سارہ بین (Sarah Ben) واشنگٹن پوسٹ میں لائف سٹائل جرنلسٹ تھی۔ لائف سٹائل جرنلسٹ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مشہور و مقبول افراد کی سٹائلش اور گلیمرس طرز زندگی کو رسائل میں کور کرتے ہیں۔ سارہ اپنے شعبے میں ایک نام اور مقام رکھتی تھی۔ اس کی اپنی زندگی بھی کچھ کم گلیمرس نہ تھی۔ نت نئے فیشن، سٹائل کو اپنانا۔ زندگی میں آسائش اور آسودگی کی خواہش کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتی مگر ایک سکون اور آسودگی پھر بھی خواہش لاحاصل ہی رہتی۔ سارہ کی زندگی اسی طرح مصروف گزر رہی تھی کہ اس کی زندگی میں ایک حادثہ رونما ہوتا ہے۔ یہ سن اسّی کی دہائی تھی۔ سارہ ایک ریستوران میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھی کافی پی رہی تھی کہ اچانک چھت کا پنکھا گر کر سارہ کے سر میں جا لگتا ہے۔ اس لمحے اسے محسوس ہوا جیسے پوری دنیا‘ ایک تیز رفتار‘ پہیے کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئی ہو۔ وہ بے ہوش ہوجاتی ہے۔ سارہ کو فوراً ابتدائی طبی امداد کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ سر کی چوٹ شدید ہوتی ہے۔ سارہ کومے میں چلی جاتی ہے۔ بہترین اسپتال میں اس کا علاج شروع ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ کومے سے باہر آتی ہے تو اس کی دنیا ہی بدل چکی ہوتی ہے۔اس کے سر پر ایسی جگہ ضرب لگتی ہے جس سے اس کے حواسِ خمسہ متاثر ہوجاتے ہیں۔ بینائی مکمل طور پر نہیں جاتی مگر اسے سب کچھ دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ سورج کی روشنی کو محسوس نہیں کرسکتی۔ سونگھنے کی حس ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں محسوس کرنے کی حِس بھی بہت کم ہوجاتی ہے۔ ٹھنڈا گرم‘ سخت اور ملائم سطح کو محسوس نہیں کرسکتی۔ ایسی تکلیف دہ صورت میں سارہ اپنے بستر تک محدود ہوجاتی ہے۔ اس کا علاج جاری رہتا ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں اس کا ذہن کام کرتا رہتا ہے۔ سارہ نے یہ کہانی ریڈرز ڈائجسٹ میں تحریر کی کہ کس طرح ایک حادثے نے اس کی زندگی کو بدلا۔ سارہ لکھتی ہے کہ چار ماہ تک وہ اس اذیت سے گزری۔ مگر اس اذیت نے اس پر زندگی کا ایک بہت خوبصورت دروازہ کھول دیا۔ وہ سوچتی کہ جب وہ صحت مند تھی تو ہر شے کو دیکھتی، محسوس کرتی اور سونگھ سکتی تھی تب اس نے اللہ کی ان عظیم نعمتوں کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا۔ اس کی زندگی‘ آسائش اور تعیش سے بھرپور زندگی گزارنے والے امیر ترین افراد کے درمیان گزرتی۔ وہ انجانے میں ہی اپنی زندگی کا موازنہ طبقۂ اشرافیہ کے لائف سٹائل سے کرتی رہتی ہے۔ سو سارہ ہمیشہ ہی تشنہ خواہشوں میں گھری رہتی تھی۔ مگر بیماری کے ان چار مہینوں میں وہ سوچتی کہ صبح کے روشن منظر کو دیکھنا کتنی بڑی عیاشی ہے۔ اپنی ننھی بیٹی کے نرم ملائم بالوں سے کھیلنا‘ اس کے نرم گالوں پر پیار کرنا اور ان کی ملائمت کو محسوس کرنا کتنی بڑی نعمت ہے۔ اپنے چھوٹے سے لان میں کھلے ہوئے بہار کے کسی خوبصورت پھول کو دیکھنا اور اسے سراہنا۔ یہ منظر دل کو خوشی سے بھر دیتے ہیں مگر وہ اب ان تمام چیزوں سے محروم تھی۔ پھر سارہ کی زندگی میں ایک معجزہ ہوتا ہے۔ علاج کے دوران اس کی کھوئی ہوئی حسّیات واپس آنے لگتی ہیں۔ ایک صبح جب وہ اپنے بستر پھر تھی تو سورج کی ایک چمکیلی شرارتی کرن اس کی بند آنکھوں سے ٹکراتی ہے۔ سارہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتی ہے تو اس کا کمرہ روشنی سے بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اُف خدایا! میں پھر سے دیکھ سکتی ہوں۔ وہ خوشی سے چلّا اٹھتی ہے۔ اپنے بستر سے نکل کر وہ کچن کی طرف آتی ہے تو اسپیگٹی اور سوپ کے پیالے سے اٹھتی خوشبو، اس کے نتھنوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک لمبا سانس لے کر وہ ذائقہ دار خوشبو کو اپنے اندر اتارتی ہے۔ سارہ کہتی ہے کہ چار ماہ کے بعد جب میں نے کچن سے اٹھتی خوشبو محسوس کی۔ روشن دان کو دیکھا اور لانڈری سے تازہ دھلے ہوئے کپڑوں کی مہک کو اپنے اندر اتارا‘ اپنی بیٹی کے ریشم جیسے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔ ان کی ملائمت کو محسوس کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی نعمتیں ہیں مگر آج تک میں نے انہیں محسوس کیوں نہیں کیا۔ سارہ کہتی ہے کہ شکرانے سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ لائف سٹائل جرنلسٹ کی زندگی بدل چکی تھی اسی لیے اس نے اپنی زندگی کے اس اہم واقعے کو تحریر کیا۔ وہ لکھتی ہے کہ ہم سب ناشکرے لوگ ہیں۔ لاحاصل خواہشوں کے پیچھے اپنی اپنی زندگیوں کو جہنم بنا لیتے ہیں مگر قدرت نے جو عظیم نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں ان کا شکر ادا نہیں کرتے۔ ناشکری کی کیفیت میں گھرے ہوئے لوگ ہمیں ہمیشہ ناخوش رہتے ہیں۔ ناخوشی سے ہی منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور ان منفی خیالات سے خوشی کے ہزارہا رنگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں…!! سارہ کی یہ کہانی میںنے ’’ایوری ڈے گریٹ فیس ‘‘میں پڑھی۔ اور واقعی ایسا ہے کہ ہم لوگ شکر کے لیے کسی حادثے کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنی زندگیوں کا موازنہ دوسروں سے کرتے رہتے ہیں اور ناشکری کے منفی جذبے ہمارے اندر پروان چڑھتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ایک لمحے کو بھی ان نعمتوں کے بارے میں سوچا جوبے بدل ہیں اور قد رت نے ہمیں عطا کی ہیں؟ ہم اپنے ہاتھوں‘ پائوں کی سلامتی پر کبھی شکر گزار ہوئے؟ ہم اپنی گردن کو بغیر کسی تکلیف کے دائیں بائیں موڑ سکتے ہیں۔ چل پھر سکتے ہیں۔ ہمارے اعضا سلامت ہیں۔ ہر صبح قدرت اپنی بے پناہ فیاضیاں ہم پر نچھاور کرتی ہے۔ کھڑکی سے باہر دیکھیں تو ایک طائرانہ نگاہ میں ہم کتنے رنگ دیکھ سکتے ہیں۔ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں۔ اس کا اندازہ لگانا ہو تو کسی ایسے مریض سے پوچھیں جس کے جگر یا گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو اور وہ کسی کی طرف سے اعضاء کے عطیے کا منتظر ہو۔ یا تھیلسیمیا کے ان بچوں سے پوچھیں وہ بچے جنہیں مہینے میں دو بار خون لگوانا پڑتا ہے تاکہ ان کی بجھتی سانسوں کو جاری رکھا جاسکے۔ اگر بے روزگاری ہے‘ مسائل ہیں‘ خستہ حالی ہے تو بھی یقین کریں شکر کے ہزار رنگ ہیں کہ ہمیں رب العزت نے زندگی تو عطا کی ہے جس میں ہم اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے تگ و دو کرسکتے ہیں۔ درد بھی تو زندگی کے ہونے کا احساس ہے۔ اس درد کو بھی نعمت سمجھیں، شُکر ادا کریں کیونکہ شکر میرے ربّ کو پسند ہے۔ شُکر نعمت کی حفاظت کرتا ہے اور شُکر کرنے والے کو قدرت اور نوازتی ہے۔ شُکر کرنے سے ہی جسم میں مثبت توانائی آتی ہے جس سے ہم دنیا بھی فتح کرسکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved