تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-01-2020

Disaster in the Making

بابل اور نینوا کی سرزمین 3 حوالوں سے انسانی تہذیب کی طویل ترین تاریخ رکھتی ہے۔ پہلا، طاقت کے حصول کے لئے لڑی جانے والی بے رحم ترین خونیں جنگیں۔ دوسرا، بیرونی حملہ آور، صلیبی چاہے دور کے ہوں یا قریبی پڑوسی بخت آزما۔ تیسرے، ایسے الم انگیز انسانی المیے (Tragedies) جنہیں صدیوں سے بُھلایا نہیں جا سکا‘ ما سوائے مُرادِ رسولﷺ، سیدنا عمر ابنِ الخطاب رضی اللہ عنہ اور غازی سلطان، حضرت صلاح الدین ایوبیؒ کی فتوحاتِ القدس کے‘ جن میں نہتوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور سویلین شہریوں کا قتلِ عام نہیں ہوا۔
آج سے تقریباً 98 سال پہلے یکم نومبر 1922 کو بُدھ کے روز سلطنتِ عثمانیہ (Ottoman Empire) کیا ٹوٹی کہ مسلم سرزمینوں پر قسط در قسط قیامتیں ٹوٹ پڑیں۔ ساتھ مسلم اقتدار کی کمر بھی ٹوٹ گئی۔ وہ اقتدار جس کے پھریرے کبھی نیل کے ساحل سے لے کر ویانا اور جبرالٹر تک لہرایا کرتے۔ اس طرح پولیٹیکل اسلام کے پاور (Dynamics) بھی بدل گئے۔ جس کا گھوڑا اور گھڑ سوار جتنا دوڑ سکتے تھے وہ اُتنا ہی بڑا 'پادشاہ‘ بن گیا۔ T.E.Lawrence مشہور برطانوی spy-master نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب دُنیا میں سازشوں کا جال پھیلایا اور لوکل آپریٹرز بھرتی کیے۔ یہ مسلمانوں کی سیاسیاتِ عالم میں عصرِ جدید کا اوّلین المیہ تھا۔ پھر المیہ در المیہ، نے جیسے مسلم اُمّہ کا گھر دیکھ لیا۔ ایک کے بعد دوسری قیامت خیزی کا نزول صحنِ مسلم میں ہوتا چلا گیا۔ 
دوسری جنگِ عظیم کے بطن سے اسرائیل برآمد ہوا۔ پولینڈ کے شہر (Plonsk) میں 16 اکتوبر 1886 کو پیدا ہونے والے David Ben Gurion نے 14 مئی 1948کو ریاستِ اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا‘ جسے امریکہ نے چند گھنٹوں میں اُسی روز بطور ایک خود مختار ملک تسلیم کر لیا۔ یوں صلیبی جنگوں کے بعد، صلیبی باقیات عرب زمینوں کو بانٹنے بیٹھ گئیں۔ عالمی قبضہ گروپوں کی مہربانی سے اسرائیل کا رقبہ آج تقریباً 22 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ دُنیا بھر سے کھینچ کھانچ کر لائی گئی یہودی آبادی تقریباً 87 لاکھ بنتی ہے۔ تل ابیب کو 1948 میں اسرائیل کا عارضی دارالخلافہ بنایا گیا۔ تل ابیب کی بنیاد 11 اپریل 1909 میں 66 یہودی گھرانوں نے رکھی۔ دُور دیس کے مغربی حکمرانوں نے اِسے آہستہ آہستہ ایک شہر بنا ڈالا۔ اور اگلے 2 سے 3 عشروں میں دُنیا کے کونے کونے سے یہودی آباد کار، سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں سہولت کار ڈھونڈ لائے۔ آج اس شہر کی یہودی آبادی یروشلم کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ فلسطینی مسلمان آج بھی اکثریت میں ہیں‘ جسے دبایا جاتا ہے‘ مٹایا جاتا ہے اور چھپایا بھی جاتا ہے۔ 
اس سے اگلا المیہ 1967 میں رونما ہوا۔ عرب و عجم کے مسلمان اس قدر بے کار، کمزور، نادار اور لاچار ہو چکے تھے کہ 45 مسلم ممالک کے کروڑوں مسلمانوں کے مقابلے میں چند لاکھ کی آبادی والے اسرائیل نے مغرب کی پشت پناہی سے قبلۂ اوّل بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ رفتہ رفتہ بیت المقدس کو اسرائیل نے اپنا مستقل دارالخلافہ قرار دے دیا۔ یہاں میں ایک ذاتی کیفیت آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سال 1979 کا موسم سرما تھا‘ جب میں پہلی بار وادیِ یثرب میں خاکپائے رسولﷺ چومتا ہوا مسجدِ قبلتین کے اُس مقامِِ تقدیس پہ حاضر ہوا جہاں اپنے اصحاب کی امامت فرماتے ہوئے، اللہ کے آخری رسولﷺ نے دورانِ نماز اللہ کے حکم سے اپنا رُخ انور بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف پھیرا تھا۔ یوں آپﷺ کی اُمت کا قبلہ حرمِ مکّہ شریف ٹھہرا۔ میرے طالب علمانہ ذہن میں خیال آیا کہ اگر اللہ کے حکم سے، جو سب جانتا اور دیکھتا ہے، مسجدِ قبلیتین کا واقعہ رونما نہ ہوتا تو مسلمان حج کہاں ادا کرتے اور عمرہ کیسے کرتے۔ 
پھر بہارِ عرب رنگ لائی۔ تیونس، الجزائر، لیبیا، مصر، عراق، شام میں مسلمانوں کی لاشوں کے انبار اور مسلم ثقافتوں کے کچرے کے ڈھیر لگ گئے۔ افغانستان، یمن، مینڈا نائو، کشمیر ، بوسنیا، برما ہو یا ایفرو عرب (Afro-Arab) کے علاقے۔ بلیک ہاک ڈائون جیسے اجتماعی قتل کے ہولناک واقعات ہوتے چلے گئے۔ خون ریزی اور غارت گری کا یہ درد ناک سفر ہماری آنکھوں کے سامنے طے ہوا ہے۔
2020 کے پہلے مہینے کی 3 تاریخ کو مشرقِ وسطیٰ میں نئے ( Conflict) کا پہلا گولہ داغا گیا جس کا نتیجہ ایرانی فوج کے اہم ترین کمان دار جنرل قاسم سلیمانی اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کی صورت میں نکلا۔ بغداد ایئر پورٹ پہ ہونے والا یہ وحشت ناک حملہ، ان المیوں کی تازہ قسط ثابت ہو رہا ہے۔ خلیجِ عرب اور خلیجِ فارس پہلے سے ہی باہمی تنائو کا شکار تھے‘ جس میں کمی لانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے سہولت کاری جاری کر رکھی تھی۔ آج امریکہ اور ایران کے مابین Face-off آخری انتہا کو چھو رہا ہے۔ ایرانی قیادت جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کے لئے سخت دبائو میں ہے۔ ایرانی صدر سے تعزیتی ملاقات میں جنرل سلیمانی کی بیٹیوں نے بھی والد کے قتل کا فوری بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ 
یہ سطور لکھتے وقت ایران اور یو ایس لیڈرشپ کی ٹویٹس کے ذریعے war of words کی تفصیل یوں ہے: ایران نے 35 اہم امریکی اہداف اور تنصیبات (Installations and facilities) کو نشانے پر لے لیا۔ ساتھ اعلان کیا‘ ''امریکہ کا دل‘‘ شہرِ تل ابیب بھی ایرانی میزائلوں کے نشانے پہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بولے، ایران نے دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ فورس اور رفتار سے ماریں گے‘ ہم نے دو کھرب امریکی ڈالر نئے فوجی ساز و سامان پر خرچ کیے۔ ایران نے کسی امریکی اڈے یا بیس پہ حملہ کیا تو 52 اہم ایرانی ٹارگٹس اُڑا دیں گے۔ پہلے ایران نے حملہ کیا تھا‘ جس کا جواب دیا۔ دوبارہ حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ 
ابھی تک جنرل قاسم سلیمانی کا ماتم ہو رہا ہے۔ تدفین نہیں ہوئی‘ لیکن جنگی موسیقی کے تاروں سے چھیڑ چھاڑ شروع ہو چکی ہے۔ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح ملیشیا کے سربراہ الشعبی کے دوسرے حملے میں مارے جانے کی خبریں گرم ہیں۔ اور بغداد میں امریکی تنصیبات کے ارد گرد فائرنگ کی اطلاعات بھی۔ 
کینیا کے ساحلی علاقے میں U.S. کینیا کے جوائنٹ بیس کیمپ سمبا (Camp Simba) پر حملے کی خبریں بھی عام ہوئیں۔ یہ امریکن بیس کینیا اور صومالیہ کی سرحدی کائونٹی لامو (Lamu County) میں واقع ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ نے اس صورتِ حال پہ بوجوہ محتاط بیانیہ اپنایا‘ جس کے چند گھنٹے بعد ہی چینی وزارتِ خارجہ نے بھی اُس سے ملتا جُلتا بیان جاری کر دیا۔ دُنیا کی آبادی عمومی طور پر جنگ کے خلاف ہے۔ اسی لئے سڑکوں پہ ہے۔ ہاں البتہ حکومتیں، Expansionist ریاستیں اور اُن کے لئے لڑنے والی پراکسیز (Proxies) کے پاس اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے سب سے اچھا ہتھیار جنگ ہی ہے۔ ہتھیار سے یاد آیا کہ ہتھیار فروش عالمی تاجران میدانِ جنگ کا انتخاب کرنے کے ماہر ہیں۔ مغربی میڈیا میں سے ایک نے دعویٰ کیا کہ جنرل سلیمانی کو مارنے کے لئے ڈرون قطر کی امریکن بیس سے اُڑا تھا۔ یہ سب کچھ مِلا کر دیکھیں تو آپ کو آنے والے وقت میں تباہ کاریوں کی ریسیپی (Receipe) کے علاوہ کچھ اور نہیں دکھائی دے گا۔
کرّہ ارض پہ انسانوں نے نئے سال کی مناجات کا عنوان امن اور سلامتی رکھا تھا۔ لگتا ہے اُسے بھی نظر لگ گئی ہے۔ پاکستان آنے والے خطرات سے آگاہ ہے۔ میں نے جو سُنا اور دیکھا اُس میں چاروں طرف ''بدیشی بیانیہ‘‘ (Foriegn narrative) قبول کروانے کے لئے زور آزمائی ہو رہی ہے۔ کچھ بندگانِ شکم دھمکیاں اور بد خبریاں لے کر متحرک ہیں۔ الحمدللہ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اب کوئی گدھ خواہ کتنا ہی بھوکا ہو پاکستان اُس کی شکار گاہ نہیں بنے گا۔ 
نئی جنوری ہے، نیا سال ہے
وہی ہڈیاں ہیں، وہی کھال ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved