اسلام آباد دھیرے دھیرے بربادی کی طرف چل پڑا ہے اور سب کو نظر آرہا ہے لیکن نظر نہیں آرہا تو صاحبانِ اقتدار کو۔ اسلام آباد کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس شہر پر جو لوگ حکومت کرنے آتے ہیں ان کا تعلق اس شہر سے نہیں ہوتا‘ لہٰذا وہ کھل کر اس شہر کی بربادی میں حصہ ڈالتے ہیں اور اس کا خمیازہ شہری بھگتتے ہیں۔
اور تو اور اب تو ایم این ایز اور سینیٹرز بھی دیگر شہروں سے لائے جاتے ہیں۔ اسد عمر کراچی سے اسلام آباد کے ایم این اے بن گئے‘ جاوید ہاشمی ملتان سے آئے۔ اس شہر کو اپنا بھی کوئی نہ ملا جو اس کی بربادی پر شور مچاتا۔ اور تو اور ہم ٹی وی چینلز کے اینکرز اور اخبارات کے کالم نگار اور زیادہ تر صحافی باہر سے یہاں نازل ہوئے ہیں لہٰذا ہمارے اندر اس پوٹھوہار کی دھرتی اور اس کے دو اہم شہروں اسلام آباد اور پنڈی کیلئے وہ درد اور دکھ یا اونرشپ نہیں‘ جو ایک مقامی کے دل میں ہوسکتی ہے۔ اس دھرتی کا جو دکھ ایک پوٹھوہاری محسوس کرے گا شاید ہم نہیں کرتے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ہمارا کچھ یہاں ہے۔ ہاں ایک نوکری کرنی ہے جو ہم کرتے رہتے ہیں۔
مجھے اس شہر میں رہتے ہوئے بائیس برس ہوگئے ہیں اور میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اس کو ایک خوبصورت شہر سے ایک گندے شہر میں تبدیل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ اس شہر کا زوال میری آنکھوں کے سامنے اور بڑی تیزی سے ہورہا ہے۔ اس شہر میں سب کچھ ہے اور سب کو کچھ نہ کچھ ملتا ہے لیکن بدلے میں اسے کچھ نہیں مل رہا۔ اس شہر میں جو پارلیمنٹ ہے اس میں جب اسلام آباد کے ایم این ایز نہیں ہوں گے یا سینیٹ کی اسلام آباد کی سیٹ پر بھی کوئی اور منتخب کراکے بھیجا جائے گا تو پھر اس شہر کا درد کون محسوس کرے گا؟
اندازہ کریں کہ اس شہر کی 1998 میں آبادی دس لاکھ تھی جو اب بیس برس بعد بیس لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ اس شہر میں ہر طرف اب آپ کو گاڑیوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ ہم نے کبھی اسلام آباد میں ٹریفک جام کا نام تک نہیں سنا تھا لیکن اب ہر چوک پر طویل قطاریں نظر آتی ہیں۔ بلیو ایریا خالی خالی سا رہتا تھا اور اب آپ کو مین روڈ تک بھی گاڑیاں پارک کی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگر ابھی یہ کچھ کم تھا تو اب ایف نائن پارک کے سامنے گرین بیلٹ پر بلیو ایریا ایکسٹینشن کے نام پر نئے طویل پلازے بن رہے ہیں اور یہ مین روڈ کے بالکل اوپر بن رہے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے کہ اتنی ٹریفک کا انتظام کیسے ہو گا۔ یہ پلازے کیسے پارکنگ کا انتظام کریں گے۔ پہلے ہی بلیو ایریا میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تو نئے پلازے کہاں سے ہزاروں گاڑیاں پارک کرائیں گے؟ اسی طرح سی ڈی اے کے پاس تین چار منزلوں سے زیادہ آگ بجھانے والے آلات نہیں ہیں تو اب بیس بیس منزلیں تعمیر کراتے وقت یہ دیکھا گیا کہ کل کلاں اگر خدانخواستہ آگ لگ گئی تو کیا ہوگا؟ کوئی ایگزٹ کا بندوبست ہے؟ بس سی ڈی اے سے اجازت نامہ لے لو اور شروع ہو جائو۔ اب تو لوگوں نے بیسمنٹ میں پارکنگ کی بجائے وہاں بھی دفاتر بنا کر کرائے پر دے رکھے ہیں۔ اسلام آباد بنیادی طور پر سرکاری افسران کا شہر تھا نہ کہ کوئی انڈسٹریل شہر یا ساحلی علاقہ جہاں کاروبار ہوتے اور لوگ نوکریوں کی تلاش میں آتے جیسے کراچی میں ہم نے دیکھا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صرف اسلام آباد میں ایک سو بیس کے قریب غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیز بن چکی ہیں۔ قانونی کی تعداد ایک طرف رکھیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس شہر میں اتنی ہائوسنگ سوسائٹیز کی کیا ضرورت تھی؟ پشاور موڑ سے موٹروے کی طرف جائیں تو آپ حیران رہ جائیں کہ سڑک پر ہی نئی ہائوسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں۔ ہر طرف کدالیں ہیں‘ بلڈوزر ہیں۔ کمال یہ ہوا کہ اسلام آباد میں ایک جیل بننا تھی۔ جیل کی دیوار چالیس کروڑ روپے لگا کر مکمل کی گئی تو اب پتہ چلا ہے کہ اس پر تو سڑک بننا تھی۔ یہ جیل موٹروے سے پہلے سڑک کنارے بنائی جارہی ہے۔ اندازہ کریں منصوبہ سازوں کی عقل اور سمجھ کا۔
سب پیسہ شہروںپر لگانے کا یہ نقصان ہوا ہے کہ اب سب پس ماندہ علاقوں سے لوگ غربت سے تنگ شہروں کا رخ کررہے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سارے مسائل بھی لا رہے ہیں جن کا حل شہروں میں بیٹھے حکمرانوں اور بابوز کے پاس نہیں ہے۔ بابوز ان کاموں کو معاشی ترقی کا نام دے کر خوش ہیں۔ وہ پلاننگ میں ناکامی کا اعتراف نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے پلازے بن رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ معاشی ترقی ہورہی ہے لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کے شہر پر کیا اثرات ہوں گے جب پورے شہر میں آبادی بڑھے گی‘ جرائم بڑھیں گے‘ ٹریفک جام بڑھیں گے اور آپ کو شہر میں گھٹن کا احساس ہوگا۔ روز گھر کے باہر بیل بجتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ چار پانچ غریب لوگ نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ آپ کتنے لوگوں کو نوکریاں دے سکتے ہیں؟ بیچارے تنگ آ کر شہر میں جرائم کریں گے۔ دھیرے دھیرے یہ جرائم بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ کام گلی محلوں میں چوری سے شروع ہوتا ہے‘ پھر ایک دن ڈاکو بندوقیں اٹھا کر آپ کے گھر گھس جاتے ہیں اور سب کچھ لوٹ لیتے ہیں اور بچوں پر بھی ماں باپ کے سامنے تشدد کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں اور لانگ مارچ کی بھی بڑی قیمت اس شہر کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہر دفعہ نئے لوگ لانگ مارچ کے ساتھ آتے ہیں اور اکثر یہیں رک جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے‘ اس شہر میں انہیں نوکری ملے گی اور مزدوری بھی۔ چونکہ یہ انڈسٹریل شہر نہیں‘ اور زیادہ تر لوگ ہنرمند نہیں ہوتے لہٰذا گھریلو کاموں کے سوا کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یوں ان کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور روزانہ بہت سے لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں یا پھر چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ کسی بھی شہر میں جرائم مقامی لوگ نہیں کرتے‘ باہر سے آئے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ پہلے اسلام آباد میں چوریاں چکاریاں ہوتی تھیں۔ اگر ہماری دوست سعدیہ کیانی کو یاد ہو تو میں نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے بعد کہا تھا کہ اب اسلام آباد میں دو کام شروع ہوں گے۔ ایک تو یہاں گن پوائنٹ پر لوگوں کے گھر لوٹے جائیں گے‘ دوسرے‘ اغوا برائے تاوان کا کاروبار شروع ہوگا۔ مجھے افسوس ہے کہ میری یہ پیشگوئی ایک ماہ کے اندر اندر پوری ہوئی ہے۔
اسلام آباد میں اس طرح کا واقعہ دو دن پہلے پیش آیا جب گھر کے مکین کے بقول ایک گینگ اسلام آباد کے سب سے محفوظ سمجھنے والے سیکٹر ایف ایٹ کے گھر میں داخل ہوا‘ گن پوائنٹ پر سب کو یرغمال بنایا‘ جوان بچوں پر ان کے ماں باپ کے سامنے تشدد کیا اور لوٹ کر چلتے بنے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو دھرنے کے دنوں میں کہا گیا تھا کہ اس میں کچھ افغان بھی شامل ہیں۔ یقینا سب افغان برے نہیں ہیں۔ ان میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں۔ لیکن اب جب یہ سامنے آ چکا ہے کہ اس گھر کو لوٹنے والے پانچ افغان تھے تو اس کے بعد شک نہیں رہتا کہ میرا خدشہ کس حد تک پورا ہوا۔ کچھ دن پہلے ایک آرمی افسر کو کراچی کمپنی میں گولی مار کر جو قتل کیا گیا‘ اس میں بھی افغان ملوث نکلے تھے۔
پہلے کراچی اس طرح تباہ ہوا‘ جہاں دس پندرہ برس میں پندرہ ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ کراچی‘ جو پورے ملک کو پالتا تھا‘ لہولہان ہوگیا تھا۔ پھر جرائم بڑھتے گئے۔ پولیس ناکام ہوتی گئی اور ایک دن فوج کو بلانا پڑا۔
اسلام آباد کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ اس شہر میں بہت سارے گینگ نازل ہوچکے ہیں۔ حکمرانوں سے لے کر افسران تک کوئی اس سنگین معاملے کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔ ممکن ہے بہت سے لوگوں کو لگے‘ اسلام آباد کا کراچی سے موازنہ نہیں بنتا۔ ایسے کبھی کراچی کا نہیں بنتا تھا۔ کراچی کی پرانی تصویریں دیکھیں تو بھی کوئی نہیں مانتا تھا کہ اس شہر کا یہ حال ہوگا‘ جو ہوچکا ہے۔
یہی اسلام آباد کی کہانی ہے۔ جو تصویریں چند سال پہلے کی ہیں وہ آج نہیں پہچانی جاتیں۔ صبر کریں جس رفتار سے چیزیں بگڑ رہی ہیں‘ چند برس بعد آج کی تصویریں بھی نہیں پہچانی جائیں گی۔