تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     03-01-2020

ٹوَنٹی ٹوَنٹی

ٹونٹی ٹونٹی (2020) کے دو ہی معروف معنی ہیں۔ ایک، جاری صدی کے تیسرے عشرے کا پہلا سال۔ دوسرا جلدی جلدی میں کھیلے جانے والا کر کٹ میچ۔ ہو سکتا ہے ٹونٹی ٹونٹی والا کرکٹ میچ نازی جرمنی کے گریٹ فیوھرر ہٹلر کی ''کرکٹانہ‘‘ سوچ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ایجاد ہوا ہو۔ ہٹلر کو کرکٹ اُتنی ہی پسند تھی جتنا مودی بھارت میں مسلم اقلیت کو چاہتا ہے۔
اسلام آباد محکمۂ موسمیات کے بیرو میٹر پر جتنا سرد دِکھائی دیتا ہے‘ اصلی سردی اُس سے کہیں بڑھ کر پڑ رہی ہے۔ پہاڑی علاقے میں ٹھنڈ ناپنے والے آلات سردی کی اصل شدّت (Feel) نہیں بتا سکتے۔ اسی شدید سردی میں نئے سال کا جس قدر پُرجوش استقبال وطنِ عزیز میں 2020 میں ہوا‘ اس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی۔ ہڑبونگ اور بدمزگی سے پاک۔ کیماڑی سے لے کر طورخم تک جذبے، جھنڈے، نعرے۔ اچھے وقت کی آس اور امید سے بھرپُور نیم شب کے میلے۔ ایسے میں البتہ کچھ معروف چہروں کو مایوس اور کمر ریختہ دیکھ کر یار لوگوں نے مرزا غالب کو یاد کیا۔ جو دلّی کے اُجڑنے کے ساتھ ساتھ اپنی بربادی کی داستان بیان کرنے کے لئے کبھی ویران مسجد کا استعارہ استعمال کرتے تو کہیں اور اپنے ہی اس شعر کی چلتی پھرتی تصویر بن آتے۔
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے، پہ تماشہ نہ ہُوا
نئے عشرے کے پہلے سال کے اوّلین روز، طبیعت راحت طلبی پر مائل تھی۔ تھوڑی دیر میں چھوٹے بیٹے عبدالرحمن نے آ کر کہا: سال کے پہلے دن ورزش نہ کرنے سے باڈی کیمسٹری کو بڑا منفی سگنل جاتا ہے‘ اس لئے یخ برفانی ہوائوں کے عین بیچوں بیچ نفیِ ذات کا نعرہ لگا کر دوڑنا پڑا۔
بنکاک میں سیاحوں کے لئے دُکانیں صبح سویرے کُھل جاتی ہیں۔ جہاں ایک، دو فیصد دُکاندار سکھ سردار ہیں۔ باقی بُدھ مت کے ماننے والے۔ یہ دُکان دار آدھا پونا گھنٹہ سارے سامان کو پھونکیں مار مار کر اگر بتیوں کا لوبانی دُھواں پہنچانے میں گزارتے ہیں‘ جس کے بعد ''بوہنی‘‘ کروانے والے گاہک کی موج لگ جاتی ہے۔ اگر 500 بھات کی چیز کے 50 بھات آفر کیے جائیں تو دُکان دار خوب احتجاج کرے گا‘ لیکن جتنا مرضی نقصان ہو جائے پہلے گاہک کو خالی ہاتھ دُکان سے باہر نہیں نکلنے دے گا۔
لندن سے نئے سال کی نیم شب فون آیا۔ ایک صاحب مجھے بڑے گھڑیال (Big Ben) سے نئے سال کا ''کائونٹ ڈائون‘‘ سنوانا چاہ رہے تھے‘ جہاں پورا شہر یک زبان ہو کر اُلٹی گنتی کرتا ہے‘ پھر عین 12 بجتے ہی ہمارے ہاں عید کی طرح جو پہلا قریب ترین شخص ہو‘ لوگ اُسے گلے لگا کر ''ہیپی نیو ائیر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
عرب دُنیا میں، سالِ نو کی مبارک باد ''کُل عام و انتم بخیر‘‘ کہہ کر دی جاتی ہے‘ جس کا مطلب ہے سارا سال آپ خیر اور عافیت سے فیض یاب ہوں۔ یہ سال بھی ہر سال کی طرح حسرتوں اور خواہشوں‘ کامیابیوں اور بے مرامیوں کی پٹڑی پہ دوڑتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ پیچھے مُڑ کر 2019 میں دیکھیں، 2018 میں یا پھر 2017 میں‘ دو طرح کی آوازیں آپ کا پیچھا کریں گی۔ پہلی حسرت و یاس میں ڈوبی ہوئی‘ جیسے، ملک نہیں چل سکتا۔ چلانے والے سارے نالائق ہیں۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔ نظام لپیٹا جائے گا۔ لوگ پیاز کے بوٹے بوٹے کو ترس رہے ہیں۔ عوام بھوکی مر گئی۔ حالانکہ (تھر کے علاوہ جہاں بچے اور جانور دونوں بھوک سے مر رہے ہیں) باقی جگہ اللہ کا کرم ہے کوئی بھوک سے کبھی نہیں مرا۔ لاہور اور کراچی میں ڈاکو راج۔ مر جائیں گے لیکن عوام کے لئے بولنا بند نہیں کریں گے۔ اداروں میں تصادم شروع ہے۔ آواز اُٹھانے والوں پر سنسرشپ ہے۔
ذرا رُکیے، افغانستان‘ ایران اور خلیج عرب چھوڑ دیتے ہیں۔ بھارت جاپان اور کوریا کی بات کر لیں۔ تینوں جگہ جمہوریت ہے۔ کوئی ایک بھی مُلک ایسا نہیں جہاں کسی بھی موضوع پر بولنے بلکہ چیخنے، چنگھاڑنے، گرجنے، برسنے‘ کٹہرہ لگا کر ''ناپسندیدہ عناصر‘‘ کو سزائیں سنانے اور دل پذیر و دل پسند لوگوں کو درجہ ولایت پر فائز کرنے کی اپنے جیسی آزادی میسر ہو۔ جہاں قانون مُکے کا تابع ہو جائے اور صحت یابی ڈنڈے کی محتاج۔ جہاں، ایک ہی مارکیٹ میں مُولی، سلیپر، ریش رنگنے والی برگنڈی مہندی، بوٹ پالش اور بال صفا پائوڈر کا ہر دُکان کا اپنا اپنا ریٹ نہ ہو۔ دنیا میں کوئی ایسا پارلیمان نہیں جہاں چار چار گھنٹے طویل تقریر کی جا سکے اور آخر میں مقرر کہے، ''ہمیں بولنے نہیں دیا جاتا‘‘۔ خود اپنے دستِ مبارک سے بنائے ہوئے چیف الیکشن کمشنر اور اپنے دستخطوں سے لگائے ہوئے چیئرمین احتساب کو ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ہو۔
2019 کی آخری سہ ماہی میں تو فیک نیوز کا سیلاب آ گیا۔ سنسرشپ کی حد یہ ہوئی کہ ایک ''ارسطو‘‘ نے پاکستان کی First Family میں شادی ٹوٹ جانے کی خبر ٹی وی شو پر بیٹھ کر لِیک کی مگر جب اُسے مجاز عدالت نے ازالۂ حیثیتِ عرفی کے قانون میں طلب کیا‘ تو وہ اپنے ہی اعلان سے یُو ٹرن لے کر مُکر گیا۔ مولانا آ رہا ہے۔ عمران جا رہا ہے۔ مولانا ایک نہیں 3 استعفے لے گا۔ چلئے 'رات گئی، بات گئی‘ کہہ کر ''مٹّی پائو‘‘ کر لیتے ہیں۔ 
2020 کے پہلے ہفتے میں فیصل آباد موٹر وے پر پہلے سپیشل اکنامک زون کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔ چائنیز ٹرانس نیشنل اور پاکستانی سرمایہ کار 4 سو ارب روپے کی انویسٹ منٹ کریں گے۔ سی پیک چلنے سے دوڑنے کی پوزیشن میں چلا جائے گا۔ اس ایک SEZ سے 3 لاکھ جابز پیدا ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ قانون احتساب کا ہو‘ زینب الرٹ والا یا عسکری سربراہوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا‘ سب فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ سالِ نو پر لوگوں نے پاکستان کے حوالے سے امید کا نیا دِیا جلا دیا۔ اتنی آتش بازیاں ہوئیں کہ اندھیرے فروش دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ یہ وطن آزار کچھ لوگ کب باز آئیں گے؟ یا اُن کا 2020 یونہی چلتا رہے گا۔
دلآزاری بھی ایک فن ہے 
اور کچھ لوگ تو
ساری زندگی اسی کی روٹی کھاتے ہیں
چاہے اُن کا برج کوئی ہو
عقرب ہی لگتے ہیں 
تیسرے درجے کے پیلے اخباروں پر یہ 
اپنی یرقانی سوچوں سے
اور بھی زردی ملتے رہتے ہیں
مالاباری کیبن ہوں یا پانچ ستارہ ہوٹل
کہیں بھی قے کرنے سے باز نہیں آتے
اوپر سے اس عمل کو 
فقرے بازی کہتے ہیں
جس کا پہلا نشانہ عموماً
بِل ادا کرنے والا ساتھی ہوتا ہے
اپنے اپنے کنوئیں کو بحرِ اعظم کہنے اور سمجھنے والے 
یہ ننھے مینڈک 
ہر ہاتھی کو دیکھ کر پُھولنے لگتے ہیں
ہاتھی کی آنکھوں پر پھبتی کسنے لگتے ہیں
کوّے بھی انڈے کھانے کے شوق کو اپنے
فاختہ کے گھر جا کر پُورا کرتے ہیں
لیکن یہ وہ سانپ ہیں جو کہ
اپنے بچے خود ہی چٹ کر جاتے ہیں
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ
سانپوں کی یہ خصلت
مالکِ جنّ و انس کی، انسانوں کے حق میں
کیسی بے پایاں رحمت ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved