور جوان آدمی ہو، ابھی تمہاری عمر 33 برس ہے، ترقی کرو گے۔ بولا آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ حلقے کے لوگوں کا کیا بنے گا؟ میں نے کہا تمہارے پیدا ہونے سے قبل یہ حلقہ کیسے زندہ تھا اور جب تم نہیں رہو گے تو لوگ کیا کریں گے ؟ ناگزیر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ بولا چھوڑیں رئوف بھائی، میں حمزہ شہباز سے مل چکا ہوں۔ صوبائی وزارتِ خوراک مل جائے گی۔ زرداری صاحب اور نواز شریف کا کمال ہے کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاستدانوں کو ایک قطار میں کھڑا کر دو‘ سب ایک طرح کے لگیں گے۔ چہرے مختلف ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، فرق پڑتا ہے الگ سوچ ، فکر، مزاج، اُصول اور عزت رکھنے سے اور یہ سب کچھ آپ کو اب سیاستدانوں میں نہیں ملے گا۔ لوگ کہتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، میں کہتا ہوں دل ہوتا ہے یا نہیں لیکن انا، غیرت اور شرافت نام کی چیز تو بالکل نہیں ہوتی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved