کھانا پینا معمول ہے اور معمول بھی وہ کہ جسے کسی طور ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں‘ اس معمول کی تھوڑی سی تطہیر و تہذیب ضرور کی جاسکتی ہے۔ ہم روزانہ جو کچھ کھاتے اور پیتے ہیں ‘وہ ہمارے جسم کی محض بنیادی نہیں‘ بلکہ انتہائی بنیادی ضرورت ہیں۔ اس ایک معمول کے درست ہو جانے سے بہت کچھ درست ہو جاتا ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہم میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ‘اُن میں سے بیشتر کا تعلق کھانے پینے کی بگڑی ہوئی عادات سے ہے۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کو جانچنا ہو تو اُس کی کھانے پینے کی عادات کو دیکھا جاتا ہے؟ کھانا پینا یومیہ معمول سہی ‘مگر یہی معمول ایک بنیادی ثقافتی و تہذیبی شناخت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ کھانے پینے کی عادات و اطوار کے حوالے سے عجیب شرم ناک موڑ پر کھڑا ہے۔
ہماری کھانے پینے کی عادات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بگڑتی ہی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں زندہ رہنے کے لیے کھایا جاتا ہے اور ہمارا شمار اُن گنے چنے معاشروں میں ہوتا ہے ‘جن کے لوگ یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ وہ کھانے کے لیے زندہ ہیں! اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے جوش و خروش کا گراف بلند ہی ہوتا جارہا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں کھانے پینے کی عادات و انداز کا معاملہ عارضی قیام گاہ یا کیمپ کی ذہنیت کا ہے۔ ہم اس یومیہ معمول کو انتہائی casual لیتے ہیں‘ یعنی معمولی درجے کی سنجیدگی کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے۔ کھانا اور پینا ہماری انتہائی بنیادی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔ سوال صرف زندہ رہنے کا بھی نہیں‘ اچھی طرح زندہ رہنے کا ہے۔ ہم من حیث القوم کھانے پینے کے کچھ زیادہ ہی شوقین ہیں۔ معاملہ شوق کی منزل میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ شوق کے ساتھ ذوق کی بھی اہمیت ہے۔ ہم نے ذوق ‘یعنی معیار کو ایک طرف ہٹاکر صرف شوق ‘یعنی مقدار کو گلے لگالیا ہے۔ زور اس بات پر ہے کہ زیادہ کھایا جائے‘ زیادہ پیا جائے۔ کھائی اور پی جانے والی چیز کیسی ہو‘ اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کر رہا۔
جن معاشروں میں واقعی شعور پایا جاتا ہے‘ اُن میں کھانے پینے کے حوالے سے معیار کو مقدار پر واضح برتری حاصل ہے۔ معیاری چیز اگر کم مقدار میں بھی کھائی جائے تو مطلوب نتائج دیتی ہے۔ اس کے برعکس غیر معیاری اشیاء بہت بڑی مقدار میں کھائی جائیں تب بھی جسم کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچتا۔ یہی سبب ہے کہ ہر ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں اشیائے خور و نوش کے معیار پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ ریاستی مشینری اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ لوگوں کو جو کچھ بھی کھانے اور پنے کو ملے وہ قابلِ رشک حد تک معیاری ہو۔ اشیائے خور و نوش کا اعلیٰ معیار صحت عامہ کی سطح بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے میں‘ اگر آبادی کا بڑا حصہ ورزش کا عادی ہو تو صحت عامہ کی سطح کو قابلِ رشک حد تک بلند کرنا ریاستی مشینری کے لیے کوئی بڑا دردِ سر ثابت نہیں ہوتا۔
غیر مہذب اور پس ماندہ معاشروں میں صرف اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ کھانے کو ملتا رہے‘ پیٹ میں کچھ نہ کچھ انڈیلا جاتا رہے۔ اشیائے خور و نوش کا معیار ذہن نشین رکھنے کی روایت کو ایسے معاشروں میں زیادہ پروان نہیں چڑھایا گیا اور حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں ہر اُس انسان کو حیرت سے دیکھا جاتا ہے‘ جو اشیائے خور و نوش کی مقدار پر معیار کو ترجیح دینے کی بات کرتا ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر‘ گھر کے اندر اور تقریب میں جس طور کھاتے پیتے ہیں ‘اُس سے ہماری نفسی‘ معاشرتی‘ ثقافتی اور تہذیبی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اشیائے خور و نوش بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے ہوتی ہیں۔ حیرت ہے کہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اشیائے خور و نوش ہماری تشفّی ہی نہیں کر پاتیں۔ ہم جس بھوک کو مٹانے کے لیے اشیائے خور و نوش استعمال کرتے ہیں‘ وہی بھوک مٹنے کے بجائے ہمیں کھارہی ہے! صحت کا گراف بلند رکھنے والی اشیاء استعمال کرنے سے گریز تو ایک تلخ حقیقت ہے ہی‘ اضافی ظلم یہ ہے کہ ہم کھانے پینے کے اطوار سے بخوبی واقف نہیں۔ بھوک لگنے پر بے صبرے پن کر مظاہرہ عام سی بات ہے‘ اسی طور شدید پیاس لگ رہی ہو تو پانی یا شربت وغیرہ پینے کے معاملے میں جذباتیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کھانا پورے تحمل سے کھانا چاہیے‘ اسی طور پانی‘ شربت‘ چائے وغیرہ بھی پوری شائستگی کے ساتھ پینی چاہیے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ کچھ بھی کھاتے پیتے وقت غیر ضروری‘ بلکہ مضحکہ خیز نوعیت کی پُھرتی دکھانے کو اپنے آپ پر لازم کرلیا گیا ہے۔ زندگی کے دیگر تمام معاملات میں پائی جانے والی جذباتیت کھانے پینے کے معاملات میں بھی در آئی ہے۔ ڈھنگ سے نہ کھائے جانے پر بیشتر اشیائے خور و نوش کی تاثیر یا تو دم توڑ دیتی ہے یا پھر اُس میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔
کھانے پینے کی عادات کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی‘ بنیادی خرابی یہ بھی ہے کہ لوگ محض چٹخارے کی خاطر معدے کو الجھن میں ڈالتے ہیں۔ معدہ کچھ نہ طلب نہ کر رہا ہو تب بھی محض دل چاہے تو کھانے پینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس روش پر گامزن رہنے سے کبھی کبھی بہت دلچسپ صورتِ حال بھی پیدا ہو جاتی ہے‘ مثلاً: یہ جملہ بھی سُنائی دے جاتا ہے ''اوہو نو بج گئے۔ چلو بھئی کھانا لگاؤ!‘‘ اب کیا یہ حقیقت بھی کسی تعلیمی و تربیتی ادارے کے ذریعے سکھائی جائے گی کہ وقت چاہے کچھ بھی ہوا ہو‘ کھانا اُسی وقت کھایا جاتا ہے ‘جب واقعی بھوک لگی ہو!
ہم چٹخاروں کے اِتنے عادی اور غلام ہوچکے ہیں کہ اچھا خاصا زرِ مبادلہ اشیائے خور و نوش کی درآمد پر ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ جو کھانے کسی بھی اعتبار سے ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتے اُنہیں بھی ہم یوں اپنا بیٹھے ہیں‘ گویا ہماری ثقافتی روایات کا حصہ ہوں! محض دل چاہنے پر ہم ایسا بہت کچھ کھا اور پی جاتے ہیں ‘جو ہماری آمدن کا ایک بڑا حصہ ٹھکانے لگا دیتا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہمیں عمومی سطح پر اس کا کچھ خاص دکھ بھی نہیں۔
ہم بھی کیا عجیب واقع ہوئے ہیں کہ ایک یومیہ معمول نے ہمیں غلام بنالیا ہے۔ آج ہمارے معمولات میں ایسی کئی اشیائے خور و نوش شامل ہیں‘ جو کسی بھی اعتبار سے ہمارے مزاج سے میل بھی نہیں کھاتیں اور اس خطے میں پیدا بھی نہیں ہوتیں‘ یعنی کثیر زرِ مبادلہ خرچ کرکے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ صحت اور بجٹ کے حوالے سے واضح نقصان اٹھانے کے باوجود ہم کھانے پینے کی عادات کے بارے میں کچھ سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ سگریٹ والا معاملہ ہے۔ سگریٹ کے پیکٹ پر وزارتِ صحت کا انتباہ درج ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوسکتا ہے ‘مگر پھر بھی لوگ تمباکو نوشی سے باز نہیں آتے‘ اسے کہتے ہیں آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا۔ کھانے پینے کے معاملے میں بھی ہم آنکھوں دیکھی مکھیاں ہی تو نگل رہے ہیں۔ جن اشیائے خور و نوش کے مضر ہونے میں یا جن کے غیر ضروری طور پر زائد استعمال کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے کوئی شبہ نہیں‘ اُن کا استعمال ترک یا کم کرنے پر ہم ذرّہ بھر بھی آمادہ نہیں۔