تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     05-01-2020

جَوتی: گوگل کیمپس کی مہربان روشنی

بعض دفعہ زندگی کے سفر میں کوئی ہمیں کچھ دیر کے لیے ملتا ہے لیکن اس کی شخصیت کا طلسم ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ جَوتی بھی مجھے یوں ہی ملی تھی‘ اچانک‘ کچھ دیر کے لیے‘ لیکن یوں لگتا ہے اس کا سایہ ابھی تک میرے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ شاید 2015ء کی بات ہے‘ مجھے امریکہ کی یونیورسٹی میں سین ہوزے (San Jose) سے دعوت آئی تھی اور دعوت کا محرک پروفیسر مارک ایڈمز تھا۔ اسلام آباد سے ابوظہبی میں ساڑھے تین گھنٹوں میں پہنچ گیا لیکن ابوظہبی سے لاس اینجلز کا تقریباً سترہ گھنٹوں کا سفر تھا۔ ائیرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے مارک موجود تھا۔ اونچا لمبا قد اور چہرے پر ایک سدا بہار مسکراہٹ۔ ائیرپورٹ سے ہوٹل تک کا سفر مارک سے گفتگو میں گزرا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور مجھے اردگرد کے منظروں کی تفصیلات بھی بتاتا جا رہا تھا۔ اس نے سین ہوزے (San Jose) شہر کے بارے میں بتایا کہ یہ کیلی فورنیا کی مشہور سلیکان ویلی (Silicon Valley) کا سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی مرکز ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے سلیکان ویلی (Silicon Valley) نے کیلی فورنیا کی شہرت میں اضافہ کیا ہے۔ اس روز شام کو میں اور مارک ایک کیفے کے باہر رکھی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ چھٹی کا دن تھا اور سرخ اینٹوں سے بنی چوڑی سٹریٹ پر لوگ آ جا رہے تھے۔ کچھ دیر میں فٹ پاتھ پر ایک شخص گٹار بجانے لگا۔ آتے جاتے لوگ اس کے سامنے اس کے پاس ایک لمحے کو رکتے اور پھر فٹ پاتھ پر پڑے اس کے ہیٹ میں سکے ڈال کر آگے روانہ ہو جاتے۔ اتنی دیر میں کافی آ گئی اور مارک مجھے سلیکان ویلی کے بارے میں بتانے لگا۔ اگلے کچھ دن یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں لوگوں سے ملنے میں گزرے۔ ایک روز میں نے مارک سے پوچھا: کیا یہ ممکن ہے کہ میں گوگل (Google) کا ہیڈکوارٹر اندر سے دیکھ سکوں؟ مارک نے کہا: ضرور۔ اور پھر اگلے روز مارک اور میں گوگل ہیڈ کوارٹر جا رہے تھے۔ مجھے کیا معلوم تھا‘ وہیں میری ملاقات ایک لڑکی سے ہو گی جس کا نام جَوتی ہو گا اور جس کو میں کبھی بھلا نہیں پائوں گا۔
وہ اگست کا ایک روشن دن تھا اور ہم مارک کی گاڑی میں گوگل ہیڈ کوارٹر جا رہے تھے۔ تقریباً 26 ایکڑ پر مشتمل گوگل کی عمارتوں کے اس جھرمٹ کو گوگل کمپلیکس کہتے ہیں۔ یہ اپنی وسعت اور دلچسپیوں کے لحاظ سے ایک مکمل شہر ہے۔ یہاں آپ کو کئی طرح کے ریستوران ملیں گے‘ کھیلوں کے لیے والی بال کا میدان ہے‘ جم ہے‘ گیم رومز ہیں‘ باکسنگ ہال ہے‘ بائولنگ ایلی (Bowling Alley) ہے۔ لانڈری‘ شاورز اور Nap Pods بھی میسر ہیں۔
ایک عمارت سے دوسری عمارت تک فاصلہ اچھا خاصا ہے‘ اس کے لیے ہر عمارت کے سامنے سائیکل سٹینڈز پر رنگ برنگ سائیکلیں کھڑی ہیں۔ یہ سارے رنگ گوگل کے ہیں۔ آپ سائیکل لے کر دوسری عمارت جائیں اور وہاں سائیکل چھوڑ سکتے ہیں۔ میں نے اس روز ایک عرصے بعد سائیکل چلائی۔ ایک عمارت کے سامنے پہنچ کر مارک رک گیا۔ کہنے لگا: یہاں ہماری یونیورسٹی کی ایک سابق طالبہ کام کرتی ہے۔ مارک نے اسے کل فون کرکے بتایا تھا کہ ہم گوگل ہیڈکوارٹر میں آ رہے ہیں اور اگر ممکن ہوا تو تم سے بھی ملیں گے۔ مارک نے فون پر اطلاع دی۔ کچھ دیر میں ایک لڑکی شیشے والے مین گیٹ پر آئی۔ شکل و صورت سے وہ جنوبی ایشیا کی لگ رہی تھی۔ دبلا پتلا جسم‘ ہونٹوں پر مسکراہٹ اور سانولے چہرے پر بڑی بڑی خوب صورت آنکھیں۔ دروازہ کھول کر وہ ہمیں لینے کے لیے باہر آئی تو مجھے دھچکا سا لگا۔ اس کے ہاتھ میں سفید چھڑی تھی جس کی مدد سے وہ راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔ مارک نے آہستہ سے کہا: وہ دیکھ نہیں سکتی۔ کیا؟ میں نے حیرت سے کہا۔ مارک نے میرا ہاتھ دبایا۔ اتنی دیر میں وہ ہم تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے اپنا تعارف کرایا۔ اس کا نام جَوتی تھا۔ اب وہ آگے آگے چل رہی تھی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ ہم لفٹ کے ذریعے اس منزل پر پہنچے جہاں اس کا دفتر تھا۔ ایک میز کے اردگرد بیٹھ کر مارک نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ اس نے مسکرا کر کہا: امید ہے آپ کا سفر اچھا گزرا ہو گا اور امید ہے آپ کو ہمارا شہر اچھا لگا ہو گا۔ مارک نے کہا: جَوتی ہماری یونیورسٹی کی بہادر لڑکی ہے‘ لیکن میں جَوتی کی کہانی اس کی زبانی سننا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی خواہش کا اظہار کرتا جوتی اپنی جگہ سے اٹھی اور ہم سے پوچھا: آپ چائے لیں گے یا جوس؟ پھر مجھے یوں لگا اس کے ہاتھوں کی انگلیاں جیسے دیکھ رہی ہوں۔ اس نے ایک ٹرے لگائی‘ اس میں مختلف جوس رکھے اور بسکٹ‘ اور ٹرے لے کر واپس آ گئی۔ میں نے کہا: مارک نے مجھے بتایا ہے‘ آپ یونیورسٹی کی بہادر سٹوڈنٹ تھیں‘ اپنے بارے میں کچھ بتائیں گی؟ جَوتی نے کہا: مارک تو میری حوصلہ افزائی کے لیے کہتے ہیں‘ میں تو بس ایک عام سی لڑکی ہوں ایک عام سے گھر میں پیدا ہوئی‘ میرے والدین سائوتھ انڈیا سے یہاں آئے تھے‘ میں یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی‘ سب کچھ معمول کے مطابق تھا‘ بطور طالب علم میرے سامنے تین اہم ٹارگٹس تھے‘ پہلا یہ کہ میں نے اپنی ڈگری چار سال میں مکمل کرنی ہے‘ دوسرا یہ کہ اچھا GPA حاصل کرنا ہے‘ اور تیسرا یہ کہ ویک اینڈ پر کام نہیں کرنا بلکہ دوستوں رشتہ داروں سے ملنا جلنا ہے‘ لیکن ایک روز میں صبح اٹھی تو ہر چیز دھندلی دھندلی نظر آ رہی تھی۔ میں سمجھی کچھ دیر کی بات ہے سب ٹھیک ہو جائے گا‘ لیکن دھندلا پن باقی رہا۔ ویک اینڈ پر میں والدین کے پاس گئی اور ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے فوری سرجری کا کہا‘ لیکن سرجری کے بعد بھی میری بینائی واپس نہیں آئی۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن میرے والد اور گھر والوں نے مجھے حوصلہ دیا۔ میرے والد نے کہا‘ خود پر یقین رکھو تم اپنے خواب اب بھی حاصل کر سکتی ہو۔ میں نے 6 ماہ بریل سیکھی۔ میرے اساتذہ نے بھی مجھے سپورٹ کیا اور پھر میں نے 3.8 جی پی اے کے ساتھ وقتِ مقررہ میں انفارمیشن مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کی۔ اس دوران یونیورسٹی کے Accessibility Centre میں مجھے عارضی طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ڈگری کے بعد میرے والد نے کہا‘ تم اپنی جاب ڈسکرپشن خود لکھو اور مختلف کمپنیوں کو بھیجو۔ میرے بھائی نے میرا CV گوگل میں کسی کو دیا تھا۔ میرے لیے وہ دن بڑی خوشی کا دن تھا جب مجھے گوگل ہیڈ کوارٹر سے انٹرویو کال آئی۔ انٹرویو بہت اچھا ہوا۔ میں نے بتایا کہ میں جس تجربے سے گزری ہوں‘ میں چاہتی ہوں گوگل میں Accessibility Centre کی فیلڈ میں کام کروں۔ اس طرح کی جاب گوگل میں نہیں تھی لیکن مجھے منتخب کر لیا گیا اور مجھے کہا گیا کہ میں اپنے آئیڈیا پر کام کروں۔ یہ 2006 کی بات ہے اور اب تو یہاں ایک مکمل سیکشن بن گیا ہے۔ یہاں میں پروگرام منیجر ہوں اور اس سیکشن کو لیڈ کر رہی ہوں۔ 
میں اس بہادر لڑکی کی جدوجہد کی کہانی انہماک سے سن رہا تھا۔ میں اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ ایک دھان پان سی لڑکی جو مصیبتوں کے پہاڑ چیر کر اس مقام تک پہنچی تھی‘ جہاں تک پہنچنے کے خواب کتنے ہی لو گ دیکھتے ہیں۔ جَوتی کی کہانی سنتے ہوئے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اب جانے کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے اس بہادر لڑکی سے پوچھا: جَوتی تمھیں معلوم ہے تمہارے نام کا مطلب کیا ہے؟ اسے خاموش دیکھ کر میں نے کہا: جَوتی کا مطلب ہے روشنی۔ اور تم واقعی روشنی ہو جس سے کتنے ہی لوگوں کی دنیا روشن ہو رہی ہے۔ وہ یہ سن کر مسکرا دی اس کی مسکراہٹ میں ایک طمانیت‘ ایک تشکر اور ایک افتخار تھا۔ وہ ہمیں واپسی پر لفٹ تک چھوڑنے آئی۔ پھر لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو اس کا چہرہ بھی چھپ گیا۔ اب اس بات کو گزرے ایک عرصہ بیت گیا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ بعض دفعہ زندگی کے سفر میں کوئی ہمیں کچھ دیر کے لیے ملتا ہے لیکن اس کی شخصیت کا طلسم ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ جَوتی بھی مجھے یوں ہی ملی تھی‘ اچانک‘ کچھ دیر کے لیے‘ لیکن یوں لگتا ہے اس کا سایہ ابھی تک میرے ساتھ چل رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved