تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     06-01-2020

یہ تحریک اب رک نہیں سکتی!

سابق امریکی صدر جے ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ ''پرُامن انقلاب کو ناممکن بنانے والے پرُتشدد انقلاب کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے شروع ہونیوالے احتجاجی مظاہرے اب‘ پورے بھارت میں پھیل چکے ہیں۔ دہلی سے لے کر بھوپال اور کان پور سے لے کر گوا تک کی گلیاںمودی مخالف عوام سے بھری ہوئی ہیں۔کشمیر کی کہانی اب‘ باقی بھارت میں دہرائی جارہی ہے ‘ کیونکہ مسئلہ دونوں جگہ ایک سا ہی ہے۔
کسی بھی تحریک کیلئے مزاحمت ایندھن کا کام دیتی ہے ۔ جب حکومت مزاحمت کرتی ہے تو لوگ بھی مزاحمت پر اتر آتے ہیں اور احتجاج کی چنگاری پھوٹ پڑتی ہے‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔ حالات قابو سے باہر ہونے پر مودی کو کس چیز نے اکسایا کہ وہ یہ الجھن بھرا سفر جاری رکھیں؟اس کا جواب اُن کے ارادوں میں پنہاں ہے۔ اپنی مرضی مسلط کرنے کی خواہش میں چلی گئی ہر چال خود پسندی اور خبط کے دائرے سے نہیں نکل سکتی۔ تحریک میں شدت آنے کے بعد یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اب ‘مودی سرکار اس سے نمٹنے کا کیا چارہ کرتی ہے؟مبصرین کے بقول ؛بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی اپنے خبط کے جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اُن کی انتخابات میں حیران کن کامیابی نے اُنہیں یقین دلادیا تھا کہ کامیابی کیلئے یہی حکمت ِعملی جاری رکھی جائے۔ اُن کا خیال تھا کہ اب‘ اُن کے ہاتھ وہ پارس کا پتھر آگیا ہے ‘جس سے چھوتے ہی ہر چیز سونے میں تبدیل ہوجائے گی ‘ لیکن اُن سے سرزد ہونے والی تین غلطیوں نے اُنہیں اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنسا دیا؛۔ 
1 ۔ انہوں نے فرض کرلیا کہ جس طرز ِعمل نے یہاں تک پہنچنے میں اُن کی راہ ہموار کی ‘ وہ ہمیشہ کام دے گا۔ انتخابات میں کامیابی اُن کے ناقدین کے علاوہ خود اُن کیلئے بھی حیران کن تھی ۔ خالص طور پر پاکستان مخالف نعرہ لگاتے ہوئے انہوں نے سوچا کہ یہ مخاصمت آمیز جذبات اُن کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھوڑا ہیں‘ جس کے ضربوں سے وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ ملیا میٹ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے عوامی مقبولیت کے سہارے اپنی ساکھ کو مزید مستحکم کرنے کیلئے خود کو ایسے محافظ یا چوکیدار کا لقب دیا‘ جو ہندوستان کو پاکستان سے بچا سکتا ہے۔ اُنہوں نے نعرہ لگایا کہ ہندوستان صرف ہندئووں کیلئے ہے ‘تاہم اس کیلئے اٹھائے گئے قانونی اقدامات کا سخت ردِعمل آیا ۔ ان کی وجہ سے نا صرف بھارت مزید عالمی تشویش کا مرکز بنا‘ بلکہ ملک میں ہر طرف احتجاجی مظاہرے بھی پھوٹ پڑے ۔ 
2۔ نریندر مودی نے فرض کرلیا تھا کہ دیگر اقلیتوں پر ہندو بالا دستی کے جذبات کو زبردست پذیرائی ملے گی۔ ہندوستان میں عمومی رائے شاید یہ تھی کہ مودی نے بہت کامیابی سے کشمیر کی بغاوت کو کنٹرول کرلیا ہے ۔ کشمیر میں احتجاج کو دبانے کیلئے لامتناہی کرفیو اور وحشیانہ محاصرے کے بعد مودی نے اکثریت کی جابرانہ بالا دستی کا کارڈ کھیلا‘ تاہم اس کے نتیجے میں ملک کے دیگر حصوں میں بھی اقلیتوں اور قومیتوں کا احتجاج شروع ہوگیا۔ آسام میں مقیم لاکھوں بنگلہ دیشی مشتعل ہوگئے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ وہ بھی کشمیر کی سی صورت ِحال کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔ 
3۔ مودی نے معیشت پر سکیورٹی کو ترجیح دی۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی معیشت میں یک لخت گراوٹ دیکھنے میں آئی ۔ معاشی شرح نمو 8 فیصد سے کم ہو کر 4.5 فیصد تک آچکی ‘ جبکہ بے روزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس گمبھیر صورت ِحال نے مودی کے انتہائی سخت جان حامیوں کوبھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ مودی غلط راہ پر چل نکلے ہیں۔ آئینی مدت کے اختتام پر الیکشن جیتنے کیلئے قومی سکیورٹی کا نعرہ لگانااور بات ‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کوپہنچنے والے نقصان کو سنبھالنا ‘دوسری بات ہے۔مودی کا کشمیر پر تسلط جمانے‘ اقلیتوں کی رجسٹریشن کرنے اور حراست میں لینے کا خبط اُنہیں اپنی بیمار معیشت کی طرف توجہ دینے کا وقت نہیں دیتا۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کو وہ کچھ نظر کیوں نہیں آتا‘ جو دنیا دیکھ رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فسطائیت سیاسی بصارت اور بصیرت کو سلب کرلیتی ہے ۔ مودی نے ہندو تہذیب کی حیات ِ نو کا نعرہ لگایا تھا۔ اس تہذیب کی جڑیں ہندو ثقافت‘ ہندو اقدار او ر آریا سماج میںگڑی ہیں۔ یہ پرانی تہذیب کا احیاء نہیں ‘ بلکہ ایک قوم کو فسطائیت کا نیا روپ دینے کی کوشش ہے۔اس کی بنیاد نئے سیاسی اور ثقافتی انقلاب پر ہے‘ جس کے پیچھے دراصل بحران اور بدعنوانی کی بے چینی کارفرما ہے ۔ اس انقلاب میں سماج کی اشرافیہ ‘ اونچی ذات کے ہندئووں کو مزید بالا دستی حاصل ہوجائے گی۔آر ایس ایس اس نئے ہندوتوا کی براہ ِراست ذمہ دار ہے۔ آر ایس ایس کے نظریے کی جانچ کرنے سے ہمیں واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ ایک خالص ہندو ریاست قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام ہندو انتہا پسند تنظیموں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے ہی جنم لیا ہے ۔ اس کابنیادی پیغام ''ہندئووں کے درمیان مسلک‘ عقیدے‘ ذات اور سیاسی‘ معاشی یا صوبائی اختلافات کو ختم کرنے کے ایک قوم بنانا‘ اور ہندو سماج کی احیائے نو ہے‘‘ اسی طرح آر ایس ایس کا حلف نامہ اس تنظیم میں شامل ہونے والے ہر رکن پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ''ہندو مذہب‘ ہندو معاشرے اور ہندو ثقافت کو ترویج دے کر بھارت ورش کی عظمت میں اپنا کردار ادا کرے۔‘‘
ہٹلر سے کے تصورات سے اخذکیا گیا یہ فلسفہ دنیا کیلئے حقیقی خطرہ ہے ‘ جو جبر محض کشمیر تک محدود تھا۔ اب‘ اس کے مہیب سایوں نے پورے بھارت کی تمام اقلیتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ‘ اگر یہی صورت ِحال جاری رہی ‘تو اس کے علاقائی اور پھر عالمی کشمکش میں تبدیل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تدارک کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے : 
1۔ مودی کی ہٹلر سے مماثلت کی بھرپور ترویج کی جائے ۔ انسان کو سب سے پہلے اپنا مفاد مقدم ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی تصور پیش کیا جاتا ہے اور اس پر عمل کی ضرورت ہوتی ہے تو سب سے پہلے پوچھا جانے والا سوال یہی ہوتا ہے کہ اس میں میرا مفاد کیا ہے ؟ کئی برسوں تک مسئلہ کشمیر عالمی منظر نامہ سے غائب رہا‘کیونکہ اس کی وجہ سے اربوں انسان متاثر نہیں ہوتے تھے‘ لیکن ہٹلر اور فسطائیت کے موضوعات نے دنیاکے کان کھڑے کردئیے ہیں۔ اب‘ جبکہ مودی نے کشمیر سے آگے بڑھ کر کروڑوں اقلیتوںکو غیرقانونی تارکین ِوطن قرار دینا شروع کردیا ہے تو یہ صورت ِحال دنیا کیلئے انتہائی پریشان کن ہونی چاہیے ‘ جو دنیا کو دوسری عالمی جنگ کے جہنم میں دھکیل سکتی ہے۔ 
2۔ جرمنی کو یہ بات سمجھائی جائے‘ تاکہ یورپ تک یہ صورت ِحال واضح ہوجائے ‘ جس اہم ترین ملک تک یہ پیغام پہنچائے جانے اور اس کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ‘ وہ جرمنی ہے ۔ اس کی وجہ صرف ہٹلر نہیں‘ بلکہ یہ کہ موجودہ جرمن رہنما اور میڈیا اس ایشو پرکھلے الفاظ میںاپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ جرمن ٹی وی نے ایک پوسٹر دکھایا ‘جو ایک احتجاج کرنے والے شخص کے پاس تھا۔ اس پوسٹر میں ہٹلر نے مودی کو اپنی بانہوں میں اٹھا رکھا تھا۔ یہ کارٹون وائرل ہوگیا‘ اور تمام میڈیا میں دکھایا گیا۔
3۔ او آئی سی کو جاگنا ہوگا۔ کوالا لمپور کانفرنس کے مسئلے پر سعودی عرب اور ملائیشیا کے درمیان حالیہ تنائواو آئی سی کو تقویت دینے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ 
الغرض ان احتجاجی مظاہروں میں درجنوں غیر کشمیری بھارتی بھی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس وقت مودی سیاسی طور پر ایک مشکل صورت ِحال کا سامنا کرتے ہوئے دفاعی قدموں پر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکارکو اس رد ِعمل کی توقع نہیں تھی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ از سرِ نو تاریخ رقم کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں ‘ لیکن وہ شاید نہیں جانتے تھے کہ اس کوشش میں وہ انسانی اقدار اور انسانیت کے مخالف سمت کھڑے دکھائی دیں گے۔ اس وقت دنیاکو انسانی اقدار کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved