تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     04-01-2020

چنگیز خان میں چنگیزیت کے علاوہ کیا تھا؟

ہمارے ہاں اکثر دانشوروں کو شکوہ ہے کہ تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ تاریخ کے بارے میں ہماری بیشتر نصابی اور غیر نصابی کتب میں تعصب و بغض ہے یا پھر بہت سارا مواد گمراہی اور لا علمی پر مبنی ہے۔ یہ بات خاصی حد تک درست ہے مگر یہ صرف ہماری تاریخ تک ہی محدود نہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک و اقوام کا یہی قصہ ہے۔ کئی اقوام کی تاریخ کو حقائق کی روشنی میں نہیں، بلکہ ان کی اپنی تاریخی ضروریات، نظریات و خیالات کے مطابق لکھا گیا ہے۔ اس تاریخ میں بہت ساری چیزیں افسانوی ہیں۔ کئی ایک مغالطے ہیں اور کئی واقعات کو جس انداز میں بیان کیا گیا ہے وہ حقائق سے متصادم ہیں۔ 
دنیا میں معدودے چند قومیں اور ملک ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی تاریخ میں موجود خامیوں اور جھوٹی داستانوں کو نکالا ہے‘ ان میں درستی کی ہے اور سچائی کو جھوٹ سے الگ کر کے پیش کیا ہے۔ یہ زیادہ تر ترقی یافتہ مغربی ممالک ہیں، جہاں علم و تعلیم کو تعصبات سے اوپر اٹھ کر اپنایا گیا ہے۔ ان ممالک میں سوچ و فکر کی آزادی ہے۔ حقائق کو مقدس جان کر ان کا سامنا کیا جاتا ہے، خواہ یہ حقائق ناپسندیدہ اور بدصورت ہی کیوں نہ ہوں۔ ان معدودے چند ممالک کے سوا دنیا کے بیشتر ممالک میں تاریخ پڑھنے پڑھانے کا وہی روایتی رواج ہے‘ جہاں تاریخی واقعات کے علاوہ تاریخی شخصیات کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اپنی پسندیدہ شخصیات اور ان کے کردار کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے اور ناپسندیدہ شخصیات کے کردار کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ لکھنے اور پڑھانے کا یہ متعصبانہ نقطہ نظر ہے، جس میں انتہا پسندانہ جانبداری ہے۔ جس شخص کو پسندیدہ ہیرو قرار دیاجاتا ہے، وہ ہر قسم کی غلطی اور لغزش سے مبرا ہو جاتا ہے۔ جو شخص ناپسندیدہ قرار پاتا ہے، اس میں دنیا بھر کی خرابیاں اور عیب تلاش کر لیے جاتے ہیں۔ یہ اچھے اور برے آدمی کا ایک سطحی تصور ہے، جس کی نذر کئی تاریخی شخصیات ہو چکی ہیں۔ ان شخصیات پر تحقیق کرتے ہوئے جن پر نظر پڑتی ہے ان میں ایک چنگیز خان بھی ہے۔ چنگیز خان کو جو لوگ ہیرو سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک وہ تاریخ کا ایک دیومالائی کردار ہے، جو زندگی کی اچھائیِوں کا مجموعہ تھا، جس کے اندر کسی برائی کا پایا جانا ناممکن تھا۔ دوسری طرف جو لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، ان کے نزدیک وہ تاریخ کا سفاک ترین شخص تھا، جس کے اندر کسی اچھائی کے پائے جانے کا تصور کرنا ہی گناہ ہے۔ یہ چنگیز خان کی شخصیت و کردار کے دو رخ ہیں، جن کو دو لوگ اپنے اپنے نقطہ نظر سے پیش کر رہے ہیں؛ تاہم اگر غیر جانب داری اور تعصابات سے اوپر اٹھ کر دیکھا جائے تو ہمیں چنگیز خان دوسرے انسانوں کی طرح ایک گوشت پوست کا انسان دکھائی دیتا ہے، جس میں کچھ اچھائیاں اور کچھ برائیاں تھیں۔ اس کے برے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے، جن پرگھنٹوں بحث کی جا سکتی ہے۔ اس کے اچھے کاموں کو شمارکرنا ابھی باقی ہے، جن پر حال ہی میں منگولیا میں کام شروع ہوا ہے۔
چنگیز خان جب نو سال کا تھا تو اس کے باپ کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کے قبیلے نے اس کی ماں کو سات بچوں سمیت قبیلے سے باہر نکال دیا۔ یہ وہ دور تھا جب منگولیا میں زندگی قبائل کے ارد گرد گھومتی تھی اور قبیلے کے بغیر زندگی اور بقا کا تصور ہی محال تھا۔ غیر جانبدار تاریخ دانوں کو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ بھوک اور ننگ کا شکار یہ بے گھر بچہ‘ جس کا زندہ رہنا ہی ایک معجزہ تھا، کس طرح آگے چل کر مختلف قبائل کو متحد کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور سلطنت قائم کرنے کا معجزہ دکھاتا ہے۔ اپنے عروج پر منگولیا ایمپائر کو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت مانا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ تینتیس ملین کلومیٹر اور اس کی آبادی سو ملین تھی، جو تیرہویں صدی میں بہت بڑی آبادی تصور کی جاتی تھی۔
دوسری بات جس پر بیشتر تاریخ نویسوں کو حیرت ہے، وہ بدامنی اور جنگ و جدل کے اس دور میں اس وسیع وعریض سلطنت میں قیام امن تھا۔ چنگیزخان اور اس کے پیروکاروں کی قائم کردہ سلطنت جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے مشرقی دنیا کو مغربی دنیا کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ ایشیا اور یورپ کو آپس میں ملانے والی سلک روڈ ایشیا اور یورپ کی تجارتی منڈیوں کو آپس میں ملاتی تھی۔ سلطنت میں امن اور سکیورٹی کا یہ عالم تھا کہ ایک دوشیزہ ہیروں اور جواہرات کا تاج پہن کر چین سے یورپ تک بلا خوف و خطر اکیلی سفر کر سکتی تھی۔
تاریخ دانوں کے لیے تیسری حیرت انگیز چیز عظیم منگول قانون تھا، جس کو یاسا کہا جاتا تھا۔ اس قانون میں ٹریڈ اور کامرس پر سخت قاعدے اور کلیے تھے۔ اس قانون نے قبائلی جنگوں اور لوٹ مار کے کلچر کوختم کرکے سلطنت کے اندر پرامن سفر اور تجارت کا ماحول پیدا کیا۔ اس سخت قانون کی وجہ سے اس وسیع سلطنت میں تاجروں کے لیے تمام تجارتی راستے محفوظ تھے۔ یہ محفوظ تجارتی راستے مشرق میں چین اور مغرب میں برطانیہ تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس طرح چنگیز خان نے ایک ایسے کلچر میں چوری اور لوٹ مار کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا، جس کا اس سے پہلے واحد ذریعہ آمدن ہی لوٹ مار اور چوری چکاری تھا۔
تاریخ دانوں کے لیے پانچویں حیرت انگیز بات یاسا قانون کے تحت مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت تھی۔ سلطنت کے اندر تین بڑے مذاہب یعنی بودھ ازم، عیسائیت اور اسلام کے پیروکاروں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ ان سب کو بلا کسی تفریق پوری سلطنت میں تحفظ اور مساوی آزادی تھی۔ تمام مذہبی پیشوائوں اور عبادت گاہوں پر ٹیکس کی چھوٹ تھی۔ چنگیز خان بذات خود ٹینگرسٹ تھا، جو قدیم ترکوں اور قرون وسطیٰ کی ریاستوں کا مذہب ہے، وہ دن میں کئی بار اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتا تھا۔ وہ دوسرے تمام عقائد کے پیشوائوں سے ان کے مذہبی عقائد اور فلسفے پر اکثر کھلا مکالمہ بھی کرتا تھا، مگر وہ اپنی سلطنت میں مذہبی رواداری پر سختی سے عمل کرتا تھا۔ اس نے اپنی سلطنت میں ہر مذہب کو مساوی مقام اور مساوی آزادی کی ضمانت دے رکھی تھی۔
تاریخ دانوں کے لیے چھٹی حیرت انگیز چیز چنگیز خان کی میرٹ کی پالیسی تھی۔ اس کی سلطنت میں تمام عہدے میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر دیے جاتے تھے۔ اس کے بیشتر فوجی کمانڈر اس کے سابق دشمن تھے، جن سے لڑائی کے بعد ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کو ان عہدوں پر فائز کیا گیا۔ تیرہویں صدی کی ابتدا میں یہ حیرت انگیزبات تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت میں ایک لوہار کا بیٹا فوجی جرنیل بن جائے۔ چنگیز خان کی سلطنت میں ایسا بھی ہوا۔ یہ معجزہ چنگیزخان کے میرٹ پر غیر متزلزل یقین کا نتیجہ تھا۔ وہ عورتوں کی آزادی اور مساوات کے تصورکا بھی قائل تھا۔ اس نے عورتوں کو کئی اہم ذمہ داریاں دے رکھی تھیں۔ چنگیزخان کے بارے میں ہرکوئی یہ جانتا ہے کہ وہ ایک بے رحم شخص تھا، جس نے اپنی سلطنت کے قیام کے لیے کروڑوں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ کئی شہروں کو نیست ونابود کیا۔ اس کی ظلم و بربریت کی داستان زبان زد عام ہے۔ یہ باتیں اس دور کے بیشتر بادشاہوں میں عام تھیں۔ ان باتوں کو بنیاد بنا کر اس کے کئی اچھے کاموں کو مکمل طور پر چھپایا گیا، جن کا جاننا دنیا کے لیے ضروری تھا۔ یہ جانب دارانہ تاریخ نویسی کی ایک بڑی مثال ہے۔
کہا جاتا ہے کہ منگول فتوحات کے دوران تیس ملین لوگ مارے گئے ۔ چنگیز خان کی اس بے رحمانہ عادت پر تاریخ دانوں کا اتفاق ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے پورے کے پورے شہروں کو تاخت و تاراج اور پوری آبادی کو قتل کر دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ مفتوح ملک کے لیڈر کی آنکھوں اور کانوں میں سلور پگھلا کر ڈلوا دیتا تھا۔ مشرق وسطیٰ‘ خصوصاً ایران میں چنگیز خان کو ایک تباہ کن جنگ باز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ان علاقوں میں اس کی مہم جوئی کے دوران دس سے پندرہ ملین لوگ مارے گئے تھے۔ افغانستان میں بھی اس کے مخالفین کی کمی نہیں۔ افغانستان کے ہزارہ کو منگولوں کی باقیات تصور کیا جاتا ہے۔ ایرانی لوگوں کے نزدیک چنگیز خان ہلاکو اور تیمور کو تباہ کن حملہ آور سمجھا جاتا ہے۔ آخری بات یہ کہ چنگیز خان ایک فاتح اور ایک بہادر آدمی تھا‘ جس میں خامیوں کے ساتھ ساتھ کچھ خوبیاں بھی موجود تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved