تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-01-2020

ایلو پیتھی اگر نہ ہوتی؟

چند صدیوں میں دنیا میں ایک خاموش انقلاب برپا ہو گیا ہے ‘ جس کی شدت کا ہمیں آج بھی احساس نہیں ۔ دنیامیں ہومو سیپینز(انسان ) کی آبادی اس تیز رفتاری سے بڑھی ہے کہ پچھلے تین لاکھ سال کی مکمل انسانی تاریخ‘ جس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتی ۔ انٹارکٹکا اور آرکٹک ‘یعنی زمین کے انتہائی جنوب اور شمال میں چند جگہوں کو چھوڑ کر‘ انسان کرّہ ٔ ارض کے چپے چپے پر آباد ہو چکا ہے ۔ ماہرین چیخ رہے ہیں کہ ایک دن آئے گا‘ جب یہ زمین آدمی کے لیے ناکافی ہو جائے گی ۔گو ایک بڑی جنگ اس خطرے کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے ‘لیکن کیا ہم اپنی امیدیں جنگوں سے وابستہ کر لیں ؟ 
زراعت اور ماہی گیری سمیت منظم طور پر خوراک حاصل کرنے کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے ۔ آخر اب ایسی کون سی انوکھی بات وقوع پذیر ہوئی ہے ‘ جس کی وجہ سے انسانی آبادی ناقابلِ یقین رفتار سے بڑھ رہی ہے ۔زیادہ آبادی کی وجہ سے بڑے بڑے ممالک آج پانی پہ لڑ رہے ہیں ۔ اگر پاکستان کی آبادی دو کروڑ اور بھارت کی پانچ سات کروڑ ہوتی تو کبھی پانی کا تنازع پیدا ہی نہ ہوتا ۔ چاہے بھارت سارا پانی روک کر سوسال بیٹھار ہتا ۔بارش ہی کافی تھی۔ 
انسانی آبادی کا بم ایک دم کیوں پھٹ پڑا ہے ؟ جواب ہے ''ایلو پیتھی‘‘ ۔ آبادی اس لیے نہیں بڑھی کہ لوگ بچّے بہت زیادہ پیدا کر رہے ہیں ۔ گزرے زمانوں میں دس بارہ بچّے پیدا کرنا عام سی بات تھی ۔ آبادی اس لیے بڑھ رہی ہے کہ شرح اموات بہت کم ہو گئی ہے ۔ ایلو پیتھی کی وجہ سے ‘ پولیو جیسی بیماریوں کی ویکسی نیشن اور علاج سے اوسط انسانی عمر بہت بڑھ گئی ہے ۔
پرانے زمانوں میں بچّے زیادہ پیدا ہوتے‘ لیکن مرتے بھی بہت تھے ۔ دس میں سے صرف تین چار ہی بلوغت کی عمر کو پہنچ پاتے ۔ پیدائش کے دوران پیچیدگی پیدا ہوتی توکئی بچّے مر جاتے اور مائیں بھی ۔انسانوں میں بچے کے سر کا سائز دوسرے سب جانداروں سے بڑا ہے ۔ آہستہ آہستہ میڈیکل سائنس ترقی کرتی رہی ۔ آج صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی عزیزہ کو زچگی میں مرتے نہیں دیکھا ۔ پیدائش کے بعد بچوں کی جو ویکسی نیشن ہوتی ہے ‘وہ انہیں کئی جان لیوا بیماریوں سے محفوظ کر دیتی ہے ۔ گزرے زمانوں میں پولیو ‘ طاعون ‘ ملیریا اور ہیضے جیسی کوئی وباآتی تھی تو شہروں کے شہر لاشوں سے اٹ جاتے تھے ۔ 1950ء کی دہائی میں امریکہ میں پولیو نے تباہی مچا دی تھی ۔
آج ایلو پیتھی کی وجہ سے شرح اموات پر کنٹرول حاصل ہو چکا ہے ۔ اب‘ بیشتر بچّے نا صرف خود بچ نکلتے ہیں ‘بلکہ وہ بڑے ہوکر شادیاں کرتے اور مزید بچّے پیدا کرتے ہیں ۔ ٹی بی جیسی بیماری نے قائد اعظمؒ کو نگل لیا ۔مبینہ طور پر ظہیر الدین بابر جیسے فاتح کا چراغ بھی اسی نے گل کیا۔ بادشاہوں کے پاس سونے چاندی کے ڈھیر موجود تھے ‘لیکن کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ٹی بی ہوتی کیا ہے ‘ کیسے یہ پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا کر انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتی ہے ۔ 
آپ نے کئی بار سنا ہوگا کہ میڈیکل کا شعبہ ملٹی بلین ڈالر کمپنیز کے ہاتھ میں ہے ‘ جو کہ لوگوں کو لوٹ رہی ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ لالچی لوگ ہر شعبے میں موجود ہیں ‘لیکن کبھی آپ نے سنا کہ گاڑی بیچنے والی ملٹی بلین ڈالر کمپنیز لوگوں کو لوٹ رہی ہیں ۔ کیا برانڈڈ کپڑے تیار کرنے والی کمپنیاں یا الیکٹرانکس فروخت کرنے والے اپنی خدمات فی سبیل اللہ مہیا کر رہے ہیں ۔جو چیز آپ پانچ ہزار کے ٹی وی میں دیکھ سکتے ہیں ‘ وہی چیز آپ ایک لاکھ روپے کی بڑی ایل سی ڈی میں دیکھتے ہیں اور کبھی نہیں کہتے کہ میں لٹ گیا ۔ بڑے پینٹر کی ایک ایک پینٹنگ لاکھوں میں فروخت ہوتی ہے ۔ کبھی آپ اس بات پر غور کریں کہ گاڑی بنانے والی کمپنی نے تیس لاکھ روپے کی جو گاڑی آپ کو فروخت کی ہے ‘ کیا اس میں واقعی تیس لاکھ روپے کا لوہاموجود ہے ؟ تین لاکھ کا بھی نہیں ۔معاوضہ مارکیٹ طے کرتی ہے ۔ نیو یارک شہر میں دس مرلے کا ایک گھر جتنی قیمت میں ملتاہے ‘ اتنی قیمت میں پاکستان میں دس گائوں خریدے جا سکتے ہیں ۔ کسی بھی پیشے میں ماہرین کے معاوضے کا تعین مارکیٹ ہی کرتی ہے ۔ 
ہونا یہ چاہیے کہ طبی سہولیات سب کو حکومت کی طرف سے مہیا ہوں ۔ اس کے لیے ایمانداری سے ٹیکس دینا پڑے گا ۔تحریک چلا کر ‘ ڈھونڈ کر ایسے حکمران چننا ہوں گے ‘ جن کے اندر ٹیکس اکھٹا کرنے اور غربت ختم کرنے کی اہلیت موجود ہو۔ جو ایماندار ہوں اور اہل بھی ۔ اس وقت تو خزانہ خالی ہے ۔حکومت اگر قرضوں کی قسطیں ہی لوٹا تی رہے تو بڑی بات ہے ۔ 
اس چیز کا ہمیں اندازہ نہیں کہ اگر میرے خون کا ٹیسٹ بروقت بتا دیتاہے کہ مجھے ملیریا ہے اور اگر میں اس کی دوا لے لیتا ہوں ‘ جو میرے جسم کے اندر جا کر جرثوموں سے لڑنا شروع کر دیتی ہے ‘تو میرے بچ نکلنے کے امکانات کس قدر بڑھ گئے ہیں ۔ 
جب سے انجن ایجاد ہوا ہے ‘موٹر سائیکل‘ گاڑی ‘ہوائی اور بحری جہازوں کے حادثات میں ان گنت اموات ہو چکی ہیں ۔ اس کے باوجود کبھی کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ انجن ایک لعنت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انجن سے حاصل ہونے والا فائدہ ان حادثات سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہی معاملہ میڈیکل سائنس کا بھی ہے ۔ 
ایک بہت محترم کالم نگار نے لکھا ہے: ایلو پیتھی کی خوبیاں اپنی جگہ ‘لیکن جب ایلو پیتھی نہیں تھی‘ تب بھی لوگوں کا علاج ہوتا تھا اور وہ تندرست ہو جاتے تھے ۔ یہ بات درست نہیں ۔ درست بات یہ ہے کہ اکثر لوگ لو ٹ پوٹ کر ‘ شدید تکلیف سے گزر کر ‘ اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے آخر کار ٹھیک ہو جاتے تھے ۔ یہ امیون سسٹم اللہ نے ہر جاندار میں پیدا کیا ہے‘ لیکن بے شمار لوگ چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے ہاتھوں مر بھی جاتے تھے ۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ چیسٹ انفیکشن جیسی بیماری سے دوچار ہونے کی صورت میں آپ کو گھریلو نسخوں پر عمل در آمد کرنا چاہیے ۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ چیسٹ انفیکشن ایک مبہم اصطلاح ہے ۔
صحیح اصطلاح ہے اپر یا لوئر ریسپیریٹری ٹریکٹ انفیکشن یا نمونیہ۔ اگر پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو اور انسان پہلے سے ہائی بلڈ پریشریا ذیا بیطس کا شکار ہو یا مریض عمر رسیدہ شخص ہو یا نوزائیدہ بچہ یا حاملہ عورت تو اس انفیکشن سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے یا کسی کے پھیپھڑے پہلے سے خراب ہوں اور اوپر سے نمونیہ ہو جائے یاپہلے سے گردے ناکارہ ہوں ۔ بیکٹیریا سے ہونے والا نمونیہ وائرس سے ہونے والے نمونیے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ‘ سر خالد مسعود خان کی اہلیہ محترمہ کو غالباً نمونیہ ہی ہوا تھا‘ جن کی یاد میں انہوں نے دلگداز تحریریں لکھیں۔
یہ سوچنا کہ بندہ گھر میں ہی چیسٹ انفیکشن یا کسی اور بیماری کا علاج کر لے ‘ایسا ہی ہے ‘ جیسے ٹائر کو گھر میں ہی پنکچر لگانے کی کوشش کی جائے ۔ کوئی بھی نہیں لگاتا۔ایلو پیتھی اگر نہ ہوتی تو دنیا میں انسانوں کی آبادی شاید تیس چالیس کروڑ سے زیادہ نہ ہوتی۔لوگ تو خیر انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور انجن کی ایجاد ات سے پہلے بھی کرّہ ٔ ارض پہ زندگی گزار تے رہے ہیں ۔ کافی عرصہ انسان غاروں میں بھی رہا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved