گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سیاسی تناؤ عروج پر تھا ۔حزبِ اختلاف وفاقی حکومت کی رخصتی کی بشارتیں دے رہی تھی اور وفاقی وزراء پیپلز پارٹی کی سندھ میں قائم حکومت کے خاتمے کی نوید سنارہے تھے ۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے آئینی تقاضوں کے باوجودوزیر اعظم حزبِ اختلاف کو منہ لگانے کے لیے تیار نہیں تھے ‘ اسی سبب الیکشن کمیشن کا آئینی ادارہ نامکمل ہے‘ بلکہ مفلوج ہوکر رہ گیا ۔ قانون سازی کے لیے معمول کادستوری طریقہ اختیار کرنے کی بجائے پے در پے صدارتی آرڈیننس جاری کیے جارہے تھے اور حزبِ اختلاف ایوانِ صدر پر '' آرڈیننس فیکٹری‘‘ کی پھبتی کستی تھی ۔ عدالت ِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سالارِ اعظم کے منصب کی مُدت کے تعین اور اس میں توسیع کی بابت معروف طریقے سے پارلیمنٹ میں قانون سازی کیلئے حکم جاری کیا ‘ مگر حکومت نے اس پر عمل در آمد کی بجائے سپریم کورٹ میں ''ریویو پٹیشن ‘‘ دائر کردی ۔ یہ بھی حزبِ اختلاف کو منہ نہ لگانے اور پارلیمنٹ کو ''بائی پاس ‘‘ کرنے کا ایک طریقہ تھا ‘پھر صدارتی آرڈیننس جاری کردیا ‘ پھر اچانک حکمت ِ عملی میں تبدیلی نظر آئی اور سالارِ اعظم کے منصب کی مُدت کے تعین کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کا فیصلہ ہوا توابتدا میں اس کیلئے بھی عجلت پسندی کا طریقہ اختیار کیا گیا ۔ بقول نظیر اکبرؔ آبادی :؎
کچھ دیر نہیں ‘ اندھیر نہیں ‘ انصاف اور عدل پرستی ہے
اِس ہاتھ کرو‘ اُس ہاتھ ملے‘ یاں سودا دست بدستی ہے
پس حکومت نے سوچا ہوگاکہ اس قانون کے لیے حزبِ اختلاف کومنہ کیوں لگائیں ‘ ہرایک دماغ کے دریچے بند کرکے اور آنکھیں مِیچ کر انگوٹھا لگادے گا ‘ ہرایک کو جان کی امان چاہیے ۔چیرمین سینٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں غیبی کرامات کا سب مشاہدہ کرچکے ہیں ‘ عددی برتری کسی غیبی اشارے سے کم بھی ہوسکتی ہے ‘ شیخ رشید احمد یہ بات واضح طورپر کہہ چکے تھے ‘ مگر لگتایہ ہے کہ بااختیار ادارے نے اس معاملے کو ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ‘کیونکہ حکومت اوروزارتِ قانون کی بے تدبیری سے مسئلہ حل تو ہوجاتا ‘لیکن اس طریقۂ کار سے یہ تاثر پیدا ہوتاکہ سالارِ اعظم کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر قومی اتفاقِ رائے نہیں اور یہ صاحب ِ منصب اور ادارے کے وقار کے شایانِ شان نہ ہوتا ‘لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ نوٹیفکیشن جاری کرتے وقت پے درپے جو بے تدبیریاں کی گئیں ‘ اُن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے وفاق کو مُوچھیں نیچے کرنی پڑیں ‘اسی طرح ہمارے سیاسی قائدین کی عمومی بے حسی کے باوجود پے در پے تجربات کے نتیجے میںراولپنڈی سے پارلیمنٹ کی جانب آنے والے غیبی اشارات کو سمجھنے کے حوالے سے پارلیمنٹیرین کی حِس کافی تیزہوگئی ہے اور اُن کے لیے ''مافی الصدور ‘‘ کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ‘تاہم اُنہوں نے ایک بے ضرر سی خواہش ضرورکی کہ اُن کی بھی اشک شوئی ہو اور کم ازکم علامتی طورپر لگے کہ ہمارے نظام میں پارلیمنٹ بھی وجود رکھتی ہے‘لہٰذا اُس کے مُقتدر ہونے کاکوئی تاثر جانا چاہیے ‘ جبکہ وفاقی حکومت ہتھیلی پہ سرسوں جمانا چاہتی تھی ۔ ہماری رائے میں ہمارے دفاعی اداروں اور سالارِ اعظم کے منصب کے شایانِ شان یہی ہے کہ اُن کی توسیع کی بابت پارلیمنٹ کے اندر یا باہر اختلاف کا تاثر پیدانہ ہو۔ہمارے گرد وپیش جو حساس صورتِ حال ہے ‘ اُس کا تقاضابھی یہی ہے ‘ قومی وحدت کو حکمرانوں کی اَنا کی بَھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے ۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں مجوزہ قانون سازی کے لیے چھ ماہ کا وقت دیاہے ‘ ایک ماہ تو حکومت نے خود ضائع کردیا ‘ لیکن اب بھی وقت میں گنجائش موجود ہے‘ لہٰذا یہ کام باوقار طریقے سے انجام دینا بہتر ہے ‘ اس صورت میں عدالت ِ عظمیٰ میں نظرثانی کے لیے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ حکومت کے لیے یہ بھی بہتر ہے کہ لگے ہاتھوں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر بھی اتفاقِ رائے سے کرلیاجائے۔
الغرض بحرِ سیاست کی موجوں میں جو سکوت آیاہے ‘ اسے دیرپا ثابت ہونا چاہیے ‘ تفہیم وتَفَہُّم کی اسی فضا میں دیگر قومی معاملات کو بھی اتفاقِ رائے سے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کوبھی فَعّال رکھنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ یہ تاثر پیداہوکہ ریاست کے سارے ستون اپنی اپنی جگہ اپنا کردار اداکررہے ہیں ‘ موجودہ دورانیے میں پارلیمنٹ پہلے سے بھی زیادہ بے عمل اور بے توقیر ہوچکی ہے ۔ سینیٹ سیکریٹریٹ نے وارننگ بھی دی ہے کہ پارلیمانی سال میں سینٹ کو جتنے دن فَعّال رہنا چاہیے ‘ اُس کے تقاضے پورے نہیں ہورہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کوبھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ حکمرانی کی طاقت پارلیمنٹ ہی سے کشید کرتے ہیں۔ فواد چودھری صاحب ابتدا میں تو پی ٹی آئی کے فائٹنگ سکواڈ کے کمانڈو کے طورپر نہایت جارحانہ انداز میں سامنے آئے ‘ لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے وہ کافی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کررہے ہیں ‘ ایسالگتاہے کہ آئین اور قانون کے تقاضوں کا اُنہیں ادراک ہے ‘ وہ پارلیمنٹ کو بھی فَعّال دیکھنا چاہتے ہیں اور اداروں کوبھی اپنی حدود میں رہنے کا درس دے رہے ہیں ۔ یہ اچھی علامت ہے؛ بشرطیکہ رویے میں یہ تبدیلی کسی عارضی ضرورت کے تحت نہ ہو۔بعض شخصیات منصب سے عزت پاتی ہیں‘ لیکن منصب سے معزول ہونے کے بعد گوشۂ گمنامی میں چلی جاتی ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چودھری ‘ جسٹس ثاقب نثارکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔اس کے برعکس بعض شخصیات سے منصب کو عزت ملتی ہے ‘ جب وہ منصب چھوڑ تے ہیں تو لوگوں کے دلوں میں اُن کی عزت پہلے سے بڑھ جاتی ہے اور اُن کے کارناموں کو ایک مثالیے (Ideal) کے طورپر یادرکھاجاتاہے۔
وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کا تاثر ایک غیر جذباتی اور سنجیدہ شخص کارہا ہے ‘ اُنہیں آئین وقانون کا ماہر سمجھا جاتاتھا ‘ وہ عام سیاست دانوں کی طرح مغلوب الغضب ہوکر بات نہیں کرتے تھے ‘ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وزارت میں آنے کے بعد اُن کے وقارمیں اضافہ نہیں ہوا ‘ بلکہ اُن کے بارے میں پہلے سے قائم تاثر (Image)کو کافی نقصان پہنچا ۔ ہمارے ہاں مختلف شعبوں میں رجالِ کار یا مثالی شخصیات کا ویسے بھی فُقدان ہے۔سو‘ مثالی نہ سہی ‘کسی بھی درجے میں جو بہتر شخصیات دستیاب ہیں ‘اگر اُن کا وقار و اعتباربھی مجروح ہوجائے ‘ تو یہ ایک طرح کا قومی نقصان ہے ‘ جیسے اعتزازاحسن صاحب پر نواز شریف صاحب سے نفرت کا اتنا غلبہ ہواکہ کینسر کے مُہلک مرض میں مبتلا بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور ہارلے سٹریٹ لندن میں واقع اس ہسپتال کا ہی انکار کر بیٹھے ‘جس میں اُن کا علاج ہورہاتھا‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے '' کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر بر انگیختہ نہ کرے ‘ انصاف کرو ‘یہی شِعار تقوے سے قریب ترین ہے ‘‘(المائدہ:8)۔ الغرض اُن کی وزارت میں آئینی وقانونی معیارات کا پامال ہونا ہمارے لیے ایک بدنما داغ ہے ‘ بہت سی باتوں کی فاسدتاویلیں ''عذرِ گناہ بدتر ازگناہ ‘‘ کا مصداق ہوتی ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی قانونی ٹیم کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں رہی ‘اٹارنی جنرل جناب انور منصور خان اتنے مغلوب الغضب ہوجاتے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ کا مقدمہ بھی حکومت کے لیے بدنامی کا سبب بنا ۔ کاش کہ ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹک فورس یونیفارم میں شہریار آفریدی صاحب کے برابر نہ بیٹھے ہوتے ‘اس سے اُن کے اور ادارے کے وقار میں اضافہ نہیں ہوا ۔ رانا ثناء اللہ صاحب کونفرت کی حد تک نا پسندکرنے والے سیاست دانوں اورصحافیوںنے بھی اس مُقدمے کو جعلی قرار دیا ‘اب یہ تاثر دیاجارہاہے کہ کسی نہ کسی طورپر اسے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی ‘ بہتر ہے کہ اس کی بساط لپیٹ دی جائے ‘ کیونکہ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔چیرمین نیب کی عزت ووقار میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا ‘ بلکہ کمی آئی ہے ‘ حیرت ہوتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج کے منصب پر فائز رہنے والے شخص کی ذہنی ساخت آئین وقانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم نہیں ہوتی۔ بقول غالبؔ :؎
سو پُشت سے ہے پیشۂ آباء سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
ادارۂ قومی احتساب کی تشکیل میں منفی مقاصد کارفرماتھے ‘ اس لیے یہ کبھی بھی مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا ۔ اب‘ چونکہ وفاقی حکومت نے اپنی ضرورت کے تحت اس کی اصلاح کا فیصلہ کرلیاہے ‘تو بہتر ہے کہ اتفاقِ رائے سے جامع اصلاح کی جائے‘اس میں عدل کے اسلامی اصولوں اور جدید فلسفۂ عدل کے مسلَّمات کے خلاف چیزیں موجود ہیں۔ فواد چودھری صاحب کی یہ رائے بھی درست ہے کہ ہمارے یہاں ایک ہی مقصد کے لیے قائم اداروں کی بہتات ہوگئی ہے ‘ ہرایک کا اپنااپنا بیوروکریٹک سیٹ اَپ ہے ‘ بعض اوقات ایک دوسرے کی حدود میں دخل اندازی(Overlapping) ہوتی رہتی ہے‘ انتظامی اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں ‘ امریکا نے داخلی سلامتی کے سارے اداروں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے ''ہوم لینڈ سکیورٹی ‘‘ کا ادارہ بنادیا ‘ جس سے مرکزیت پیداہوئی ۔
آج کے کالم میں درج گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اگر حالات کے جبر کے تحت بحرِ سیاست کی موجوں میں ٹھہراؤ آہی گیاہے تو بہتر ہے کہ اسے قائم رکھا جائے اور ملکی حالات کو بہتر بنانے پر پوری توجہ مرکوز کی جائے ‘ آپس میں لڑنے اور محاذ آرائی کے لیے بہت وقت پڑاہے ‘ یہ شوق کسی وقت بھی پورا کیاجاسکتا ہے ‘لیکن گردوپیش کے حالات اور بین الاقوامی تناظر میں ملک کے اندر سیاسی اور معاشی استحکام کو ترجیح ِاوّل کا درجہ حاصل ہونا چاہیے ۔