ہم اُس نئے سال میں داخل ہوئے ہیں جو اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا آغاز بھی ہے۔ یہ میڈیا اور اطلاعات کا دور ہے۔ اُن ممالک میں جہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو سیاسی نظام کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی آزادی ہو وہاں حکومتوں کو اپنی کارکردگی کے حوالے سے اکثر اوقات سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں بھی کسی جمہوری حکومت کو میڈیا کے تبصروں سے پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نئے برس کیلئے پیش گوئیوں کی بنیاد سالِ گزشتہ میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ ہوتا ہے۔ 2019ء میں حکومت پاکستان کی کارکردگی کے جائزے کی بنیاد پر یہ کہنا زیادہ مشکل نہیں کہ 2020 بھی حکومت اور عوام کیلئے مُشکل ثابت ہوگا۔ اگر حکمران درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے انتہائی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے اور عوام کو وہ سماجی و معاشی ریلیف فراہم نہیں کرتے، جس کی انہیں اشد ضرورت ہے، تو سالِ گزشتہ میں ہم نے جو کچھ بویا 2020 میں وہ ریاست اور سماج کیلئے ڈرائونا خواب بنا رہے گا۔
2019ء میں کچھ معاملات میں مثبت پیشرفت بھی ہوئی تھی۔ ان میں ایک ''احساس‘‘ پروگرام ہے، بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ بھی جاری ہے، ہیلتھ انشورنس کارڈ، نوجوانوں کیلئے قرضے، لاہور اور دو دیگر شہروں میں رات گزارنے کیلئے پناہ گاہوں کا قیام۔ ان پالیسی اقدامات کی بدولت کچھ لوگوں کو ریلیف بھی ملا؛ تاہم عوامی فلاح کے ایسے پروگرام عموماً اس وقت غیرفعال ہو جاتے ہیں جب حکومت کی توجہ ان سے ہٹے‘ ان کیلئے درکار فنڈز میں کمی ہو جائے‘ ان پروگراموں میں کرپشن اور بدانتظامی جڑ پکڑ لے یا حکومت تبدیل ہو جائے۔ ایسے اقدامات کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ دیرپا بندوبست کرے۔ اسے نوجوانوں اور دیگر لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع میں اضافہ کی جانب توجہ دینی چاہیے تاکہ ان لوگوں کیلئے قابلِ عزت زندگی کا مستقل ذریعہ بن سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے پروگرام میں توسیع کو اپنی اوّلین ترجیح بنائے اور اس کیلئے صحت و تعلیم کی موجودہ سہولیات میں بہتری کے علاوہ نئی سہولیات کا اجرا بھی شامل ہو تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی ان سے مستفید ہو سکے۔ سماجی ومعاشی ترقی کے تین پہلو، روزگار کے مواقع، صحت کی سہولیات اور معیاری تعلیم، کسی بھی سماج میں بہتری لانے کیلئے اہم ترین عناصر ہیں۔
عالمی سطح پربھی حکومت نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ مسئلہ کشمیر اُجاگر کیا۔ پاکستان کا امیج بہتر بنایا اور پرانی حکومتوں کے قرضے چکانے کیلئے نئے قرض حاصل کیے۔ اس کی وجہ سے ناصرف پاکستان عالمی سطح پر دیوالیہ ہونے سے بچا بلکہ بہتر معاشی انتظام کیلئے درکار ماحول بھی تشکیل دیا۔ درآمدات کے حوالے سے سخت پالیسی اور برآمدات میں اضافے سے تجارتی توازن‘ اور اس کے سبب ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئی اور مجموعی خسارہ کم ہوا۔ نئے برس کا چیلنج یہی ہے کہ ان رُجحانات کو جاری رکھا جائے۔
جہاں تک بات ہے مقامی سیاست کی تو نیاسال نہ صرف برسر اقتدار پی ٹی آئی کے مستقبل میں سیاسی امکانات کا تعین کرے گا بلکہ یہ اس بات کا فیصلہ بھی کرے گا کہ پاکستان میں جمہوریت لڑکھڑائے گی یا پھلے پھولے گی۔ 2019ء میں جمہوریت کی کمزوری بہت نمایاں رہی۔ پاکستانی سیاست میں سیاسی تقسیم اور قطبیت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے سرگرداں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمان کمزوری کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اب بھی بڑے لیڈروں کی ذاتی سلطنتوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہاں اپنی آزاد سوچ کے اظہار سے زیادہ اہم چیز سیاسی رہنما سے وفاداری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو پارلیمان میں دلچسپی نہیں کہ وہ قانون بنانے کے سپریم ادارے کے طور پر اپنا حقیقی کردار ادا کرے۔ اکثر متحارب سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی کو نچلے درجے کا ایسا تقریری ایوان بنا دیتی ہیں جہاں ممبران اکثر بد زبانی و سخت کلامی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے پارلیمانی آداب کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کچھ ممبران کی مہارت ہی مخالف جماعت کے رہنمائوں کی تقاریر میں رُکاوٹ ڈالنا اور سپیکر ڈائس کے سامنے پر شور احتجاج کرنا ہے۔
سیاسی رہنمائوں کو درپیش سنجیدہ ترین نوعیت کے چیلنجز میں ایک یہ ہے کہ کس طرح ایوان کا وقار بحال کیا جائے اور کیسے ممبران کو سکھایا جائے کہ وہ پارلیمانی جمہوریت کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ کیا حکمران پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کی جماعتیں، سویلین سیاسی اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے کیلئے کسی ورکنگ ریلیشن شپ پر متفق ہو سکتی ہیں؟ سال کے اختتام پر جے یو آئی نے، وہ سیاسی جماعت جس کی بڑی مضبوط مذہبی جڑیں ہیں، اپوزیشن میں کلیدی کردار حاصل کرنے کیلئے کئی سیاسی چالیں چلیں۔ اگرچہ اس کی یہ کوششیں ناکام رہیں؛ تاہم وہ 2020ء میں بھی اپوزیشن میں رہنما کردار حاصل کرنے کیلئے اپنی چالیں چلتی رہے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت جلد گرنے کی پیش گوئیاں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں اور امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت گھسیٹ گھساٹ کر نیا برس بھی نکال جائے گی۔
2019ء کا ایک اور ترکہ، جسے 2020ء میں حل کیے جانے والے مسائل کی ترجیحی فہرست میں ہوناچاہیے، مشکلات سے دوچار معاشی صورتحال اور عوام الناس پر بڑھتا ہوا معاشی دبائو ہے۔ اشیائے ضرورت، دوائیوں، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے عام آدمی کو بہت متاثر کیا ہے۔ چونکہ صنعت اور کاروبار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا تو بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے مجموعی طور پر غربت میںاضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے ان مسائل کا حل تلاش نہ کیا تو 2020ء میں مقبولیت کھو دے گی۔
2020ء میں پی ٹی آئی کو اپنے بارے میں اس تاثر کو بھی دور کرنا ہوگا کہ وہ حکومتی مشینری سے کام لینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ریاستی امورکو بچگانہ انداز میں چلانے کا تاثر اور بیوروکریسی سے کام نہ لے پانے کی وجوہ بری گورننس ہے اور پنجاب کی حد تک بظاہر یہ قیادت کے بحران کا شاخسانہ ہے۔ اگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ اب تک اپنی کُرسی بچانے میں کامیاب ہیں تو اس کی وجہ عمران خان کی یہ ضد ہے کہ انہیں یہی وزیراعلیٰ درکار ہے۔ اگر عمران خان گڈ گورننس اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے متعلق ڈٹے رہے تو 2020ء میں انہیں اس کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔
2018-19ء میںپی ٹی آئی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کر دے گی اور جوکوئی ریاستی وسائل کے غلط استعمال میں ملوث ہوااسے معاف نہیں کیا جائے گا؛ تاہم، 2019ء کے اختتام تک، کسی سیاسی رہنما کو ریاستی وسائل یا سرکاری عہدے کے غلط استعمال پر احتساب عدالت سے سزا نہیں سنائی گئی۔ قومی احتساب بیورو نے مبینہ بدعنوانی کے ہر طرح کے معاملے میں دخل اندازی کی اور 90دن تک کسی بھی شخص کو حراست میں رکھنے کے اپنے اختیار کے بے دریغ استعمال کے ذریعے لوگوں سے الزامات منوانے کی کوشش کی یا انہیں پلی بارگین پر راضی کرنا چاہا۔ جب انہوں نے پی ایم ایل این اور پی پی پی کے کچھ بڑے رہنمائوں اور بڑے کاروباریوں پر ہاتھ ڈالا اور تفتیش شروع کی تو حزب اختلاف نے اسے سیاسی احتساب سے تعبیر کیا۔ اسی طرح کچھ سینئر ریٹائرڈ و حاضر سروس بیوروکریٹس کی گرفتاری نے افسر شاہی کو تائو دلایا۔ حزب اختلاف نے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ اپنے مخالف رہنمائوں کو گرفتار کرا رہی ہے۔ مزید برآں احتساب عدالتوں میں کیس دائر کرنے میں ہونے والی بے جا تاخیر نے بھی احتسابی عمل پر سوالیہ نشان کھڑے کیے۔ نیب کی کارکردگی کے بارے میں ملنے والی مستقل شکایات کے پیش نظر پی ٹی آئی حکومت نے ستائیس دسمبر کو ایک آرڈیننس جاری کیا تاکہ نیب کی لامحدود اتھارٹی پر روک لگائی جا سکے۔ اس کی وجہ سے اکثر معاملات میں نیب کو کردار محدود ہوگیا ہے اور اب احتساب اُسی طور طریقے سے ہوگا جو نیب سے قبل کے دور میں ہوا کرتا تھا۔
2020ء میں حکمرانوں کوسخت چیلنجز درپیش ہوں گے۔ امید ہے کہ وہ گورننس کے اُس انداز میں تبدیلی لائیں گے جو انہوں نے 2019ء میں اختیار کیا۔ وہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دینے والی منڈی کی قوتوں پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ لوگوں کو امید دِلانے اور سماج وریاست میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے ضروری ہے کہ گورننس اور سیاسی مینجمنٹ میں بہتری لائی جائے۔