تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     03-01-2020

غریب کی آواز سنو!

گزشتہ سال کے آخری ایام میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک غیر معمولی فیصلے نے سب کی چولیں ہلا کر رکھ دیں تھیں‘ لیکن سال 2020 کے آغاز میں یہ مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے؛ البتہ اب بھی فیصلہ سازی کے عمل میں بہت زیادہ کنفیوژن کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پہلے حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور پھر نظرثانی کی درخواست بھی دائر کر دی گئی۔ ابھی اس کا فیصلہ ہونا باقی تھا کہ یکم جنوری کو وفاقی کابینہ کا اچانک ہنگامی اجلاس صرف دو گھنٹوں کے نوٹس پر بلا لیا گیا۔ صرف وفاقی دارالحکومت میں موجود وزرا ہی کابینہ اجلاس میں پہنچ سکے۔ انہیں آرمی ایکٹ میں ترمیمی بِل کے بارے میں بریف کیا گیا اور منظوری حاصل کی گئی۔ طویل وقفے کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بھی اسی روز بلایا گیا۔ تاثر یہ دیا گیا کہ حکومت کی اس بارے میں اپوزیشن کے ساتھ بات ہو چکی ہے‘ لیکن کابینہ سے منظوری کے بعد پرویز خٹک کی سربراہی میں اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنائی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ابتدائی دونوں دن کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
ایک طرف پارلیمنٹ سے بِل پاس کروانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے جس میں آرمی چیف توسیع کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون سازی ہونی ہے اور آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کروانا ہے تو پھر سپریم کورٹ میں بار بار درخواستیں دائر کرنے کی مشق کیوں کی جا رہی ہے؟ اگر قانون سازی ہونا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے غیر مشروط حمایت کے اعلان کے بعد اب اس بِل کے پاس ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا تو پھر فیصلہ ساز قوتوں کی صفوں میں اتنی کنفیوژن کیوں ہے؟ قانون سازی کے بعد تو سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تمام درخواستیں ہی غیر مؤثر ہو جاتی ہیں‘ پھر کس بات کا ڈر ہے؟ غالب امکان یہی ہے کہ آرمی چیف کی تقرری‘ دوبارہ تقرری اور توسیع کے بارے میں قانون سازی کے تمام انتظامات مکمل ہیں اور رواں اجلاسوں میں ہی بِل پاس کروا لیا جائے گا‘ جس کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کی تقرری ابتدائی طور پر تین سال کے لئے کی جائے گی اور بعد ازاں اس میں زیادہ سے زیادہ تین سال کی توسیع کی جا سکے گی اور اس کا کُلی اختیار وزیر اعظم کی صوابدید پر ہو گا‘ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت منظوری دیں گے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ اقتدار کی راہداریوں میں کچھ کھلبلی سی ہے ‘ ہر کوئی اُکھڑا اُکھڑا سا نظر آرہا ہے۔ نیب آرڈیننس کا ترمیمی آرڈیننس ہو یا رانا ثنااللہ کا کیس‘ وفاقی کابینہ کے اختلافات اب کھل کر سامنے آ چُکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وزرا بند کمروں میں اور اتحادی جماعتوں کے وزرا سر عام اپنے خدشات اختلافات کا اظہار کرتے اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ معاملات چھپائے جا رہے ہیں اور امورِ کار میں پْراسراریت سی پائی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سولہ ماہ بعد اپنے اتحادیوں کی طرف توجہ دینا شروع کر دی ہے اور یکایک ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں آ چکی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ایم کیو ایم کو دانہ ڈال چْکے ہیں‘ جو کسی بھی وقت چْگا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ق) پہلے ہی مولانا کو ایک امانت سپرد کر چکی ہے اور کافی آگے جا کر چند ساعتوں کے لئے رک گئی ہے اور فی الوقت مونس الٰہی وزیر اعظم عمران خان کو اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کر کے چوہدری پرویز الٰہی ان کو غیر متزلزل حمایت کی یقین دہانی کروا چکے ہیں‘ لیکن سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ سیاسی یقین دہانیاں اپنا کوئی اخلاقی وجود نہیں رکھتیں۔
رانا ثنااللہ کی رہائی کے بعد کی مسکراہٹیں اور مریم نواز سے ملاقات کے بعد کی گفتگو پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ عمران خان کے مخالفین اور سیاست کے تمام چھوٹے بڑے باوے آزاد ہو چکے ہیں اور باقی جو بچے ہیں آزاد ہونے کی طرف گامزن ہیں۔ سیاست کے یہ تمام اعلیٰ دماغ صرف ایک مشن پر یکجا ہیں اور وہ ہے مائنس ون۔ اپوزیشن کی تمام مؤثر آوازیں ایک بات پر یک سْو نظر آتی ہیں کہ تمام مسائل کا حل رواں سال نئے عام انتخابات میں ہے‘ اور اس بیانیے کو وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت نے اس تاثر کو روکنے کی مؤثر پیش بندی نہ کی تو اپوزیشن اس بیانیے کو مزید آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے کہ خان صاحب کو تمام مسائل کی جَڑ قرار دیا جائے‘ کیونکہ پارلیمنٹ کی اب تک کی کارکردگی قانون سازی کے اعتبار سے صفر رہی ہے‘ سوائے فاٹا اصلاحات اور بجٹ کی منظوری کے‘ اور کوئی قابل ذکر کامیابی نظر نہیں آتی۔ آرڈیننسوں کے اجرا سے کام چلایا جا رہا ہے۔ الیکشن کمشن میں تعیناتیاں نہیں ہو پا رہیں۔ سو معاملات ایک جگہ پر ٹھہر سے گئے ہیں۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حمایت کیلئے اپوزیشن کی مرکزی قیادتوں سے رابطے بھی انہوں نے کئے جن کا یہ معاملہ ہے۔ اپوزیشن اگر اس مسئلے پر خوشی خوشی ہاں کرتی ہے تو یہ خبر ہرگز عمران حکومت کے لئے خوشگوار نہیں ہے۔ 
ان دگرگوں حالات میں حکومت 2020 میں داخل ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال دھواں دھار رہا، پاکستان تحریک انصاف کے بجائے اپوزیشن کا بیانیہ حاوی رہا جس کا کریڈٹ اپوزیشن کی میڈیا سٹریٹیجک ٹیم کو جاتا ہے‘ جس نے بڑی چابک دستی سے سوشل‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنائی۔ پی ٹی آئی کے وزرا اور ترجمانوں کی ٹیم اپنے وزیر اعظم کا مؤثر دفاع کرنے میں کافی کمزور نظر آئی۔ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے کئے گئے سخت اقدامات کو عام آدمی میں پذیرائی نہ مل سکی۔ بجلی‘ سوئی گیس‘ ادویات‘ پٹرولیم مصنوعات اور روزمرہ استعمال کی عام اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کم آمدنی والے طبقے میں عمران خان کی مقبولیت کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کو بھی، جو سو فیصد صوبائی اور ضلعی حکومتوں کا معاملہ تھا، وفاقی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور پی ٹی آئی کے وفاقی ترجمانوں کی ٹیم ناکام وضاحتیں کرتی رہی۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائی سولہ ماہ گزرنے کے باوجود پی ٹی آئی کی ٹیم اپنی اچھی باتوں کو بھی کیش نہ کروا سکی۔ اقوام متحدہ میں عمران خان جیسی تقریر اگر نواز شریف یا بلاول بھٹو نے کی ہوتی تو یہ جماعتیں اب تک اسی تقریر کا سیاسی منافع کھا رہی ہوتیں۔ معیشت میں کئے گئے اچھے اقدامات کا چونکہ عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا‘ اس لئے وہ صرف اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عثمان بزدار کی تقرری بھی پورا سال موضوع تنقید رہی اور عمران خان کے سوا عثمان بزدار کا دفاع بھی کسی نے نہ کیا۔
عمران خان صاحب کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘ ایک طرف عام آدمی کے مسائل کا فوری حل‘ جس میں مہنگائی کو کم کرنا‘ گیس‘ بجلی اور عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو عوامی نقطہ نگاہ سے کم کرنا شامل ہے‘ لازمی ہو گا اور اگر انہوں نے اپنی امپورٹڈ معاشی ٹیم کی نظروں سے چیزوں کو دیکھنا نہ چھوڑا تو پھر ان سے بے پناہ محبت کرنے والے ان کے ووٹرز اور سپورٹرز خان کی محبت سے آزاد ہونے میں اب کْچھ زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔ کرشمہ ساز قیادت کی طاقت عوام ہوتے ہیں اور عوام اس کو اپنا مسیحا مانتے ہیں جو ان کو روٹی کپڑے اور مکان کا آسرا دے نہ کہ ان کو جو ہر مہینے ان کی قوت خرید کو کم کرتے ہوئے نظر آئیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved