تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-01-2020

چینی کے بعد کپاس اور اب گنا

گزشتہ سال میں نے کپاس اور کپاس کے بیج پر ایک مفصل کالم لکھا۔ میں نے کپاس کی فصل کی صورتحال کے پیش نظر اپنا اندازہ ظاہر کیا کہ کپاس کی آئندہ فصل( 2019ء) ایک کروڑ گانٹھ تک بمشکل پہنچے گی۔ میرے ایک قاری نے میرے اندازے کا بڑا بُرا منایا اور ایک لمبی چوڑی ای میل کی اور مجھے میرے غلط اندازوں پر بڑا مطعون کیا۔ میں خاموش رہا کہ مجھے یقین تھا کہ میرا اندازہ جو سراسر فیلڈ رپورٹ یعنی کھیت کی صورتحال کے مطابق لگایا گیا تھا‘ درست ثابت ہوگا‘ لیکن یہ بات تب تک درست ثابت نہیں ہو سکتی تھی جب تک کپاس کی فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں نہ آ جائے اور حتمی اعداد و شمار سامنے نہ آ جائیں۔ اب اعداد و شمار تقریباً فائنل ہو گئے ہیں اور کپاس کی ملکی پیداوار ایک کروڑ گانٹھ تو رہی ایک طرف ‘ نوے لاکھ کے قریب آئی ہے۔
گزشتہ سال کپاس کی ملکی پیداوار ایک کروڑ آٹھ لاکھ گانٹھیں تھیں۔ گزشتہ سال کپاس کی فصل کے حساب سے ایک خراب سال تھا۔ حالیہ سال اس حوالے سے خراب ترین سال ہے۔ ہمارے بالکل ہمسائے میں بھارت کی کپاس کی فصل سال بہ سال بہتری کی طرف جبکہ ہماری کپاس کی فصل مسلسل گراوٹ اور تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ بیس سال قبل بھارت کی کپاس کی پیداوار ایک کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ تھی جو آج تین کروڑ پچاس لاکھ گانٹھ کے آس پاس ہے۔ یعنی دوگنا ہو چکی ہے۔ جبکہ ہماری کپاس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے نوے لاکھ گانٹھ پر پہنچ چکی ہے اور ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی روئی کی ضرورت ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے زیادہ ہے۔ اس حساب سے اگر دیکھیں تو اس سال ساٹھ لاکھ گانٹھ کے لگ بھگ روئی درآمد کرنا پڑے گی۔ اس ساٹھ لاکھ گانٹھ کی قیمت کی مد میں پاکستان کو دو ارب ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ دو ارب ڈالر یعنی تین سو ارب روپے سے زیادہ۔
پاکستان میں کپاس کی بربادی کے پیچھے جو عوامل ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر صرف ایک فیکٹر ہے اور وہ یہ کہ کپاس حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ بات صرف موجودہ حکومت کے حوالے سے نہیں کر رہا بلکہ سب کی سب گزشتہ حکومتیں اس نالائقی میں شامل تھیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں ریکارڈ مزید خراب کر لیا ہے۔ ابھی تک ٹیکسٹائل پالیسی فائنل نہیں ہو سکی۔ مہینوں پہلے ایک ہائی لیول کانفرنس میں NDU یعنی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نے ایک تحقیقی پالیسی پیپر بنا کر اس کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اس پیپر پر بعد میں رتی برابر پیش رفت نہ ہوئی اور کوئی جامع کاٹن پالیسی یا ٹیکسٹائل پالیسی ابھی تک نہیں بن سکی۔ اس پر عملدرآمد تو بعد کی بات ہے۔
دراصل حکومت میں شوگر مافیا کی گرفت بڑی مضبوط ہے۔ یہ معاملہ بھی صرف موجودہ حکومت پر منطبق نہیں ہوتا۔ یہ وہ مافیا ہے جو ہر حکومت میں شامل رہا ہے اور بڑا زور آور ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس مافیا کے چیف صاحبان ہر حکومت کا بذات خود حصہ رہے ہیں بلکہ ماضی میں تو حکمران براہ راست اس مافیا کے رہے ہیں۔ پاکستان کی بیشتر شوگر ملوں کے مالکان خود حکمران‘ ان کے رشتہ داراور ان کے خاندان کے لوگ ارکان اسمبلی رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح شوگر ملز کو چلانا‘ گنے کو اونے پونے خریدنا‘ چینی کو اپنے ہی ایجنٹوں کے ہاتھوں کم ریٹ پر خرید کر سیلز ٹیکس وغیرہ بچانا اور پھر مہنگے داموں فروخت کرنا ہے۔ تھوڑے دن پہلے میں نے اسی موضوع پر ایک کالم لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ پینتالیس روپے فی کلو والی چینی کو پچہتر روپے فی کلو گرام بیچ کر عوام کی جیب سے بیٹھے بٹھائے اڑتالیس ارب روپے نکال لیے گئے۔ اب اس مافیا نے گنا سستے بھائو خریدنے کی غرض سے شوگر ملوں میں کرشنگ بند کر دی ہے اور کاشتکار اپنا گنا کھیت میں برباد ہوتا دیکھ رہا ہے۔ اس مافیا کا موجودہ سرغنہ کون ہے‘ سب کو معلوم ہے۔ ملی بھگت کے باعث شوگر ملیں کئی دنوں سے بند ہیں اور کوئی کاشتکار کا پرسانِ حال نہیں ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے شوگر ملز کی لوٹ مار ‘ گنے کی خریدپر ادائیگی میں تاخیر اور بے جا کٹوتیوں سے تنگ آ کر بالآخر کاشتکاروں نے اس سال گنے کی کاشت میں کمی کر دی۔ اس کی وجوہات بڑی سادہ تھیں۔ گنے کی فصل زیادہ تھی اور مل مالکان کاشتکار سے گنا اپنی من مانی قیمت پر خریدتا تھا اور ادائیگی کے لیے کاشتکار کو ذلیل و خوار کرتا تھا ۔ تنگ آ کر کاشتکار گنے کی فصل کے متبادل فصلات پر آ گیا اور امسال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کی نسبت کافی کم ہے۔ اب ہوا یہ کہ گنا کم تھا اور ضرورت زیادہ۔ وہی ازلی ''سپلائی اینڈ ڈیمانڈ‘‘ والا کلیہ حرکت میں آ گیا۔ ملوں میں گنا خریدنے کا معاملہ شروع ہو گیا اور گنا اپنے سرکاری ریٹ 190 روپے فی من کے بجائے دو سو روپے من سے بھی زیادہ پر خرید کیا جانے لگا۔ شوگر مافیا نے حساب کیا کہ اس طرح تو ان کا منافع کم ہو جائے گا۔
اندازہ کریں کہ گزشتہ سال 190 روپے فی من گنا خرید کر چینی پینتالیس روپے کلو فروخت ہوتی تھی جو اَب پچہتر روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے‘ یعنی ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ قیمت بڑھ چکی ہے ‘لیکن شوگر مافیا گنے کی قیمت میں تھوڑی سی بہتری آنے پر دوبارہ اکٹھا ہو گیا اور مشترکہ طور پر ساری ملیں بند کر دی ہیں۔ اب گنا کھیتوں میں تیار کھڑا ہے اور کئی جگہوں پر کٹ بھی چکا ہے لیکن شوگر مافیا نے ملیں بند کر دی ہیں۔ بے چارے کاشتکار کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کرے؟ حکومتی سطح پر کہیں کوئی ہلچل نہیں کہ کاشتکار پر کیا بیت رہی ہے کہ ''نزلہ بر عضوِ ضعیف‘‘ والی بات ہے اور اس ملک میں سب سے مظلوم طبقہ کاشتکار ہے۔ اگر فصل زیادہ ہو جائے تو بیوپاری سے لے کر مل مالک تک اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اسے لوٹ لیتا ہے اور اگر فصل کم ہو جائے تو اول تو اس کی لاگت ہی پوری نہیں ہوتی اور اگر ریٹ بہتر ہو جائے تو مل مالکان ایکا کر کے اس کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ فی الوقت یہی صورتحال در پیش ہے۔
ابھی کاشتکار کپاس کے صدمے سے ہی نہیں نکل سکا تھا کہ گنے کے بیلنے میں اس کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ کپاس کی فصل کی بربادی نے پہلے ہی اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ کپاس کی تباہی میں حکومتی نا اہلی اور نالائقی کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ایک عرصے سے کپاس کا اچھا بیج میسر نہیں۔ پتا لپیٹ وائرس نے ایک عرصے سے ملکی کپاس کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے ‘ابھی تک اس کا کوئی مؤثر علاج ہمارے زرعی سائنسدانوں کے بس میں نہیں آیا۔ گلابی سنڈی کا معاملہ ہاتھ سے باہر ہے۔ اچھی جننگ اس ملک میں ایک خواب ہے۔ فائن دھاگے کی تیاری کے لیے درکار لمبے ریشے والی کم مائیکرون کی روئی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ کھاد کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ جیسے جیسے فی ایکڑ کپاس کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے ویسے کپاس کا زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں فی ایکڑ کمی اور کپاس کے مجموعی زیر کاشت رقبے میں کمی کا براہ راست نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں روئی کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چلانے کے لیے‘ جو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ملک کیلئے سب سے زیادہ زر مبادلہ کمانے والا شعبہ ہے‘ ڈیڑھ کروڑ گانٹھ روئی درکار ہے جو بتدریج کم ہوتے ہوتے نوے لاکھ گانٹھ پر آ گئی ہے اس سال تین سو ارب کی روئی درآمد کرنا پڑے گی جس کا بوجھ ملکی خزانے پر پڑے گا اور دوسری طرف شوگر ملیں بند کر کے گنے کا ریٹ کم کروایا جائے گا اور گنے کے کاشتکار کو لوٹا جائے گا۔ اس لوٹ مار کا سارا پیسہ مل مالکان کی جیب میں جائے گا۔ خسارے میں صرف کاشتکار رہے گا یا ہم لوگ‘ جو ملیں بند کر کے سستا گنا خرید کر پچہتر روپے فی کلو گرام فروخت ہونے والی چینی خریدیں گے۔ اس لوٹ مار پر شور کا بھی اب کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ حکومت کی نیند اتنی گہری ہے کہ بعض اوقات تو شک پڑتا ہے کہ کہیں ''کچھ‘‘ کھا کر ہی نہ سو رہی ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved