تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-01-2020

سوال امن کا ہے

سوال دو ممالک کے درمیان کشیدگی پر جانبداری یا غیر جانبداری کا نہیں‘ بلکہ امن کا ہے۔جمعہ تین جنوری کی صبح اطلاع سامنے آئی کہ ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کی '' القدس فورس‘‘ کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں پر مشتمل الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المندس بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے شہر کی جانب جاتے ہوئے‘ امریکہ کے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔
اس نمایاں قدری اہمیت کے حامل ہدف کے خلاف امریکہ کا ڈرون حملہ زیادہ حیران کن عمل تھا۔صرف یہی نہیں‘ حقیقی حیران کن امر اس حملے کا وقت اورصدر ٹرمپ کا امریکہ کے سب سے خطرناک دشمنوں کے خلاف مہلک کارروائی کی اجازت دینا ہے۔سابق صدور جارج بش اور بارک اوبامہ نے ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔جنرل قاسم سلیمانی کی موت سے ٹرمپ کا عزم متزلزل نہیں ہوگا ‘کیونکہ پینٹاگان نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ یہ آپریشن ایک دشمن جنگجو کے خلاف حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ‘ جو مستقبل میں خطے میں امریکی اہداف کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔یہ محض الزام ہے یا حقیقت ‘وقت ہی ثابت کرے گا‘کیونکہ ماضی میں امریکہ الزام لگا کر ایسی کارروائیاں کرتا آیا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کے واقعے پر ایران کے مخالفین نے ملے جلے خوف وخدشات پر مبنی ردعمل کا اظہار کیا۔ان میں سے ہر کوئی یہ پیش گوئی کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اب‘ ایران کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے؟ کیونکہ ایران اپنے سب سے موثر اور اہم اثاثے سے محروم ہوچکا اور ان کی موت ان کے سرپرست ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے لیے بھی ایک براہ راست بڑا دھچکا ہے۔جنرل قاسم سلیمانی کی موت کو ایران کے خلاف جنگ قراردیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس کے جواب میں ایران کا ردعمل غیر روایتی شکل میں ہوگایا روایتی ‘اس بارے میںکچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ بہرحال ایران کی جانب سے ایک ردعمل یہ ظاہر ہوا ہے کہ اس نے عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل حملے کئے ہیں، جن میں 80 افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ 
ایران یقینی طور پر امریکہ کے ساتھ کسی کھلی جنگ سے گریز کرے گا‘ اسے جنگی حکمت عملی بھی کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کی نظریں خطے میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم ''حزب اللہ‘‘ پر مرکوز ہیں۔توقع ہے کہ وہ اپنے جنرل کا انتقام لینے اور ایران کے تشخص کو بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔حملے میں مبینہ طور پر تین لبنانی شہری بھی ہدف بنے۔یہ ''حزب اللہ‘‘ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نعیم قاسم‘ حزب اللہ کی عراقی فائل کے سربراہ محمد الکوثرانی اور بیرونی کارروائیوں کے ذمہ دار ثمر عبداللہ ہیں۔موخر الذکر ''حزب اللہ‘‘ کے مقتول لیڈر عماد مغنیہ کے داماد ہیں‘تاہم لبنانی تنظیم کے ان تینوں سینئر ارکان کی موت کی تادمِ تحریر تصدیق نہیں کی گئی‘ لیکن ان کی قاسم سلیمانی کے ساتھ موجودگی متوقع تھی۔
جنرل قاسم سلیمانی صرف ایک تجربہ کار عسکری لیڈر ہی نہیں‘ بلکہ ایران کی ''القدس فورس‘‘ کے ہائی کمشنر بھی تھے۔ وہ خطے بھر میں سیاست دانوں سے غیرعلانیہ ملاقاتوں کے لیے پہنچ جاتے تھے‘ان سے میٹھی میٹھی بات چیت کرتے‘انہیں اپنے ملک کی حمایت کے لیے ایران کی شرائط پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے۔وہ ایران کے خطے میں توسیع پسندانہ منصوبے میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔اس لیے اب ''حزب اللہ‘‘ کی جانب سے بھی امریکہ کے حملے کاردعمل یقینی قرار دیا جا رہا ہے ۔
خطے میں بگڑتی صورت ِ حال کے پیش نظر جغرافیائی قافلوں میں شریک ہمسایہ ملک پاکستان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرجانبدار رہنے کو ترجیح دی ہے۔ پاکستانی وزارت ِخارجہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ اعلان ہو چکا‘ جس میں پاکستان کی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کا کہا گیا۔اس اعلان کے ساتھ خطے کی بگڑتی ہوئی صورت ِ حال پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس بگڑتی ہوئی صورت ِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔کیا ''حزب اللہ‘‘ لبنان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑے گی ؟یا وہ کسی اچھے لمحے کے انتظار میں اب‘ خاموش بیٹھے رہے گی؟ فہرست میں شامل بہت سے اہداف میں سے کسی ایک پر حملہ کرگزرے گی؟''حزب اللہ‘‘ کو بھی ایران کی بہت سی حمایت یافتہ تنظیموں کی طرح لبنان‘ شام اور عراق میں مقامی سطح پر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے‘ مگر''حزب اللہ‘‘ فوجی کارروائیوں میں اپنی صلاحیتوں کا سکہ منواچکی ہے۔امریکہ کی مالیاتی پابندیوں کے بعد اس کی سرگرمیاںعیاں ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی کی موت امریکہ کی ایران کے خلاف جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی عکاس ہے، کیونکہ امریکی ڈرون اور اس کے میزائلوں نے صرف دو افراد کی زندگیوں ہی کا خاتمہ نہیں کیا‘ بلکہ یہ امریکہ کی سابق حکومتوں کی مفاہمتی پالیسی کے خاتمے کی بھی علامت ہے۔ لبنان اور عراق میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے ایران کی پوزیشن اور کمزوریوں کو طشت ازبام کرنے کے پیچھے امریکہ کی سازش قرار دی جارہی ہے۔ایرانی ابھی تک یہی خیال کیے بیٹھے تھے کہ اوباما ڈاکٹرائن پر عمل کیا جارہا ہے اور صدر ٹرمپ کے جنگ میں نہ کودنے کی پالیسی سے کسی نقصان سے بچیں رہیں گے‘ مگر حالات نے اچانک نیا رخ لے لیا ہے۔
امریکی پالیسی بدل رہی ہے۔ اس نے ایرانی جنرل کو قتل کر کے ایران کو پیغام دیا کہ وقت بدل چکا ۔ امریکہ شعوری طور پر اب ‘اس کے لیے تیار ہے کہ ایران کوئی بڑا ایڈونچر کرے ۔دوسری جانب ایرانی صدر کاعراقی ہم منصب برھام صالح سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ایران اور عراق کو امریکہ کے جارحانہ اور مداخلت پسندانہ اقدامات کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ایرانی صدر کی جانب سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق عراقی پارلیمنٹ کی تازہ قرار داد کو اہم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی گئی کہ استقامتی محاذ کے کمانڈروں کا خون خطے میں ٹھوس تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔
الغرض حالات کچھ بھی ہوں ‘معاشی و دیگر بحرانوں میں گھری دنیا نئی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ کئی دہائیوںسے لڑتے ہوئے ممالک کو امن چاہیے اور یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved