گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ اس تبدیلی کا ادراک سب کے لیے ضروری ہے‘ خصوصاً پالیسی ساز اداروں کے لیے جن کو تعلیم‘ صحت‘ شہری منصوبہ بندی‘ زراعت اور امن و امان جیسے اہم مسائل پر توجہ مبذول کرنی ہے۔ ہم تواتر سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نہ تبدیل ہوا ہے نہ ہی ہو گا۔ یہ بات درست نہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہونے والے عالمی نظام میں دنیا کا کوئی کونہ مثبت اور منفی رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر نہ کبھی رہا ہے‘ نہ رہ سکتا ہے۔ ہم اکثر تبدیلی کو اپنی خواہشات اور سیاسی نظریات سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ حالات کا جبر اور معروضی مادی حرکیات کا عمل ایسا ہے کہ تبدیلی نہ تو کسی ایک ریاست کی حدود تک مقید رہی ہے‘ نہ ہی زمانے کے تغیرات دنیا کے کسی ایک حصے کے لیے مخصوص ہیں۔ صنعتی انقلاب‘ تجارت میں وسعت اور باہمی انحصاریت نے دنیا کے تمام ممالک کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے؛ اگرچہ ہر ایک کی حیثیت‘ اہلیت‘ معیارِ زندگی‘ سیاست اور معیشت کے نظام اور کارکردگی مختلف ہے۔ عالمی وسعت کی اس بڑھتی ہوئی تحریک کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی معاشرہ اور ریاست جس قدر بھی اپنے آپ کو تنہا کرنے کے لیے بند باندھے‘ بیرونی اثرات ہر حوالے سے گھروں کے اندر در آتے رہے ہیں اور اب در آنے کی اس رفتار میں کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ وجہ سب کو معلوم ہے‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن‘ جو اب قومی نوعیت کے نہیں رہے‘ اور انٹرنیٹ اور سماجی روابط کے کئی دوسرے پلیٹ فارم دنیا کو جوڑنے میں ہر دم مصروف نظر آتے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ تبدیلیوں کے امکانات ختم ہو جائیں‘ افراد اور معاشرہ اپنی پُرانی ڈگر کھو نہ بیٹھیں‘ نئی شناختیں‘ سماجی نظریاتی اور سیاسی تحریکیں جنم نہ لیں۔ وطن عزیز میں دو دہائیوں میں بہت بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ کیا ہیں اور کیوں اور کیسے ان سے بھی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔ آئیے کچھ ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب نئی صدی شروع ہوئی تو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن دو فعال ادارے تھے‘ جنہوں نے ملکی ترقی‘ یکجہتی‘ ثقافت اور فنون لطیفہ کے تحفظ اور پھیلائو میں کلیدی کردار ادا کیا تھا‘ لیکن دونوں ادارے جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کے ہاتھوں میں رائے عامہ بنانے اور ذرائع اطلاعات پر کنٹرول رکھنے کے لیے اہم آلہ کار بھی تھے۔ ذرائع ابلاغ پر حکومتوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔ آج بیس سال بعد سینکڑوں کی تعداد میں ٹیلی وژن چینل ہیں اور ہر سال کئی مزید کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت کو چھوڑ کر دیگر کئی ممالک کے چینل بھی پاکستان میں دیکھے جاتے ہیں۔ پابندی کے باوجود اگر کوئی بھارتی چینلز دیکھنا چاہے تو سب دروازے کھلے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ایک اہم بات اور سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اردو کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں سندھی‘ بلوچی‘ پشتو اور سرائیکی میں بھی مخصوص چینلز قائم ہیں۔ پتہ نہیں کون سا انجانا خوف ہم پہ غالب تھا کہ بیس سال پہلے علاقائی زبانوں میں خبروں کا دورانیہ مضحکہ خیز حد تک مختصر ہوا کرتا تھا۔ اب آزادی ہے کہ ہر علاقائی زبان میں چوبیس گھنٹے‘ ہفتے کے ساتوں دن اور سارا سال پروگرام تواتر سے چلتے ہیں۔ قومی زندگی میں آزادیٔ اظہار کو محض سیاسی نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ثقافتی‘ لسانی اور علاقائی اہمیت بھی ملی ہے۔ اپنے جوہر میں آزادیٔ اظہار محض ایک نوعیت کی رائے نہیں بلکہ ہمہ جہت ثقافتوں اور زبانوں کی مظہر ہے۔ عام ناظرین اور یہاں تک کہ سیاسی کارندے بھی پاکستان کے کثیر جہتی ثقافتی ورثے اور نئے ابھرتے ہوئے امتزاجی رنگوں کے حسن سے ناآشنا ہیں۔
نئے ذرائع ابلاغ نے سیاسی جماعتوں‘ دانشوروں اور صحافیوں کو جو شہرت اور عوام تک جو رسائی مہیا کی ہے اس کی مثال صرف ان ممالک میں ہی مل سکتی ہے جہاں میڈیا تیزی سے پھیلا ہے۔ آج پاکستان کا جو بھی اہم سیاسی رہنما جلسہ کرتا ہے وہ محض اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے خطاب نہیں کر رہا ہوتا بلکہ پوری قوم سے مخاطب ہوتا ہے۔ میری رائے میں میڈیا اگر نہ پھیلتا اور اتنا آزاد نہ ہوتا تو عمران خان کا ابھرنا اور تیسری بڑی سیاسی قوت کا ایوان اقتدار میں جگہ بنانا ممکن نہ ہوتا۔ تبدیلی کا پیغام اور کرپشن کے خلاف بیانیہ برقی لہروں پہ سکرینوں پر ہر گھر میں پہنچا۔ آج بھی ہر قسم کا پیغام اور بیانیہ انہیں ذرائع سے ملک کے کونے کونے میں سنا اور دیکھا جا رہا ہے۔ آج کی سیاست پاکستان کی ہو‘ بھارت کی یا امریکہ کی‘ بیانیے کی سیاست ہے‘ جو صرف برقی ذرائع ابلاغ کے سہارے جیتی یا ہاری جا سکتی ہے۔ یہ غیر معمولی تبدیلی کئی بہتر قومی تبدیلیوں کے لئے معاشرے پر قدامت پسندی کے سب زنگ آلودہ قفل توڑ سکتی ہے۔
تقریباً دس سال قبل نہ سمارٹ فون تھے‘ نہ سوشل میڈیا اور نہ ہی پیغامات کی ترسیل کا نہ ختم ہونے والا رات کا سلسلہ۔ میں تو اس سے تنگ ہوں‘ خوش ہرگز نہیں۔ دوستوں کو ناراض کرنا گوارا نہیں‘ ورنہ انہیں کہہ دیتا کہ جناب اپنے ویڈیو اور سیاسی پیغامات جو زیادہ تر جانبداری اور مخالفین سے نفرت کی عکاسی کرتے ہیں‘ سے خاکسار کو معاف رکھیں۔ اضطراب کے اس دور میں جب جذباتیت سے سب لوگ بے قابو ہو رہے ہیں‘ نفرت پھیلانے سے کوئی دوست گریز نہیں کرتا۔ نئی آزادیاں ہیں‘ عام‘ ان پڑھ اور غریب بھی‘ اگر سمارٹ فون کا ذاتی یا دیگر وسیلہ موجود ہے تو اپنے آپ میں ایک نئی قوت دریافت کر چکا ہے۔ اب اس کی آواز‘ رائے اور تبصرہ برقی لہروں پہ سوار لمحوں میں صرف اپنے ملک کی سرحدوں کے اندر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ سمارٹ فون کی صلاحیت نے کمزور طبقوں‘ خصوصاً عورتوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا ہے۔ اب وہ اپنا دکھڑا اہلِ خانہ کے علاوہ سہیلیوں‘ رشتے داروں اور غمخواروں کو بھی سنا سکتی ہیں۔ ہر جگہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ فارغ‘ آرام اور سکون سے نہیں بیٹھتے‘ نظریں ان کی فون کی چھوٹی سی سکرین پر جمی اور انگلیاں ہر وقت حرکت میں نظر آتی ہیں۔ سطحی طور پر دیکھیں تو یہ سب بیکار‘ فضول‘ وقت کا ضیاع اور پیسے کی بربادی ہی تصور ہو گا۔ ایسا صحیح ہے اور نہیں بھی۔ آج کا کاشتکار ڈیزل یا بجلی کے ذریعے چلنے والے ٹیوب ویل کو حرکت میں لانے سے پہلے موسموں کا پتہ سمارٹ فون کے ذریعے چلاتا ہے۔ موسم کے حوالے سے درست معلومات موجود ہوں تو وہ پانی اور کھاد کی منصوبہ بندی بہتر طریقے سے کر سکتا ہے۔ ہر قسم کے پھلوں کے درخت اور فصلیں اگانے کے طریقے اب درسی کتب تک محدود نہیں‘ گوگل یا یو ٹیوب پر اس حوالے سے وافر معلومات دستیاب ہیں۔ میں من مرضی کی باتیں نہیں کر رہا بلکہ ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ ملک کے کونے کونے میں لوگ نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ فون ہی سے بات چلی ہے تو ایک اور سہولت جو بینکاری کے حوالے سے ہے‘ اور جسے یہ خاکسار بھی استعمال کرتا ہے‘ کا ذکر ضروری ہے۔ اس سے زندگی آسان ہو گئی ہے۔ اب کوئی بھی بل بھرنے کے لیے کسی بینک میں جانے اور قطار میں لگنے کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ سب کچھ آپ گھر بیٹھے سکون سے چند منٹوں میں کر سکتے ہیں۔ اور ہاں کسی کو رقم بھیجنی ہو تو بھی آپ کو باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ آپ اپنے فون سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی ٹکٹ بک کرائیں‘ ٹکٹ خریدیں اور کسی پسندیدہ ریستوران سے کھانا منگوانا چاہیں تو یہ سب فون کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ساری بڑی تبدیلیاں ہیں جو ہمارے اسی معاشرے میں رونما ہوئی ہیں۔
پھر کون سوچ سکتا تھا کہ دو بڑے سیاسی گھرانے سندھ اور پنجاب میں مرکوز ہماری قومی سیاست پر غالب رہیں گے۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہتیں قائم کر لیں گے۔ اس سیاسی گٹھ جوڑ کا غلبہ سب سے پہلے پشتون عوام نے توڑا اور ساتھ ہی مذہب کے نام پر تراشے گئے سیاسی بت بھی۔ پاکستان کی جمہوریت لولی لنگڑی سہی لیکن اس کے اندر ایک تیسری سیاسی جماعت نے جگہ بنائی ہے‘ اس امید کے ساتھ کہ یہ دوسروں سے مختلف ہے۔ ابھی اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا میرے نزدیک قبل از وقت ہے۔ ایک بات زور دے کر کہہ سکتا ہوں‘ یہ کہ جو سماجی اور سیاسی تبدیلیاں ملک میں رونما ہو چکی ہیں وہ پُرانے چہروں اور پُرانی سیاست کو نہیں دھرائیں گی‘ نئی تحریکوں اور نئی سیاسی طاقتوں کو جنم دیں گی۔ پرکھ کارکردگی پہ ہو گی‘ ماضی یا مستقبل کی نعرے بازی پر نہیں۔