تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     07-01-2020

آرمی ایکٹ میں ترمیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

فضائیہ‘ بحریہ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کا معاملہ ہر گزرے دن کے ساتھ ایک معما بنتا جارہا ہے۔ آرمی چیف کی توسیع وزیراعظم کا ایک معمول کا اختیار سمجھا جاتاتھا ‘جسے ماضی میں وزرائے اعظم نے بوقتِ ضرورت استعمال کیا اور مارشل لاء لگانے والے جرنیل جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف تو خود کو ہی سالہا سال توسیع دیتے رہے اور ان کے اس اقدام کو نہ تو کبھی چیلنج کیاگیا اور اگرکبھی ایسا ہوا بھی تو اعلیٰ عدالتوں سے پذیرائی نہ مل سکی اور یہ جرنیل بالترتیب گیارہ گیارہ سال اور نو سال تک کیلئے اپنے عہدوں پر فائز رہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی توسیع ابھی کل کی بات ہے‘لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا معاملہ پہلے دن سے ایک سمجھ میں ناآنے والا مسئلہ بنا ہواہے۔گزشتہ ہفتے سروسز ایکٹ میں ترامیم منظور کروانے کیلئے تمام انتظامات مکمل بتائے گئے‘ ہنگامی بنیادوں پر وفاقی کابینہ ‘قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلائے گئے‘ وفاقی کابینہ نے خوشی خوشی اور پلک جھپکنے میں مسودوں کی منظوری دی اور جمعہ کے روز یہ قانون نافذالعمل ہونا تھے۔مسودے دیکھے بغیر ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف نے ان مسودوں کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا؛ البتہ بلاول بھٹو نے قانون سازی کا مروجہ پروسیجر اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔حالات نے پھر انگڑائی لی اورمسلم لیگ (ن) کی غیر مشروط حمایت کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع ہوئی یا شروع کروائی گئی اور پھر مریم صفدرنے بھی ایک دھمکی نما پیغام دیا ‘جس کے بعد مسلم لیگ (ن) آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتی محسوس ہوئی۔میاں نواز شریف کا خط سوشل میڈیا پر پہلے آیا اور پارٹی عہدیداروں کے پاس چھتیس گھنٹے بعد پہنچا۔ مریم بی بی نے لندن میں اپنے والدہ اور قائد نواز شریف سے رابطے کیے اور انہیں اپنے ''مزاحمتی‘‘‘'' نظریاتی‘‘ اور''انقلابی‘‘ بیانیے پر قائم رہنے کا عزم یاد دلایا۔ پارٹی کے اندر نواز اور شہباز کے بیانیے ٹکرانے کی خبریں پھیلائی گئیںاور شہباز شریف نے نواز شریف سے تسلسل کے ساتھ متعدد طویل ملاقاتیں بھی کیں‘ جن میں بیانیے کا ٹکراؤ ہرگز زیر بحث نہیں آیا ‘بلکہ ان ملاقاتوں میں زیادہ سے زیادہ مراعات‘ فوائد اور اقتدار کی راہداریوں میں جلد از جلد واپسی کیسے ممکن بنائی جائے کی حکمت عملی پر بات چیت کی گئی۔ اتنی احتیاط برتی گئی کہ شہباز شریف‘ جو کہ لمبی لمبی گفتگو کرنے کے ماہر ہیں‘ نے مکمل خاموشی اختیار کی کہ کہیں غلطی سے بھی کوئی اندر کی بات زبان پر نہ آجائے۔
مسلم لیگ( ن) کے بدلتے تیور اور سب ثمرات سمیٹے جانے کی خبروں سے پیپلزپارٹی کو بھی ہوش میں لانے کیلئے موقع مل گیا اور بلاول حرکت میں آئے۔ انہوں نے بھی سوچا کہ جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ سب بالا بالا ہی ہورہا ہے اور وہ غیر متعلق ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے بھی پارٹی کا اجلاس بلایا اور چار رُکنی کمیٹی بنا کر اپوزیشن سے رابطے کرنے کی ہدایت کی‘پھر اچانک مولانا فضل الرحمن نے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ اسمبلی جعلی ہے‘ اس لیے اس اہم قانون سازی کیلئے نئے انتخابات کروائے جائیں ‘‘جس کے نتیجے میں انہیں منانے کیلئے چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین نے ان سے دو ملاقاتیں کیں‘ جن میں مولانا نے چوہدری صاحبان کو اپنی امانت یاد دلائی اور وعدے پورے کرنے کے بارے پوچھا۔تاحال مولانا خاموش ہیں اور مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ مولانا سے رابطہ پرویز خٹک کی حکومتی ٹیم نے نہیں کیا ‘بلکہ جن کا یہ معاملہ تھا وہی حرکت میں آئے۔
پھر نوید سنائی گئی کہ قائمہ کمیٹی دفاع نے بل متفقہ طور پرمنظور کرلیا اور یہ خبر کئی گھنٹوں میڈیا کی زینت بنی رہی‘ پھر اندر خانے معلوم ہوا کہ اپوزیشن نے قائمہ کمیٹی کی کارروائی کو ماننے سے انکار کردیا ہے‘ لہٰذا حکومت کی ہدایت پر کمیٹی کی کارروائی کو باطل قرار دے دیا گیا اور قائمہ کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلایا گیا‘ جس میں اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی ترامیم لانا چاہتی ہیں۔رضا ربانی نے ایک اور خدشے کا اظہار کیا‘ بلکہ یوں کہیے کہ ایک نئی لائن دی کہ حکومتی بل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نہیں ہے اور کل کو یہ چیلنج بھی ہوسکتا ہے‘ گویا کہ قانون سازی کے بعد بھی یہ توسیع مسئلہ ہی رہے گی‘ کیونکہ آئینی ترمیم کو بالعموم سپریم کورٹ باطل قرار نہیں دیتی‘ لیکن معمول کی قانون سازی کو اعلیٰ عدالتیں باطل قرار دے چکی ہیں اور توسیع کیس میں تو سپریم کورٹ نے واضح طور پر گائیڈ لائنز بھی دی ہوئی ہیں‘ پھر وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ترمیم کی منظوری کا روڈ میپ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل بدھ کو منظوری کے بعد سینیٹ میں بھیجا جائے گا‘ یعنی جو بل گزشتہ جمعہ کو قانون بننا تھا‘ اب وہ آئندہ جمعہ کی طرف گامزن ہے۔
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے ؟معمول کے مطابق ہورہا ہے یا اس کے برعکس؟ یہ سب کْچھ طے شدہ سکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے یا سکرپٹ تقاضوں کے مطابق بدل رہا ہے؟ کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے‘ اسے لاحاصل ماننے اور بے سبب سمجھنے کیلئے دل تیار نہیں ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ اس ترمیم کے پس پردہ جو کچھ ہورہا ہے‘ اس کے دور رس سیاسی اثرات تو مرتب ہوں گے ہی‘ لیکن جلد یا بدیر اس کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر بھی واضح اثرات مرتب ہوں گے ‘جس کا فائدہ اپوزیشن کو زیادہ اور حکومت کو کم ملتا ہوا نظرآتا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق‘ بظاہر بل قائمہ کمیٹی نے منظور کرلیا ہے اور یہ آج قومی اسمبلی میں منظور کیا جائے گا‘ لیکن اب تک جو کْچھ ہوچکا ہے‘ تب تک یقین نہیں آئے گا ‘جب تک کہ یہ قانون سازی دونوں ایوانوں سے منظور نہ ہوجائے‘کیونکہ اس قانون سازی سے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کا سیاسی مستقبل جڑا ہوا ہے اور خاص طور پر مسلم لیگ نواز کے اندر یہ بات بہت اہم ہے کہ شہباز شریف اور مریم بی بی میں سے کون راج کرے گا۔فی الوقت پارٹی اور شریف فیملی کے اندر اس بارے میں بہت سے شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ اس اہم اور نازک موقع پر پارٹی کا کوئی تیسرا فریق ہی سب ثمرات نہ سمیٹ لے اور مریم بی بی کا سیاسی مستقبل تاریک نہ ہوجائے۔ سو ‘نواز شریف بھی لندن میں اب ‘صرف سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ساری صورتحال کو اپنے لیے آئیڈیل کیسے بنائیں گے؟
ہمارا کلچر ہے کہ ہم پر جب کوئی احسان کرے تو اس کے جواب میں بن مانگے بھی بہت کْچھ دیا جاتا ہے اور محسن کو بالعموم یاد رکھا جاتا ہے‘اس ساری صورتحال میں جو سب سے زیادہ کمزور ہورہے ہیں وہ وزیراعظم عمران خان ہیں‘ جنہوں نے اس کرائسس میں بہت اچھا کھیل پیش نہیں کیا‘کیونکہ ساری گمبھیر صورتحال میں عمران خان اور ان کی ٹیم قدر ے غیر متعلق نظر آئی اور کسی بھی جگہ کوئی بڑا بریک تھرو نہ کرسکی ۔اپوزیشن کے ساتھ اس کا ڈیڈ لاک برقرار رہا اور اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے اور رکاوٹیں عبور کرنے کیلئے راولپنڈی کو ہی میدان میں آنا پڑا۔اب‘ تک اتفاق رائے کیلئے تمام کوششیں راولپنڈی نے خود کیں اور کررہا ہے‘اس لیے اس کے ثمرات کا فیصلہ بھی وہ خود ہی کریں گے۔ دوسری جانب ایران‘ امریکہ تنازعے نے خطے کی صورتحال انتہائی گمبھیر کردی ہے اور داخلی اور خارجی سکیورٹی کی صورتحال جو کچھ بھی ہو اس کے منفی اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکے گا۔خاص طور پر ایسے وقت میں کہ سیاسی انتشار بھی شدت اختیار کر جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved