چوری کے مینڈیٹ سے بنی اسمبلی کو قانون
سازی کا حق نہیں دے سکتے: مولانافضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''چوری کے مینڈیٹ سے بنی اسمبلی کو قانون سازی کا حق نہیں دے سکتے‘‘ جبکہ اس اسمبلی نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ براہِ کرم اُسے قانون سازی کا حق مرحمت فرمائیں‘لیکن میں نے صاف انکار کر دیا ہے اوراُدھر میں نے اپنے بھائی سے بھی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا کہہ رکھا ہے ‘جبکہ اس نے بھی تین چار سال کی مہلت مانگ لی ہے‘ جو میں نے سینے پر پتھر رکھتے ہوئے دے بھی دی ہے‘ اسی طرح اگر وزیراعظم مجھ سے مہلت مانگ لیتے تو میں انہیں اتنی ہی مدت کے لیے وزیراعظم رہنے کی درخواست قبول کر لیتا اور مجھے بھی اس قدر شرمندگی اٹھانا نہ پڑتی‘ لیکن انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے رجوع کرنے سے فی الحال اجتناب کیا ہے‘ تاہم توبہ کے دروازے کی طرح میری اجازت کا دروازہ بھی کھلا ہے‘ جس سے وہ کسی وقت بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ ورنہ مجھے دوبارہ دھرنے اور مارچ شروع کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔ اوپر سے دونوں بڑی پارٹیوں نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف معاملات پر حکومت کو سپورٹ کرنے کا عندیہ ظاہر کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں کور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
وزیراعظم قوم کو مسلسل بیوقوف بنا رہے ہیں: ذکر اللہ مجاہد
امیر جماعت اسلامی لاہور ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم قوم کو مسلسل بیوقوف بنا رہے ہیں‘‘ حالانکہ اسے ایک ہی بار بیوقوف بنایا جانا ہی کافی تھا‘ کیونکہ یہ مستقل مزاج قوم ہے اور ایک بار ہی بیوقوف بنایا جانا کافی تھا‘ اس لیے وزیراعظم کو چاہیے کہ ایسے فضول کاموں پر اپنا وقت ضائع نہ کریں‘ کیونکہ اگر وقت ہی ضائع کرنا ہے تو دیگر ملکی معاملات پر کر لیا جائے اور چونکہ آج ہمارے امیر سینیٹر سراج الحق صاحب نے اپنا معمول کا حکومت مخالف بیان نہیں دیا ہے‘ جس سے ان کا حافظہ خراب ہونے کا قوی اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کی جگہ میں بیان دے رہا ہوں؛ اگرچہ ہم میں سے کوئی بھی بیان دیتا ہے‘ حکومت پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوتا‘ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیان ہی نہ دیا جائے؛ چنانچہ میں بھی یہ بیان آزمائشی طور پر ہی دے رہا ہوں کہ دیکھیں حکومت پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ جبکہ امیر صاحب ویسے بھی آج کل سرینگر پر چڑھائی کا پروگرام بنانے میں مصروف ہیں‘ جس کے بغیر ان کا خیال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ‘کیونکہ حکومت اگر اعلانِ جنگ نہیں کرتی تو وہ اس سے کوتاہی کے مرتکب کیوں ہوں؟آپ اگلے روز اسلام آباد میں سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی انجینئر اخلاق احمد کی صاحبزادہ کی تقریب ِنکاح کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
درستی
محبی رانا محبوب اختر نے اپنے ایک کالم میں میرا ایک شعر اس طرح درج کیا ہے؎:
ظفرؔ ہم کیا‘ ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہا ہوں
جبکہ اصل شعر اس طرح سے ہے ؎
ظفرؔ ہم کیا ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں
صاحب ِ موصوف نے میری ایک ریکارڈ کی درستی کے حوالے سے فارسی کا یہ شعر دوبارہ درج کیا ہے: ؎
حیدریم‘ قلندرم مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
اس بارے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ ''حیدریم‘‘ کو صیغۂ جمع ہی میں پڑھا جائے گا‘ جو کہ غلط ہے‘ جبکہ شاعر کا مطلب ''حیدریم‘‘ سے مراد ''میں حیدری ہوں‘‘ ہے۔ اس لیے حیدریم کی بجائے ''حیدری ام‘‘ لکھا اور پڑھا جانا چاہیے اور اگر حیدریم کو ''حیدری ام‘‘ کے طور پر بھی پڑھا جانا مقصود ہو تو اس پر تشدید لگانی پڑے گی‘ یعنی ''حیدریمّ‘‘ جو کہ دُور کی کوڑی لانے کے مترادف ہوگا ‘جبکہ خالی ''حیدریم‘‘ پڑھنے سے وزن بھی پورا نہیں ہوتا۔
مزید درستی یہ ہے کہ میرے کل کے کالم میں میری غزل کا ایک شعر اس طرح سے درج ہو گیا : ؎
جس طرح ہمارے کام سے برکت ہی اٹھ گئی
اگلا سا بات میں وہ اثر ہی نہیں رہا
اس کا پہلا مصرعہ اس طرح پڑھا جائے: ع
جس طرح سارے کام سے برکت ہی اٹھ گئی
اور اب‘ آخر میں ابرار ؔاحمد کی یہ نظم:
آنکھیں ترس گئی ہیں
اس گھر میں/ یا اُس گھر میں/ تو کہیں نہیں ہے / دروازے بجتے ہیں/ خالی کمرے‘ تیری باتوں کی خوشبو سے بھر جاتے ہیں/ دیواروں میں/ تیری سانسیں سوئی ہیں/ میں جاگ رہا ہوں/ کانوںمیں/ کوئی گونج سی چکراتی پھرتی ہے/ چاندنی رات میں ڈوبے ہوئے / پھولوں کی مہک ہے‘یہیں کہیں پر/ تیرے خواب‘ مری بے سایہ زندگی پر/ بادل کی صورت جھکے ہوئے ہیں/ یاد کے دشت میں/ آنکھیں کانٹے چُنتی ہیں/ میرے ہاتھ‘ ترے ہاتھوں کی ٹھنڈک میں ڈوبے رہتے ہیں/ جانے تیری مٹّی میں/ گھُل مل جانے تک/ کتنے پل‘ کتنی صدیاں ہیں/ اس سرحد سے اُس سرحد تک/ کتنی مسافت اور پڑی ہے/ ان راستوں میں کتنی بارشیں برس گئی ہیں/ آنکھیں میری/ تیری راتوں کو ترس گئی ہیں!
آج کا مقطع
مار ڈالے گی محبت ہو کہ مہنگائی‘ ظفرؔ
زندگی دونوں کے ہاتھوں سر بسر مشکل میں ہے