تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-01-2020

سرخیاں‘متن اور اقتدار جاوید کی غزل

چھ ماہ میں نئی اسمبلی بنا کر آرمی ایکٹ پاس کروایا جائے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''چھ ماہ میں نئی اسمبلی بنا کر آرمی ایکٹ پاس کروایا جائے‘‘ یہ رعایت بھی میں نے حکومتی درخواست پر دی ہے‘ ورنہ میں تو ایک ہفتے کا نوٹس دے رہا تھا‘ جبکہ ویسے بھی میرے پاس حکومتی درخواستوں کا ڈھیر لگ چکا اور اگر میں اس بار بھی منتخب نہ ہوا تو یہ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی؛ اگرچہ میرا ہونا ہی ملک کی کوئی چھوٹی بدقسمتی نہیں ‘ اوپر سے فلمی اداکارہ مسرت شاہین نے میرے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ ‘بلکہ اعلان بھی کر دیا ہے‘ تاہم یہ کوئی خاص پریشانی کی بات نہیں‘ کیونکہ یا تو کچھ دے دلا کر اسے میں بٹھا لوں گا یا وہ مجھے بٹھا لے گی‘ کیونکہ ایک عور ت سے شکست کھانے سے بڑی شرمساری اور کیا ہو سکتی ہے ‘بلکہ یہ تو وزیراعظم سے استعفیٰ حاصل نہ کرنے سے بھی بڑی شرمندگی ہوگی۔آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بھارتی ظلم کشمیریوں کو آزادی سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بھارتی ظلم کشمیریوں کو آزادی سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا‘‘ اور نہ ہی حکومتی ظلم ہمیں لندن سے واپس آنے پر مجبور کر سکتا ہے‘ کیونکہ بقول شاعر:؎ 
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر واپس آتا نہیں
اس لیے ہمیں بھی گیا وقت ہی سمجھا جائے‘ تاہم مجھے یہ معلوم نہیں کہ حبیب جالبؔ نے اس موضوع پر کوئی شعر کہہ رکھا ہے یا نہیں‘ ورنہ میں اسی کا شعر پڑھتا ‘کیونکہ اب میں اُس کے علاوہ کسی اور کے شعر پڑھتا اچھا بھی نہیں لگتا اور ایسا لگتا ہے کہ حبیب جالب ؔنے سارے شعر میرے ہی لیے کہہ رکھے ہیں؛چنانچہ سوچ رہا ہوں کہ عطا الحق قاسمی سے سفارش کروں کہ وہ ایسے مواقع کے لیے شعر لکھ کر مجھے بھجوا دیں‘ کیونکہ بھائی صاحب نے اُن کے شعر بھی پڑھ پڑھ کر ختم کر دیئے ہیں‘ اسی لیے ان کے لیے بھی سہولت پیدا ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
میراث نام یا شخصیت نہیں ‘بلکہ بائیں بازو کا نظریہ تھا: بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میراث نام یا شخصیت نہیں ‘بلکہ بائیں بازو کا نظریہ تھا‘‘ جبکہ بائیں بازو کا دوسرا نظریہ روٹی‘ کپڑا اور مکان تھا‘ جس پر تو عمل نہیں کر سکے‘ اس لیے ہمارا سارا زور میراث پر ہی ہے اور والد صاحب کو بھی حکومت بینظیر کے ورثے کے طور پر ہی ملی تھی‘ کیونکہ جتنی محنت انہوں نے کی تھی‘ یہ اُنہی کا کام تھا‘ اس لیے انہیں اس وراثت کا پورا پورا حق حاصل تھا‘ جبکہ اسی نظریے کی بنیاد پر میرا نمبر آیا اور میرے بعد میرا بیٹا وزیراعظم ہوگا ؛بشرطیکہ میری شادی ہو جائے‘ ورنہ آصفہ سیاست میں داخل ہو کر سارا کام خراب کر دیں گی۔آپ اگلے روز ایک مقامی روزنامہ کی سالگرہ پر اپنا پیغام نشر کر رہے تھے۔
خاکے وا کے
اس کے مصنف سجاد النبی ہیں۔ انتساب والد عبدالرشید اور دادا جان حاجی غلام علی مرحوم کے نام ہے۔ اندرون سرورق اصغر ندیم سید اور سید فصیح الدین احمد کے قلم سے ہیں‘ جبکہ پس سرورق امیر العظیم سی ای او مینی ایچر وژن‘ رانا محمد شفیق پسروری رکن اسلامی نظریاتی کونسل‘ سید ندیم رضا ‘زاہد عابد‘ توشیبا سرور اور منصور مانی خاشقند نے لکھے ہیں۔ دیباچہ خاکسار کے قلم سے ہے۔ اصغر ندیم سید رقم طراز ہیں کہ ''خاکہ نگاری میں سجاد النبی نے دوستوں کی کمزوریوں سے فائدہ ضرور اٹھایا ہے ‘لیکن دوستانہ شرارت سے آگے نہیں بڑھے۔ ہمارے ہاں بہت سے کامیاب خاکہ نگاروں کا وطیرہ رہا ہے کہ اپنا ایک جملہ بچانے کیلئے دوست قربان کر دیتے ہیں۔ سجاد النبی نے دوستی کو داؤ پر نہیں لگایا۔ احتیاط سے دامن کو حریفانہ کھینچا ہے... یہ خاکے دوستوں کی ایک انجمن کا حال سناتے ہیں۔ مصنف نے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کے ذریعے اپنے دوستوں کی کچھ خصلتوں اور عادات کو طنزیہ پیرائے میں بیان کر دیا ہے۔ یہ دوست ضرور خوش طبع بھی ہوں گے اور قارئین ان سے مل کر یقینا لطف اندوز ہوں گے‘‘۔ آخر میں اقتدار جاوید کے پنجابی مجموعہ کلام ''چار چفیرے‘‘ میں سے طویل غزل کے کچھ اشعار:
نہ ہے انت شبیہ دا کوئی نہ چِٹّے رنگے دا
کالی رات شبیہ کوئی چٹا بوچھن دریا
توں تے میں تے ککھّاں وانگر رُڑھ پُرھ جائیے ایتھے
شاہ دولے دریائی ورگے جھٹ سکّن دریا
مستی دے وچ لہراں بہراں ہور طراں دیاں کڈھن
نیڑے کسے مزار دے آ کے لال جھولن دریا
ایہہ یارانہ ہک سک والا یا ہے وَیر پرانا
کوہاں بعد وی اک دوجے نوں آن ملن دریا
ہکّو جیہا مہاندر اینہاں دا ہکّو ہی لک ہے
دریا سپ دے بچے نیں یا سپ بنن دریا
بال ایانے جیہے لگدے نیں شغل اشغال جے تکیے
رات چنے دی چاننی دے وچہ پئے کھیڈن دریا
سینے دے وچ پھاس ہے کوئی یہ پہاڑاں تھلیوں
یا نکلے راتے نوں ہاڑا یا نکلن دریا
اس بوٹے توں ہور طراں دی اڈے گی خوشبو وی
چار چکور روہی دے اندر کوٹ مٹھن دریا
چن چنے دی چاننی دے وچ مستی ودھدی جاوے
راتیں اُچّا کردا جاوے چٹّا پھن دریا
آج کا مقطع
دیوانہ ہوں اور کام میں اپنے ہوں میں ہشیار
جاتا ہوں ظفرؔـ دشت کو دریا کی طرف سے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved