تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-05-2013

دھاندلی، مِیرا کی والدہ اور مولانا فضل الرحمن

بعدازالیکشن دھاندلی کا شور، ہمارے ہاں ایک رواج بھی ہے اور حقیقت بھی۔ مگر ہرہارنے والا جب دھاندلی کی دہائی دیتا ہے تو حقیقی دھاندلی بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کی غالب اکثریت زمینی حقائق کے مطابق درست ہے مگر اس کے باوجود بہت سے حلقوں میں الیکشن کی شفافیت ایک سوال طلب مسئلہ ہے ۔ الیکشن کے نتائج بھی اکثر اندازوں سے ہٹ کر ہیں مگر سیٹوں کی تعداد سے ہٹ کرپارٹی پوزیشن وہی ہے جس کا اندازہ تھا۔ مسلم لیگ ن کے بارے یہی تاثر تھا کہ وہ سب سے بڑی انفرادی پارٹی ہوگی تاہم گمان غالب تھا کہ اسے سو کے لگ بھگ سیٹیں ملیں گی اور ایک ملغوبہ قسم کی مخلوط حکومت بنے گی جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار سیاسی عمل پر حاوی ہوگا اور یہ حکومت شاید سال ڈیڑھ سال سے زیادہ نہیں چل پائے گی اور مڈٹرم الیکشن ہوں گے۔ بے شمار تجزیہ نگاروں کی مانند مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ اب نئے حالات کے تناظر میں اپنے کسی کالم یا تحریر سے کوئی ایک سطر ایسی نکال کر جس میں موجودہ صورتحال کا کوئی پہلو نکلتا ہو اپنے تجزیے کی درستی کی دھاک بٹھانے کی کوشش کروں۔ میرا ذاتی خیال بھی یہی تھا کہ موجود صورت حال میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی پارٹی کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہوگی۔ ازل کی سودے باز پارٹیاں ، اسٹیبلشمنٹ اور پنڈی والے معاملات کو اپنے ڈھب پر چلانے کی کوشش میں سارا سیاسی نظام تلپٹ کردیں گے۔ اندازوں اور تجزیوں کی غلطی ایک طرف، لیکن خدا کا شکر ہے کہ معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ نتائج کو توقعات کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے اور انہی توقعات کے حوالے سے تحریک انصاف کے کارکنوں کا ردعمل بہت شدید ہے۔ نوجوان بہت زیادہ پرامید بھی تھے اور پرجوش بھی۔ میں سیاسیات کا طالبعلم ہوں اور میں نے گزشتہ پچیس سال میں ہونے والے سات انتخابات (بشمول الیکشن 2013ء) میں کبھی کسی پارٹی ورکر کو اتنا پرجوش ، متحرک، جذباتی اور بے لوث نہیں دیکھا جس قدرتحریک انصاف کے نوجوانوں کو دیکھا۔ اس حوالے سے ان کی امیدیں بھی اتنی ہی زیادہ تھیں اور وہ نتائج کے بارے میں بہت ہی زیادہ توقعات لگائے بیٹھے تھے۔ انہی حقائق کے حوالے سے شاید ان کی توقعات حقیقت سے بڑھ کر تھیں مگر ایسی بھی نہ تھیں کہ جنہیں یکسر رد کردیا جائے۔ الیکشن والا سارا دن میں لاہور میں تھا اور بارہ بجے کے بعد سڑکوں پر تھا۔ لاہور میں کم ازکم دوحلقوں میں صورتحال ہرگز ویسی نہ تھی جیسی نتائج میں نظر آئی۔ فیصلہ محض دوتین ہزار ووٹوں میں ہوتا تو بات شاید دل کو لگتی مگر پچاس فیصد سے زائد نتائج آنے تک دو تین ہزار ووٹوں سے جیتنے والے رات گئے اچانک پندرہ بیس ہزار ووٹوں سے ہارگئے۔ لودھراں کے ایک حلقے میں آخرتک ہزاروں ووٹوں سے جیتنے والا امیدوار آخری پانچ چھ پولنگ سٹیشنوں سے اس طرح ہارا کہ ہزاروں ووٹوں کی عددی اکثریت بھی ختم ہوگئی اور وہ پندرہ ہزار ووٹوں سے ہارگیا۔ دھاندلی اجتماعی حوالے سے نہ بھی ہوئی ہو مگر انفرادی طورپر بہت سی جگہوں پر دیکھنے میں آئی۔ کراچی کا معاملہ ذرا مختلف ہے کہ وہاں دھاندلی کا طریقہ صرف دھاندلی نہیں بلکہ دھونس دھاندلی ہے اور اس پر آواز اٹھانا ایک ایسا سنگین جرم ہے جس پر لندن سے براہ راست تنبیہی پیغام آتا ہے۔ اینکرز کو چتائونی دی جاتی ہے اور انجام سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ بھلا جہاں تنقید اور تجزیے کو آزادی میسر نہ ہو وہاں انتخابات کیسے آزادانہ ہوسکتے ہیں؟ یوٹیوب پر چلنے والے کلپس، جگہ جگہ پکڑے جانے والے بیلٹ پیپرز ، رات گئے الٹ پلٹ ہوتے ہوئے نتائج اور بے حدتاخیر سے مکمل ہونے والی گنتیاں ، یہ سب کچھ بتاتی ہیں کہ دال میں سب نہ سہی کہیں کہیں کالا ضرور ہے۔ کم ازکم پندرہ بیس فیصد حلقوں میں دھاندلی کے شواہد موجود ہیں۔ گزشتہ انتخابات کو سامنے رکھیں تو معاملات بہتری کی طرف گامزن نظر آتے ہیں مگر ابھی بے شمار بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ الیکشن کمیشن وہ کچھ نہیں کرپایا جس کی اس سے توقع تھی۔ بے شمار پولنگ سٹیشنوں پر عملے کی ملی بھگت ، دھاندلی اور زور آوری کے واقعات ہوئے مگر فوج اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ جس امیدوار کا جہاں زور چلتا تھا اس نے چلایا۔ انفرادی دھاندلی تقریباً اسی پیمانے پر ہوئی جس طرح پہلے ہوتی تھی لیکن یہ لوکل ارینجمنٹ (Local Arrangement) تھے اور ابھی ان کا توڑ سیاسی وابستگیوں کے حامل سرکاری افسروں کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔ کہیں امیدواروں نے یہ بندوبست پیسے کے زور پر کرلیا۔ تحریک انصاف عملی طورپر پہلا الیکشن لڑرہی تھی اور اس کے نوجوان ورکرز کے پاس انتخابی تکنیک سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت اور تجربہ صفر تھا۔ مقابل پارٹیوں کے پاس چھ سے زائد انتخابات کا تجربہ تھا۔ الیکشن ڈے کُل انتخابی معرکے کا پچاس فیصد ہوتا ہے اور یہاں تحریک انصاف کے کارکنوں کے پاس سوائے جوش، جذبے، خلوص اور جذبات کے کچھ بھی نہیں تھا۔ کئی حلقوں میں تجربے اور تکنیک نے جذبے، خلوص اور جوش کو آئوٹ کلاس کرکے رکھ دیا۔ جب انتخابی عمل بیلٹ بکس تک محدود ہوجائے تب صرف تجربہ، تکنیک، دھونس، دھاندلی اور پیسہ کام دکھاتا ہے۔ خلوص اور جوش سڑکوں کے کنارے نعرے لگاتا رہ جاتا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج بارے بے شمارتجزیے اور لاتعداد نظریے ہیں۔ شوکت گجر کا خیال ہے کہ یہ امریکی ڈیزائن شدہ نتائج ہیں جس میں ہرصوبے میں علیحدہ پارٹی کی حکومت ہے ۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف ہے‘ پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن ہے‘ سندھ میں پیپلزپارٹی ہے اور بلوچستان میں ملی عوامی پارٹی اور ن لیگ ہیں۔ایک عرصے بعد ایسا ہوا ہے کہ فضل الرحمن اینڈ کمپنی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اس بات پر مولانا فضل الرحمن پیچ وتاب کھارہے ہیں اور ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کے پی کے میں دھاندلی ہوئی ہے۔ چودھری بھکن سے گزشتہ روز ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ چودھری یہ مولوی فضل الرحمن کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے؟۔چودھری ہنسا اور کہنے لگا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ وہی ہوا ہے جو بہاولنگر میں اداکارہ میرا کی والدہ کے ساتھ ہوا ہے۔ میں نے پوچھا میرا کی والدہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ چودھری کہنے لگا اس کے بیلٹ بکسوں میں سے کم ووٹ نکلے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کے بکسوں میں سے بھی کم ووٹ نکلے ہیں۔ میں نے پوچھا اور وہ دھاندلی والا کیا معاملہ ہے ؟چودھری کہنے لگا میرا خود الیکشن لڑتی تو شاید چالیس پچاس ووٹ زیادہ نکل آتے مگر اب ایک ایسی اداکارہ جو خود ضعیفی کی طرف مائل ہے اس کی ضعیف ترماں کو کتنے ووٹ مل سکتے ہیں ؟میں تو حیران ہوں کہ اس کے اڑھائی سو ووٹ بھی کیسے نکلے؟ دولت گیٹ سے ایک بار بلدیاتی انتخابات میں حاجی صاحب کونسلر کے لیے کھڑے ہوئے اور ہارگئے۔ اگلے دن حاجی صاحب واویلا کررہے تھے کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوگئی ہے۔ پتہ چلا کہ حاجی صاحب کے سات ووٹ نکلے ہیں۔ حاجی صاحب کا موقف تھا کہ ان کے گھر کے ذاتی ووٹ گیارہ ہیں اور سارے کاسٹ ہوئے ہیں۔ ان کے گھر کے چارووٹ کہاں گئے ؟ کسی ستم ظریف نے آہستہ سے کہا حاجی صاحب !آپ کے دامادوں اور بہوئوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیئے۔ حاجی صاحب کے گھر میں کئی دن فساد پڑا رہا۔ میرا کی ماں اس عمر میں حاجی صاحب سے کہیں بہتر رہی ہے۔ اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ رہ گئے مولانا فضل الرحمن تو ان کے ساتھ کئی ظلم ہوئے ہیں۔ ایک‘ ان کی عرصے سے قائم حکومت سازی کی دکانداری ختم ہوگئی ہے۔ دوسرا‘ ان کے فتووں کے باوجود پی ٹی آئی ان کے صوبے میں جیت گئی ہے۔ تیسرا میاں نواز شریف نے چوالیس سیٹوں کی ’’اقلیت‘‘ کے مقابلے میں ان کی پارٹی کی بارہ سیٹوں پر مشتمل ’’اکثریت‘‘ کو اپنے دستِ شفقت سے محروم رکھا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریک انصاف نے ان سے بات کرنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ مولانا کے ساتھ ایسا پچھلے اڑھائی عشروں میں نہیں ہوا تھا۔ میں ذاتی طورپر مولانا فضل الرحمن کے غم میں شریک ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved